وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ

 خبردار! ۔۔۔۔۔جو تم نے میرے باپ کے لیے ساتھ گستاخانہ   لفظ بھی منہ سے نکالا  ورنہ۔۔۔۔ ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو  ہم اکثر سنا کرتے ہیں جب کوئی کسی  کے باپ یامحبت اور احترام والی شخصیت کے ساتھ  گستاخانہ الفاظ استعمال کرے ۔ بعض اوقات بات اس سے بڑھ بھی جاتی ہے اور نوبت لڑائی مار کٹائی اور اس سے بھی آگے ۔۔۔۔یہ دراصل کسی کے کسی کے ساتھ  محبت  کی شدت کی دلیل اور ثبوت ہے ۔ اور دعوٰی  ،دلیل  کی سند کے بغیر محض دعویٰ ہی ہے۔محبت جتنی زیادہ شدید ہوگی اس کا جواب اتنا ہی شدت کے ساتھ آئےگا۔جس طرح گزشتہ دنوں  ناروے کے شہر میں ایک واقعہ قرآن کو نظر آتش کرنے کی کوشش کے نتیجے میں آیا ۔جب  قرآن مقدس کو نظر آتش کرنے کی کوشش پرنوجوان عمر دھابہ نے بھر پور حملہ کیا  اور اس گستاخ کی لاتوں اور گھونسوں سے خبر لے ڈالی  وہ تو پولیس بیچ میں آگئی ورنہ جہنم کی طرف بھی روانہ کردیتا۔۔۔اس بات سے بے پرواہ کے اس کے بعد کیا ہوگا۔اسی پر شاعر کہتا ہے:

بے خطر کود پڑا عشق ، آتش نمرود میں

عقل  محو  تماشا   ہے  لب   بام     ابھی

اللہ ، رسولؐ اور قرآن کے ساتھ محبت کاثبوت ہر دور میں دیا جاتا رہا ہے  اور اگر ان سے محبت نہ  ہو تو ایمان کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔جب بھی کسی نے دلیل  مانگی ہے ۔  اس کو امت کی طرف سے دندان شکن جواب ایسا ہی ملا۔۔۔کہ دانت کھٹے ہوگئے اور بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ اس  امت کو اپنےمحبوب کے ساتھ کتنی وارفتگی اور محبت ہے ۔

اللہ کے نبیؐ وضو فرمارہے ہیں وضو کا استعمال شدہ پانی  جسم اطہر سے گر رہا ہے صحابہ رضوان اللہ اجمعین اس پانی کو اپنے جسموں اور چہروں پر  مل رہے ہیں  اور جس کو پانی نہیں مل رہا تھا وہ ان صحابی کے ہاتھوں کو مس کرکے اپنے جسم اور چہرے پر مل رہے تھے۔ اتنے میں قریش کا سفیر آتا ہے وہ اس منظر کو دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے ۔ جاکر اپنے ساتھیوں کو بتائے بغیر نہیں رہ سکا کہ میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے  ہیں مگر محمدؐ کے ساتھیوں کی آپؐ کے ساتھ محبت اور وارفتگی کی کہیں مثال نہیں دیکھی۔

اللہ کے نبیؐ کےساتھیوں کی محبت  کا رنگ  کتنا گہرا تھا ۔ جب عبداللہ بن ابی نے کسی سے کہا کہ اب دیکھنا کہ کس طرح عزت والے ان ذلیلوں کو مدینے سے نکالیں گے یہ بات جب عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ نے سنی  تو تلوار نکال کر کھڑ ے ہوگئے  اور کہا کہ  میں تمہیں مدینے میں داخل ہونے نہیں دوں گا ۔ جب یہ بات آنحضورؐ نے سنی کہ عبداللہ بن ابی کے بیٹے  نے عبداللہ بن ابی کا راستہ روک دیا ہے اس گستاخی کے خلاف جو اس نے آنحضورؐ کی شان میں کی ہے اس کا علم حضورؐ  کو ہوگیا۔ آپﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے  عبداللہ بن عبداللہ کو  حکمت کے ساتھ سمجھایا تو انھوں نے باپ کو گھر آنے کی اجازت دی اس پر عبداللہ بن ابی سیخ پا ہوا۔

اللہ کی کتاب کہہ رہی ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ اعلان جنگ ہے تو  وقت کے ابلیسی حرکارے  عدالت جاکر یہ کوشش کرتا پایا گیا کہ سود کے بغیر معیشت کا پہیہ نہیں گھومے گا  اور عدالت نے کہا کہ متبادل نظام پیش کیا جائے۔۔۔رسولؐ فیصلہ  دے رہے ہیں  گستاخ نبی اگر غلاف کعبہ  میں بھی پایا گیا تو اس کی سزا موت ہے ۔ ۔۔اور آج  کا یہ روشن خیال ،رات کی تاریکی میں آسیہ ملعونہ کو خصوصی پرواز کے ذریعے ملک کی سرحدوں کے اس پا ر پہچانے کا انتظام کرتاہے۔

قائد اعظم  سے کسی نے پوچھا کہ  “پاکستان کا دستور کیا ہوگا ؟” قائد اعظم نے جواب دیا کہ “میں اس ملک  کا دستور بنانے والامیں کون ہو ں اس کا دستور تو آج سے چودہ سوسال پہلے قرآن کی شکل میں آچکا ہے ” حکومت اعلان کرتی ہے کہ آج سے جمعہ کی چھٹی منسوخ کی جاتی ہے اور اتوار کو چھٹی ہوا کرے گی ہم اس طرح دوسری قوموں کے ساتھ ترقی کریں گے۔ مگر قرآن میں اللہ تعالٰی تو فرمارہاہے کہ “جب جمعہ کی اذان دے دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو معاشی سرگرمیاں چھوڑ دو”۔۔۔۔۔(سورہ  جمعہ)

مدینے کی گلیاں ہیں کوئی دوڑ ا دوڑ ا آیا کہ  آج سے شراب حرام ہوگئی ہے اوراس کے بعد۔۔۔۔کسی نے منہ کے جام پھینک دئے ، کسی نے حلق میں انگلی ڈال کر قے کردی  اور مدینے کی نالیوں میں شراب بہتی نظر آئی۔۔۔آ ج قومی اسمبلی کے فلور پر شراب کی پابندی کے لیے ہندو اقلیتی رکن کی تقریر  ہوتی  ہے اور اس کے خلاف ایک رکن اسمبلی  یہ کہتا ہےکہ سستی شہرت کمانے کا یہ ایک ذریعہ ہے۔ایک عدالت  شراب کے لائیسنس  کے اجرا ء پر پر پابندی لگاتی ہے  تو یہ فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج ہوتا ہے پہلا فیصلہ منسوخ دوسرا فیصلہ۔۔۔۔ شراب کی  نئی دکانیں  اس پر لمبی قطاریں  ۔۔۔۔۔۔  اس طرح  بہت سے فیصلے اور بھی ہوئے ہیں اس کے  لیے ان لوگوں کو بیدار ہنا ہوگا جو کہ اپنے سینے میں اللہ ، قرآن اور اس کے رسول ﷺ سے گہرا عشق رکھتے ہیں ۔ جہاں بے حسی ہے وہاں  ایک لمبی فہرست  عاشقان  مصطفٰےؐ کی ہے۔

ایسی بے شمار مثالیں ہر دور میں ملیں گی   لیکن آخر یہ نوبت کیوں  آرہی ہے۔ مسلسل  یہ جسارت کفار کی طرف سے کی جارہی ہے۔یہ دراصل ہماری انفرادی  اور اجتماعی  غفلت کا نتیجہ ہے  اور وہ غلطی اللہ کے اس حکم  سے مجرمانہ غفلت کانتیجہ ہے  جس میں اللہ تعالٰی حکم دے رہا ہے کہ” تفرقے میں نہ پڑو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو”

جواب چھوڑ دیں