سوئے رہنا، کچھ نہ کہنا

اب بھی وہی ہو گا ۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر ہوتی رہیں گی۔ لمبی لمبی بحثیں ہوں گی۔ دشمنان دین کو چند موٹی موٹی گالیاں اور لعنتیں دے کر ہم اپنا فرض ادا کریں گے اور دو دن بعد سب بھول جائیں گے۔ وقت کی گرد بھی کافی آلودہ ہو گئی ہے کہ اس کی تہہ جلدی اور موٹی جمتی ہے۔ کیا ہم میں سے کوئی پھوٹ پھوٹ کے روئے گاکہ ہمارے قرآن کی عزت کو سر بازار پامال کیا گیا ؟ کیا کوئی سجدوں میں گڑگڑا کررب سے استغفار کرے گا کہ وہ ہماری بے بسی پر ہمیں معاف کر دے؟ کیا کوئی چند لمحے نکال کر سوچے گا کہ یہ بے توقیری جو مسلمان کا مقدر بن چکی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ ۔۔۔

کوئی کچھ نہیں کرے گا ۔ یہ ٹک ٹاک نسل اتنی فارغ تھوڑی ہے کہ ایسی دقیانوسی اور بے کار کی باتوں میں پڑ کر اپنا cool اور chill ٹائم برباد کرے۔ تو ٹھیک ہے۔ ایسی قوم کا ایسا ہی حشر ہونا چاہئے۔ جس امت کا ضمیر مرنے کے بعد گل سڑ چکا ہو اسے گدھ نوچتے بھی رہیں تو کیا فرق پڑ تا ہے۔ مسلم ممالک اپنے مفادات کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں ۔

عوام اپنے فرقے اور سیاسی وابستگی میں اس بری طرح تقسیم ہو چکی ہے کہ مخالف کو گالی دیئے بغیر بات نہیں کرتی۔ ایسے میں کونسی امت؟ کہاں کا اتحاد؟ کیسی طاقت؟ غلاموں کی اوقات ذلیل ہونے کی ہے سو ہمارے نور مبین ہمارے قرآن کریم کو وہ درندے روندتے رہیں گے اور ہم مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو واجب القتل قرار دیتے رہیں گے۔ ہمارے ساتھ اچھا ہو رہا ہے۔۔۔ ہمارے ساتھ انصاف ہو رہا ہے ۔۔ وہ انصاف جو قدرت کرتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں