دہرے معیار

درد کی اِک شدید لہر اس کے چہرے سے دل تک دوڑ گئی، اس قدر درد اسے چہرے پر پڑے تھپڑ سے نہیں ہوا تھا، جس قدر ماموں کے الفاظ اور ان کا لہجہ اس کا دل کاٹ گیا تھا۔ تیرا باپ مرگیا جو کسی قابل نہیں تھا ،یہ سب کیا سوچ کر لکھتا ہے …. کون سا غم ہے تجھے؟ کیا روگ ہے تجھ کو…! ہمیں بھی بتا …! ہم بھی تیرے ساتھ مل کر روئیں، بڑے ماموں کوئی لحاظ رکھے بغیر اُسے بری طرح لتاڑ رہے تھے۔

ممانی بس کچھ دور بیٹھیں جیسے ”گم صم“ اپنے خیالات میں مشغول ماموں کی گرج برس سے بے نیاز تھیں۔ ابے یہ کیا ہے بتا….!ماموں نے اس کی ڈائری کو کھول کر اسے دکھایا۔

عشق تماشا لگا رکھا ہے یہاں

اِک چاہتوں کی سرکس میں

ابے بتا …. نا ….! ماموں ہر لحاظ کوبالائے طاق رکھے اسے مخاطب کررہے تھے۔ کس کے عشق میں لکھتا ہے …. بتا ۔ بول۔ یہ ڈائری کے ہر دوسرے صفحے پر جو لکھ رکھا ہے ۔

رنجشوں کے نصاب سے چاہتوں کے اقتباس

یہ کون سی رنجشیں ہیں …. کس حرام زادی کی چاہتوں کے اقتباس لکھتا ہے بتا …. نا ۔ ماموں اس کی ڈائری ایک ہاتھ سے کھول کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے دوسرے ہاتھ سے اس کی گردن پکڑے جھنجھوڑ رہے تھے۔ کتنے پیار سے تجھے پال رہے ہیں، ہر خواہش، ہر خرچ پورا کرتے ہیں تیرا ۔ اچھا کھانا … اچھا پہننا۔ یہ Denim کی شرٹ کتنے کی ہے۔ انہوں نے اس کی ٹی شرٹ کو پکڑ کر کھینچا۔ کبھی اتنے پیسے بھی کمائے ہیں۔

وہ اب اپنے ہی بھانجے کو جتا رہے تھے۔ مہنگی یونیورسٹی، انجینئرنگ کے خرچے … اور جناب ہیں کتے کی دُم۔ سائنسدان کی اولاد … ماموں اسے مار مار کر اب خود تھک گئے تھے۔ تو اس کے سامنے ٹہلتے بولے جارہے تھے۔بہت فلاسفر سمجھتا ہے خود کو … انجینئرنگ پڑھ کر جناب فلسفے لکھیں گے۔ ماموں اس کی جانب متوجہ ہوکر بولے۔

ماموں ….؟ آپ بھی تو سول انجینئر ہوکر کپڑے کا کاروبار کررہے ہیں، آپ نے انجینئرنگ کیوں نہیں کی….؟؟اس نے ماموں کی جانب دیکھے بغیر جھکی نظروں سے سوال داغ دیا۔ کچھ پل وہ غور سے اسے دیکھتے رہے۔ شہر کے نامور صنعت کار حسین بزدار سے سوال کیا گیا تھا۔اب تو مجھ سے سوال کرے گے …؟ بدتمیز اوقات دیکھ اپنی ۔ یک لخت وہ غصے سے چلائے اور پھر انہوں نے اس پر لاتوں گھونسوں کی برسات کردی۔

٭….٭….٭

اگلی شام کامرس کلب کی جانب سے عشائیہ دیا گیا تھا، مہمان خصوصی حسین بزدار صاحب کو دعوت دی گئی کہ چند قیمتی الفاظ سے نوازیں۔ ہال میں کامرس فیلڈ کالج کے حالیہ گریجویٹس کے ساتھ شہر کے متعدد بزنس مین بھی موجود تھے۔

حسین بزدار صاحب نے تمہید کے بعد کہنا شروع کیا۔ انسان جو چاہے بن سکتا ہے، لازم نہیں کہ بنایا جائے، انسان اپنی پیدائشی صلاحیتوں کے باعث اپنی شخصیت، اپنی ذات اور زندگی میں اپنا مقام لے کر پیدا ہوتا ہے۔

بس اس زندگی میں اسے اپنی شخصیت کو نکھارنا ہوتا ہے، ذات کو پہلو بہ پہلو اُجاگر کرنا ہوتا ہے اور اپنا مقام دنیا کو منوانا ہوتا ہے۔ آپ میں سے چند لو گ کاروبار کو ذریعہ معاش بناکر زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں، انہیں کاروبار میں ہر دوسرے موڑ پر اُلجھنوں کا سامنا رہتا ہے جب کہ کچھ لوگ کاروبار کو زندگی کی پہچان بناکر صنعت کار اور تاجر کے طور پر اپنی شخصیت نکھار رہے ہیں، معاشرے میں اپنا مقام منوا رہے ہیں۔

آپ کی شخصیت آپ کی صلاحیتوں پر بنیاد رکھتی ہے، اپنی صلاحیتوں کو مرنے مت دیجئے، دل زندہ رکھئے اور ہمیشہ وہ کیجئے جس میں آپ کی دلچسپی ہے، صلاحیت ہے اور شوق ہے، زندگی کامیابی کی جانب بڑھنے لگے گی۔ پورا ہال حسین بزدار صاحب کی جہاندیدہ باتوں پر تالیاں پیٹ رہا تھا۔

جواب چھوڑ دیں