زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ مگر کیوں؟

حبیب الرحمن

گزشتہ کئی ہفتوں سے یہ بات علم میں آ رہی ہے کہ پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی خبر پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے ایک خوش کن خبر ہے اس لئے کہ موجودہ پاکستان جن مشکل اور کٹِھن دور سے گزر رہا ہے اور جس تیزی کے ساتھ معاشی صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے، ایسے موقع پر ہر وہ خبر جس میں پاکستان کیلئے کوئی امید افزا اطلاع ہو تو جسم و روح کو بڑا سکون ملتا ہے۔

ایک جانب زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافہ اور دوسری جانب ہمارے اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری سرگرمیوں میں مثبت رجحان اس بات کی علامت ہے کہ بااعتبارِ معیشت اب پاکستان کے پاؤں مضبوط ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ایک روزہ مندی کے بعد کاروباری ہفتے کے تیسرے روزبدھ کواتارچڑھاؤ کے بعد تیزی رہی اور کے ایس ای 100انڈیکس کی 37100کی حد بحال ہوگئی، تیزی کے نتیجے میں سرمایہ کاری مالیت میں 59 ارب 69 کروڑ روپے سے زائدکااضافہ ہوا۔ کاروباری حجم گذشتہ روزکی نسبت 5.69 فیصد کم جبکہ 60.68 فیصد حصص کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسٹاک ایکسچینج کی یہ تیزی پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے ایک اچھی نوید ہے اور دعا گو ہونا چاہیے یہ تیزی بر قرار رہے۔

جس انداز میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور اسٹاک ایکسچینج کی خبروں کو نمایا کیا جارہا ہے اس کا دوسرا مطلب اس کے علاوہ کچھ اور لیا ہی نہیں جا سکتا کہ کسی بھی ملک کی معیشت کا اگر جائزہ لینا ہو اور وہاں پر ترقی و خوشحالی کو ناپنا مقصود ہو تو ہم عام طور پر وہاں کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور وہاں کے اسٹاک ایکسچینج کی صورت حال پر ایک نظر ڈال کر اندازہ کر لیتے ہیں کہ صورت حال کیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہمیں ماضی قریب یعنی تین چار برس قبل کی صورت حال کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ تین چار سال قبل پاکستان کا اسٹاک ایکسچینج 53000 کی سطح سے بھی بلندی پر پہنچا ہوا تھا اور زرِ مبادلہ کے ذخائر آج کے ذخائر سے کم از کم تین گناہ زیادہ تھے۔ گویا آج سے سے تین یا چار سال پہلے کا پاکستان معیشت کے اعتبار سے کم از کم دو گنا زیادہ مضبوط اور اپنی ضروریات کو کئی برس تک پورا کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ یہ سب صورت حال اس وقت کی تھی جب آج کے مقابلے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آج سے تین گنا سے بھی زیادہ کم تھیں۔ آج کے مقابلے میں مہنگائی 200 فیصد کم تھی۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 30 سے 50 روپے کم تھی۔ گیس سستی تھی، بجلی کے ریٹ آدھے تھے اور اشیا ضروریہ اور تنخواہوں پر لگائے گئے ٹیکس بھی آج کے مقابلے میں کہیں کم تھے۔ ان سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ڈالر صرف 94 روپے کا تھا جو اب 158 روپے پر پہنچا ہوا ہے۔

موجودہ حکومت جو اس وقت اپوزیشن میں تھی، اس کی آنکھیں اس وقت جو کچھ دیکھ رہی تھیں وہ عوام پر “ظلم” کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ رہی تھیں جو عوام پر مہنگائی کی صورت میں اِس وقت کی سابقہ حکومت نے عوام کے سر پر توڑا ہوا تھا۔ ڈالر کا 94 روپے پر آجانا، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کا 40 روپے کلو سے بھی کم نرخ پر دستیاب ہونا، پٹرول کا 80 روپے کے قریب ہونا، ڈیزل کا 100 سے کم ہونا، ہر چیز پر آج کے مقابلے میں ٹیکس کم ہونا، مختلف قسم کے سرچارجز کا آج کے مقابلے میں بہت کم ہونا، بجلی اور گیس کے فی یونٹ ریٹ آج کے مقابلے میں کہیں کم ہونا جیسے اقدامات اس وقت کی اپوزیشن اور آج کی حکومت کے نظر میں عوام پر ایک ظلمِ عظیم تھا۔ ان سب سے بڑھ کر قرضوں کا انبار لگا ہونا اور بد عنوانی کی مد میں روزانہ 12 ارب سے زیادہ کی خرد برد ایک ایسا گھناؤنا عمل تھا جو کسی بھی صورت میں اس وقت کی اپوزیشن کیلئے قابل قبول نہیں تھا۔ موجودہ حکومت کی یہ سوچ ایک ایسی مثبت اور قابل تقلید سوچ تھی جس کو عوام میں کافی پذیرائی ملی اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے آجانے سے ہمیں سکون و اطمنان ملے گا۔ دنیا کے آگے دست سوال دراز کرنے سے بچ جائیں گے۔ مہنگائی سے نجات مل جائے گی، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان کی بلندی سے گر کر زمین کی پستیوں سے آ ملیں گی، مارکیٹ میں ہر قسم کی اشیائے ضروریہ اور عام استعمال کی چیزیں سستی ہوجائیں گی، بدعنوانی کے خاتمے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت 46 روپے تک گرجائے گی، ایک کروڑ نوکریوں کے دروازے کھلیں گے، بے گھروں کو گھر ملے گا، تعلیم سستی اور معیاری ہوجائے گی، غریب عوام کا مفت علاج ہوا کرے گا، سرکاری اسپتالوں میں اضافہ ہوگا اور جواسپتال موجود ہیں ان میں سہولتیں بڑھ جائیں گی اور پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے گا کہ وہ تمام ہنر مند اور مزدورپاکستانی جو ملک کی خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے اپنی روزی روٹی کیلئے ملک سے باہر اپنے عزیز و اقارب سے دور، چار پیسے کمانے کیلئے غریب الوطنی کی اذیت جھیل رہے ہیں وہ سب کے سب پاکستان کی جانب لوٹ آئیں گے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے افراد بھی پاکستان کی جانب دوڑے چلے آئیں گے۔ یہ تھیں وہ سارے امیدیں جو سادہ لوح عوام نے موجودہ حکومت سے وابستہ کی ہوئی تھیں لیکن ان کے یہ خواب، خواب ہی ثابت ہوئے کیونکہ جب ان کی ہوش والے آنکھیں کھلیں تو ہر معاملہ اس کے برعکس نظر آیا۔

زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی خبر اپنی جگہ درست ہی ہوگی لیکن اس بات کی وضاحت کون کریگا گا کہ آخر پاکستان نے ایسا کیا کر لیا کہ ہمارے فارن ریزرو بڑھ گئے۔ کارخانے تعمیر کر لئے، ملیں بنالیں، ریلوے لائین کے نئے نئے ٹریکوں کے جال بچھا دیئے، موٹرویز پھیلادی گئیں، نئے نئے ایئر پورٹس بنادیئے گئے، پاکستان میں ہوائی جہازوں کی پروازے بڑھ گئیں، گیس اور تیل کے نئے اور بڑے ذخائر دریافت کر لئے گئے، ہیروں کی کانیں ابل پڑیں، سمندر اسلام آباد تک چلا گیا یا چاند ستارے زمین پر اتر آئے۔ غیرملکی کرنسی یا زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کی آخر کوئی تو وجہ ضرور ہوگی کیونکہ یہ کوئی کھیتی، باغ یا جنگل تو نہیں جہاں سے ڈالرز، پونڈز، ریال یا پاکستانی روپوں کے درخت پھوٹتے ہوں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں ایسا کوئی ایک واقعہ، حادثہ یا معجزہ دیکھنے میں نہیں آنے کے باوجود بھی اگر یونہی بیٹھے بیٹھے ذخائر میں اضافہ ہوسکتا ہے تو پھر اس کو اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد ہی کہا جاسکتا ہے جس پر پوری قوم کو سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے۔

یہاں جو سوال عوام کے ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے جب پورے ملک کے سارے ترقیاتی کام روک لئے گئے ہیں، کسی بھی قسم کی نہ تو شاہراہیں تعمیر ہو رہی ہیں اور نہ ہی ریلوے ٹریک بنائے جارہے ہیں، وہی سڑکیں ہیں، ملیں اور کارخانے ہیں، وہی ایئرپورٹس ہیں اور وہی آبی و تیل بجلی کے ذخائر۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ بھی کردیا گیاہے اور ٹیکس کی مدآت بھی بڑھادی گئی ہیں، بجلی گیس، ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں بھی اضافہ کردیا گیا ہے، قرضوں کی مد میں بھی سابقہ حکومت ہی نہیں، حکومتوں کے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے گئے ہیں اور ان سب سے بڑھ کر 12 ارب روپے کی یومیہ “کرپشن” کے دریا کے سامنے بند بھی باندھ دیئے گئے ہیں تو زر مبادلہ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں کیوں نہیں آرہا؟۔ یہ سب سرمایہ، مائع بنا کر کہاں بہایا جارہا ہے یا گیس کی صورت میں کہاں اڑایا جارہا ہے۔

یہ بات بھی بہت تشویشناک ہے کہ گزشتہ 16 مہینوں سے یہ سنتے چلے آرہے تھے کہ ملکی اور اور غیرملکی کرنسی میں خطرناک حد تک کمی ہوتی جارہی ہے لیکن اب دو تین ہفتوں سے جو یہ خبریں آرہی ہیں کہ ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے تو پھر اہل شعور اس بات کو جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جہاں سے ملکی و غیر ملکی کرنسی کے سوتے پھوٹ نکلے ہیں۔

پاکستان کے اہل دانش اور عوام ہی نہیں، غیر ملکی تبصرہ نگار بھی اس شک کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیر پر اگر بے رحمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور وہ اپنے عوام میں سے بھی کوئی ایسی صدا یا نعرہ سننے کیلئے تیار نہیں جس میں بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف لفظ “جہاد” استعمال کیا جائے۔ کہا یہ جارہا ہے ہماری کسی بھی قسم کی عوامی یا عسکری جارحیت”کشمیرکاز” کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اب کوئی یہ بتائے کہ “کشمیرکاز” کا آخر مطلب کیا ہے اور وہ ہمارے خاموش رہنے سے کتنا سود مند ثابت ہوگی۔

ایک خدشے کا اظہار یہ بھی کیا جارہا ہے کہ قادیانی لابی اپنے اور سکھوں کو دی جانے والی ہر مراعت پر کروڑوں ڈالرز کی بارش برسانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ سکھوں کیلئے راہداری کھولنے کی افتتاحی تقریب میں ان کی بھاری تعداد میں شرکت اس شک کو اور بھی زیادہ تقویت دیتی نظر آتی ہے۔ ان دو وجوہات کے علاوہ تو فی الحال پاکستان میں ایسی کوئی بھی منافع بخش اسکیم نظر نہیں آتی جس کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکے کہ ان ہی دو اقدامات کی وجہ سے ہمارے ملکی و غیر ملکی کرنسیوں کے ذخائر میں اضافہ ممکن ہے۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ معاملات کی اتھاہ گہرائی تک اترا جائے اور اس بات کی حقیقت کو جانا جائے کہ آخر پاکستان کا اسٹاک ایکسچینج کیوں اوپر کی جانب جارہا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں