فتنہ

جب میں چھوٹی ہوتی تھی تو بعض دفعہ لڑائی وغیرہ میں میرے بھائی مجھے کہتے تھے یہ فتنہ ہے کبھی کبھی امی بھی کہتی تھیں لیکن میں نے کبھی کسی کا برا نہیں منایا شاید سمجھ نہیں تھی لیکن بعدمیں امی کے غصے کو اور اپنی شرارتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی اچھا لفظ نہیں ہے۔ پھر میں کمبائن فیملی میں آئی اور میرا بیٹا بعض دفعہ بلا وجہ کی ضدیں کرکے کبھی دیگر جیٹھانی کے بچوں سے کبھی خود نندوں سے کبھی جیٹھانیوں سے اور کبھی کبھی بلکہ اکثر ہم میاں بیوی میں بھی کوئی نہ کوئی لڑائیاں لگوا دیتا تھا مطلب معمولی معمولی بات پر لوگ گرم ہو جاتے تھے بعض دفعہ ناراضگی بڑھ جاتی تھی بڑوں میں جبکہ بچے سب نارمل اور اپنے والے کو تو پرواہ ہی نہیں کہ کیا گیا؟ کس وجہ سے ہوا؟ بہر حال علامہ اقبال ؒ کے جب اشعار پڑھتی تھی تو واقعی دل سے ان کی قدر ہوتی تھی بعض دفعہ گتھے سلجھ جا تے تھے اور ہر موضوع نمایاں وضا حت کے ساتھ غلطی اور کوتا ہی واضح ہو جاتی تھی مطلب حق وا ضح ہو جاتا تھا۔ اس طرح ایک دفعہ ان کے یہ چند اشعار پڑھے مجھے اپنی غلطی واضح ہو گئی اور جو میں بھی کبھی اپنے بیٹے کو آرام سے فتنہ کہہ کر پکار دیتی تھی اس پر شرمندگی ہونے لگی۔ افسوس بعض دفعہ تلافی کا موقع نہیں ملتا کبھی لوگ نہیں ملتے اور کبھی یاد نہیں رہتا مگر جب آج کل ہم اکثر دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ اس فتنے کے دور میں ہماری حفاظت فر ما۔ تو سوچتی ہوں یہ کونسا فتنوں کا دور ہے؟ جی ہاں یہ فتنوں کا ہی دور ہے جہاں ذرا ذرا سے بات پر فساد ہوجاتا ہے، لڑائی جھگڑے ہاتھا پائی سے بڑھ کر قتل و غارت گری تک نوبت آجاتی ہے مثلاً بجلی کا بل ایک دم بڑھ کر آگیا؟ سبزی والے نے 80روپے کلو کے بجائے 80 روپے پاؤ شملہ مرچ کہے۔ کسی نے دس روپے کی روٹی کو کسی نے بارہ روپے کی روٹی دی۔ کریم ٹیکسی والے نے گھر پہنچ کر میٹر کے باوجود اتنا زیادہ کرایہ بتا یا کہ بندے کا اپنا میٹر گھوم جائے۔ راستے میں بائیک پر بچے بڑے ملا کر چھ ساتھ سوا ریاں تھیں تو دوسری طرف ایک ایسی محترمہ کو بائیک پر دیکھا جن کا حلیہ ہوش اڑا کر اگلے پچھلے گاڑی والوں کو اڑانے پر تل جائے اللہ کی پناہ! میں سوچتی ہوں علامہ اقبالؒ کی سوچ اور کردار کتنا عظیم تھا کہ انہوں نے فتنہ کا صحیح مفہوم سمجھا کر گویا تبلیغ کا عمل ایسا متحرک کیا جو ہر کسی کے لئے ایک وارننگ اور شعوری اعتراف جرم ہے۔مجھے واقعی اس سے بڑی تقویت ملی کہ واقعی ہر وہ کام جو ہمیں اللہ سے دور کردے کبھی بھی سکون اور امن کا باعث نہیں اس سے ضرور فساد ہوگا گویا وہ فتنہ ہے انہوں نے فرمایا کہ
اللہ سے کرے دور، تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کیلئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
ہر بات سوچئے کتنی درست ہے اور آج کے دور میں جو تعلیم ہے وہ دینی تعلیم اورمعرفت سے خالی ہے ساری دنیا پہ طاری ہے انسان پوری دنیا کو مٹھی میں لیے گھو م رہا ہے مگر وہی کہ دینی تعلیم سے بے بہرہ اللہ کی کبریائی خالق اور رازق ہونے پر بے اعتباری اپنی ہوشیاری باقی سب سے بے اعتنائی گو یا غداری سے کم نہیں تو پھر کیا ہو گا وہی فتنہ فساد۔ مجھے احساس ہوا کہ بچوں کو فتنہ نہیں بولنا چاہئے کیونکہ وہ تو فرشتہ صفت ہوتے ہیں بگاڑ کا ذریعہ تو ہم خود ہوتے ہیں جو جو تحمل کی دولت گنوا کر فتنوں کوجنم دیتے ہیں اور الزام دوسروں پر عائد کرتے ہیں۔ ابھی کل رات ہی کی بات ہے شادی کی تقریب سے واپس رکشہ میں آرہی تھی، ساڑھے گیارہ بجے ہال سے نکلے مگر راستوں میں جگہ جگہ میلاد النبیؐ کے سلسلے میں لائیٹس، جلسے، جلوس کھلونے والے غبارے والے لاکھوں ہزاروں موٹر سا ئیکلیں اور بے پناہ رش پیدل لوگ او ر موٹر سائیکلوں پر پوری پوری فیملیاں لدی بھری سوزوکیاں، گاڑیاں پھر سونے پہ سہاگا الٹا ٹریفک! لائیٹوں میں مائیک کا بے دریغ استعمال کہ کان پڑے آواز نہ سنائی دے اس میں کسی راہگیر کو ہارن کیا سنائی دے؟ بیچارہ رکشہ والا مصیبت میں گرفتار نہ پیچھے جا سکتا ہے نہ آگے مگر وہ آگے بڑھتا ہی چلا گیا چاروں طرف بھری ٹریفک میں رکشہ کا اگلا پہیہ فٹ پاتھ پر چڑھا پھر دھکیل کر پچھلے پہیے اور پھر دوسری جانب صحیح سمت میں رکشہ سڑک پر اتار لیا ہم سے کہتا ہے کہ جلدی سے بیٹھ جاؤ ہم اتنے بے بس اور مجبور تھے کہ کچھ نہ کرسکے کیونکہ وہاں کوئی اور چارہ نہ تھا وہی فتنہ کہ ابھی کچھ نہ ہو جائے مگر سبحان اللہ ہم سارا راستہ سفر کی دعا اور آسانی کی دعا کرتے کرتے پناہ مانگتے مانگتے گھر پہنچے۔ شکر ادا کیا اور خیال یہی آیا کہ واقعی اللہ کو ولی مان لینا اور شعوری طور پر رب کو تسلیم کرنا اسکی ماننا ہی فتنوں سے نجات کا ذریعہ ہے پھر یہ بھی خیال آیا کہ اس طرح راستوں میں رش کرکے دوسروں کو تکلیفیں دے کر بے پناہ اخراجات کرکے اپنی فیملیوں کے ساتھ یوں رات گئے بلا مقصد عورتوں اور بچوں کا ان جگہوں پر آنا۔ یہاں تک کے پیدل خواتین بھی روڈ کراس کر رہی ہیں رکشہ والا بھی کہنے لگا کہ یہ فتنہ ہے عورتوں کو کیا ضرورت پڑی ہے اتنی رات سڑکوں پر آنے کی۔ خواتین کا یہاں کیا کام؟ بیس تیس منٹ کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہو اور رات ڈیڑھ بجے ہم گھر پہنچے تو کیا عوام کا یہ طرز عمل 11 ربیع الاول کی رات درست ہے؟ اس طرح ہم تسکین پا سکتے ہیں۔ ادب احترام سنجیدگی اور رات کی خاموشی کے تقدس کی بات جو گھر میں افراد خانہ کے ساتھ دلجمعی عقیدت اور احترام کے ساتھ ہو ویسے تو اسطرح کا ہنگا مہ ہی رش میں نہیں ہو سکتا تو ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس طرح کی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا یہ آداب طریقت مناسب اور سنتوں کے مطابق ہے؟۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ شور و شرابہ راہوں میں ڈیرے یہ جشن کا ماحول ہمیں سنتوں سے ملتا ہے کہیں؟ ہم جذباتی تو نہیں ہورہے؟ اور نئی تبدیلیاں اپنا کر ثواب کمانے کے بجائے اللہ کی پکڑ میں آجائیں! اس لئے ہر وقت ہمیں اپنا جائزہ لینے اور احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم خود تو فتنے کا باعث نہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں