انصاف کا کٹہرا

بچپن سے سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ پڑھتے آئے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت ہے اور اس میں عرب کی ایک فاطمہ نامی خاتون کا مقدمہ پیش کیا جاتا ہےجس پر چوری کا الزام ثابت ہوتا ہے،بارگاہ رسالتؐ سے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم صادر ہوتا ہے،کچھ افراد کی طرف سے سزا میں تخفیف کی درخواست آتی ہے کہ وہ خاتون عرب کہ ایک با اثر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اس موقع پر نبی مہرباں صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ الفاظ جو سیرت کی کتابوں میں سنہری حروف سے لکھے گئے اور انصاف کے ایوانوں کے لیے ایک بہترین مثال بنے،” خدا کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا”

اور تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان حکمران اس اصول پر قائم رہے انصاف کی برکتوں سے حکمرانوں سمیت پوری امت مستفید ہوئی،

اورانہی اصولوں کی پاسداری کرتے وہ وقت کے حکمراں بھی دیکھے جو کہیں عوام کی عدالت میں بیت المال سے لی گئی چادر کا حساب دیتے نظر آئے اور کہیں کمر پہ راشن کے تھیلے لادے،اور کہیں فرات کے کنارے بھوکے کتے کی موت پر جوابدہی کے احساس سے پریشان اور اسی بے چینی کی کیفیت میں راتوں کو گلیوں میں گھومتے نظر آئے کہ یہ امارت پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں بھرا بستر ہے ان کے لیے جن کے دل میں خوف خدا ہو،جوابدہی کا احساس ہو،

اورآج صورتحال یہ ہےکہ بھوک کے ہاتھوں تنگ آکے خودکشی کرتے عوام، ننگ وافلاس سے بےچین ہو کے بچے فروخت کرتے والدین،خوداپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں گولیوں کی بھینٹ چڑھتے اور پھر انصاف کی بھیک مانگتے عوام،انصاف کے ایوانوں سے مایوس ہوکے خود سوزی و خودکشی پر مجبور،کہ یہاں کی عدالتیں انصاف کے اس درس کو فراموش کر چکی ہیں،بانجھ ہو چکی ہیں ان سے انصاف کی امید عبث ہے۔

پچھلے پندرہ سے بیس سالوں کا ہی جائزہ لے لیں کتنی آہیں،کتنی سسکیاں۔۔۔۔۔۔

کبھی جامع حفصہ کے مقتول کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں،توکبھی عافیہ صدیقی کی بوڑھی ماں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں ،کبھی ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں بےگناہ قتل ہونے والے کی بیوہ کا انصاف کی عدالتوں سے مایوس ہو کر خودکشی کرنا یاد آتا ہے،کبھی ننگے تاروں پہ جھولتی جوانیاں پکارتی ہیں (میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں)،بہت دور نہ جائیے ابھی تو زخم تازہ ہیں سانحہ ساہیوال کی بازگشت ابھی بھی کانوں میں سنائی دے رہی ہے۔۔۔۔۔۔

“غرض کہاں تک سنو گے کہاں تک سناوں”

فہرست بہت طویل ہے سب تحریر میں لانا بہت مشکل۔۔۔

اتنی ناانصافیوں کے بعد پھر ہم کیوں روناروتے ہیں بے برکتی بے سکونی بدحالی اورتنگی کا۔

شیخ سعدی کا قول ہے “میں نےساری زندگی دو آدمیوں کو تلاش کیا لیکن نہ پا سکا ، ایک وہ جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور وہ مفلس ہو گیا،دوسرا وہ جس نے کسی پر ظلم کیا اور اللہ کی پکڑ سے بچ گیا۔۔۔۔۔ ۔

کیوں کہ مظلوم کی آہ اور رب کے درمیان کوئی پردہ نہیں اورآج تک جتنے بھی ظالم جابر اور فرعوں گزرےجنہوں نے حکمرانی کے نشے میں مست ہو کر ظلم کیا وہ مظلوم کی آہ اور رب کی پکڑ سے نہ بچ سکے۔

مملکت خداداد پر منڈلاتے بے برکتی کے بادل، زمینی و آسمانی آفات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، یہ آفات و بلائیں بلاوجہ نہیں آیا کرتیں، خدا کبھی اپنی مخلوق کے ساتھ ظالم نہیں ہوتا، بلکہ وہ خود ہی اپنے لیے ظالم ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے وہ اپنی زمین پہ ظلم زیادتی نا انصافی اور فساد کو پسند نہیں کرتا اور جب وہ ناراض ہوتا ہے تو اپنی زمین سے خوشحالی و برکت اٹھا لیتا ہے،توبہ تک کی توفیق چھین لیتا ہے،ڈریں ہم اس وقت سےجب وہ بڑی عدالت انصاف قائم ہوگی جس میں کسی پر “زرہ”برار بھی ظلم نہ ہوگا نہ مصنف خریدے جاسکیں گے اور نہ ہی ظلم کی بولی لگے گی، اس روزمظلوم کو ظلم کا بدلہ دیا جائے گا ،  ناانصافیوں پر انصاف ملے گااور اس دن اس انصاف کے کٹہرے میں ہم سب کھڑے ہوں گے ،کیوں کہ ہم سب مجرم ہیں اس گناہ میں برابر کے شریک کیوں کہ ظالموں اور انصاف کے قاتلوں کواقتداروانصاف کےایوانوں اور مسندوں پر بٹھانے والے ہم، اور پھر ان کے جرم پر خاموش تماشائی بھی ہم۔۔۔۔۔۔۔

جواب چھوڑ دیں