کیا سمارٹ بورڈ بہتر تدریسی معاون ہے؟ 

اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ عصر جدید کی ترقی نے ہر شعبہ ہائے زندگی کے بنیادی تقاضوں اور انداز کو اس طرح بدل ڈالا ہے کہ انسان ہمہ وقت اپنے فکروعمل کے احاطہ میں لگا رہتا ہے۔اسے ہر وقت اپنے آپ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی فکر ستائے رکھتی ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے نہ صرف انسان کے اندازِ تمدن کو بدل دیا بلکہ طرز سیاست ومعیشت اور ثقافت واقدار کو بھی بے حد متاثر کیا ہے۔ایک دہائی قبل اپنائے جانے والا فیشن دورِ حاضر میں یوں خیال کیا جاتا ہے جیسے عصرِ حجر کی ثقافت میں سے ہو۔اس صورتِ حال نے نہ صرف سیاست، معاشیات، ثقافت، اقدار اور سماجیات کو بدل کے رکھ دیا ہے بلکہ تعلیم وتدریس کے روائتی انداز کو بھی فرسودہ ثابت کر دیا ہے، گویا جدید ٹیکنالوجی نے اگر دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افعال واعمال کو متاثر کیا ہے تو تعلیم وتدریس کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ہر ممکن سعی ضرور کی ہے۔یہ سب مبنی بر حقیقت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے طریقہ تدریس میں ایک انقلاب برپا کیا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ جدیدیت کے اس انقلاب نے استاد کی اہمیت اور اس کے مرکزی کردار کو اور حیثیت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے، اس انقلاب نے استاد کو بطور ثانوی کردار اور معاون شے کے طور پر معاشرہ کے سامنے رکھ دیا ہے۔

بلاشبہ تعلیمی ترقی میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور موجودہ دور میں طلبا کو تعلیمی موشگافیوں کو سمجھنے اور حل کرنے میں بھی آسانی محسوس ہوتی ہوگی تاہم اس ترقی نے جن دو چیزوں کا مدارس کے طلبا میں فقدان پیدا کیا ہے اس سے ہم ابھی تک لا علم ہیں،ایک معلم کی مرکزی حیثیت کا خاتمہ اور دوسرا طلبا کی اخلاقی تربیت کا فقدان،گویا جدید معاونات تعلیم نے سمارٹ بورڈ، پروجیکٹر، پریزنٹیشن اور کمپیوٹر جیسی سہولیات سے تو طلبا کو روشناس کروا دیا ہے لیکن ان طلبا سے اخلاقیات کی روح کو ان کے جسم سے نکال باہر کیا ہے، فلسفہ تعلیم میں سے فلسفہ اور تعلیم دونوں کو الگ الگ سمت عطا کر کے طلبا کو تعلیم کی بجائے محض ڈگری تک محدود کر دیا ہے۔ طلبا اب محض نمبروں اور گریڈ کی دوڑ میں شامل ہیں۔جدید طریقہ تدریس میں تعلیمی معاونات کو خاص کر سمارٹ بورڈ کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ جس ادارے میں سمارٹ بورڈ نہ ہو اسے معیاری تعلیمی ادارہ خیال نہیں کیا جاتا، لیکن میرے خیال میں اس آلہ کے استعمال سے ہم نے اپنے بچوں کو کنویں کا مینڈک بنا ڈالا ہے جیسے کنویں کے مینڈک کا یہ خیال ہوتا ہے کہ آسمان کی وسعتیں اتنی ہی ہیں جتنا کہ اسے کنویں کے اندر بیٹھے ہوئے نظر آرہا ہوتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے، ایسے ہی سمارٹ بورڈ کے استعمال سے والدین اور بچوں کا بھی خیال ہے کہ سمارٹ بورڈ کے استعمال سے اس نے تعلیمی میدان میں کوئی تیر مار لیا ہے،کسی بھی موضوع کو گوگل کر کے چند سلائیڈز تیار کر کے کلاس میں پریزنٹیشن دے کر طلبا سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تعلیمی میدان میں بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اس عمل سے طلبا کو تفریح تو مہیا ہو گئی لیکن وہ سبق کے جزئیات اور تعلیمی محاسن کو سمجھنے سے قاصر رہا ،جس کا  احساس طلبا میں اس وقت بیدار ہوتا ہے جب وہ اپنی کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی پیشہ ورانہ یونیورسٹی میں اپنی پروفیشنل ڈگری مکمل کرتے ہیں اس دوران انہیں اپنے موضوع کی جزئیات اور تفصیل کا جاننا انتہائی ضروری ہوتا ہے تو پھر انہیں طلبا کو محنت کرنا دشوار لگتی ہے۔جس کو سمجھنے کے لئے دلیل کے طور پر اس سال کا سی ایس ایس کا نتیجہ ہی کافی ہے کہ ٹاٹ اور گورنمنٹ سکولوں کے طلبا پاکستان کے سب سے بڑے امتحان میں پوزیشن حاصل کر رہے ہیں ،وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے اندر محنت کا جذبہ شروع سے ہی ہوتا ہے اور وہ محنت سے جی نہیں چراتے۔اس سے ایک بات اور بھی ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے کہ طلبا سمارٹ بورڈ،کمپیوٹر اور دیگر برقی آلات کے استعمال میں تو ماہر ہو جاتے ہیں لیکن کتاب سے اتنے ہی دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔یعنی مخصوص موضوع کی تفصیل اپنے کمپیوٹر سے کاپی پیسٹ کی اور پھر فارغ اور یہی ذہنی  فراغت طلبا کو منفی سرگرمیوں میں ملوث کرتی ہے۔

کتاب اور تحقیق سے بچے کی ذہنی استعداد میں جو اضافہ ہونا ہوتا ہے جب بچہ اسی وقت کو پب جی اور کنگ آف پرشیا کو دے گا تو طلبا یقینی طور پر اپنوں سے،تہذیب سے ،تعلیم اور کتاب سے دور ہی جائیں گے۔ مجھے بطور ایک استاد لگتا ہے کہ اہل یورپ نے ترقی کے ضمن میں ہم مشرقی لوگوں کو نہایت چالاکی اور کمال ہوشیاری سے ہماری استعداد کار اور محنت کو سمارٹ ورک اور سمارٹ بورڈ پر اس طرح سے منتقل کر دیا ہے کہ ہمیں ہماری سہل کاری کا بھی اندازہ نہیں ہو پایا۔ہم سمارٹ بورڈ کے استعمال سے ذہنی استعداد کار،محنت اور صلاحیتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں ،جب کہ والدین اپنے عزیز و اقارب میں فخریہ اندا ز میں اپنے بچے کے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں کہ ماشااللہ میرا بیٹا مکمل کمپیوٹر اور موبائل کو چلا لیتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں برقی آلات معاونات تدریس میں بہترین معاون بھی ہیں اور ان کے تعارف کا مقصد بھی شاید یہی تھا کہ استاد کے تعلیمی بوجھ کو کم کیا جائے  ساتھ ہی ساتھ اساتذہ اور طلبا میں ذہنی یکسوئی بھی پیدا ہو۔ لیکن کیا خبر کہ اس تعلیمی معانت سے طلبا اور استاد کے درمیان فاصلے بڑھ جائیں گے، بچے تربیت اور مشق سے کوسوں دور ہوجائیں گے۔ان کے استعمال سے طلبا میں سیکھنے کے عمل کی بجائے گریڈ کی ایک لا متناہی دوڑ شروع ہو جائے گی اور اس دوڑ میں بچے کی اخلاقیات کہیں سٹارٹنگ لائن پر ہی دم توڑ دے گی۔ لہذاہمیں تعلیمی نصاب میں ایسی سرگرمیوں کو بھی جگہ دینی چاہئے جس سے بچوں میں یہ ترغیب پیدا کی جا سکے کہ استاد اور طلبا میں کیسے فاصلے کو کم کیا جاسکتا ہے؟اس عمل سے بچے کے اندر احساس انسیت اور رشتوں کے ادب واحترام کا جذبہ بھی بیدار ہوگا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں