مولانا فضل الرحمان کا جانا ٹھہر چکا۔۔۔۔

مولانا فضل الرحمان کا ’’آزادی مارچ ‘‘اپنی منزل مقصود تک پہنچے اپنی تمام تر شعلہ بیانیوں،خباثتوں اور ہرزہ سرائیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔’’آزادی مارچ‘‘میں اپوزیشن کی نمائندگی نے مولانا کے فریبی ،افسردہ اور بجھے ہوئے چہرے پر رونقیں لاتے اِن کے گھسے پٹے دم توڑتے ’’آزادی مارچ‘‘ میں زندگی کی روح پھونکتے اِس کی حرارت و تپش کو ہوا دیتے ہوئے اِس کو مزید شعلہ بنائے بھڑکا سادیا ہے۔اپوزیشن رہنمائوں باالخصوص شہباز وبلاول کی ’’آزادی مارچ ‘‘آمدنے اِن کے تن مردہ میں ایک جان سی ڈال دی ہے ۔وہ شہبازوبلاول کو اپنے پاس پاکر بہت زیادہ خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ مولانا اور اِس ٹولے کی ایسے میں خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔شہبازوبلاول کی جلسہ گاہ آمد پر مولانا کا حال ’’تیرے آنے کی خوشی میں میرے دم نکل نہ جائے ‘‘والا معاملہ ہے وہیں۔
شہباز وبلاول کی تقریر سے مولانافضل الرحمان کے دائیں بائیں کھڑے دواحباب اسفندیارولی اور محمود اچکزئی بھی کافی محظوظ ہورہے تھے۔ہوتے بھی کیوں نہ ،اوروں کے لیے رچائے گئے کھیل میں اِس ملک کے دو بڑے لیڈر شہبازوبلاول بھی شامل ہوگئے تھے۔اِس بات نے اُن کی خوشی کو دیدنی کردیاتھاوہ خوش ہوتے بھی کیوں نہ،کام ہی ایساہوچلاتھا کہ اُن کے دام فریب میں آکر ملک کی سب سے بڑی پارٹی ن لیگ اور پی پی پی کے دو بڑے لیڈر سیاستدان اُن کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے ہیں۔اکیلے پڑتے فضل الرحمان کے لیے اُن کا آنا دم گھٹتے ’’آزادی مارچ‘‘میں اِن کی دم توڑتی ڈوبتی سیاست وعزت کو سہاراملنے والی بات ہے۔پھرایسے مرے ہوئے حالات میں شہبازوبلاول کا شرکاء’’آزادی مارچ‘‘سے خطاب بھی مولانا کے مردہ تابوت میں جان ڈالنے والی بات ہے۔مولانا کے ’’آزادی مارچ‘‘کی دھوم اور اِس کا شور بھی اب کھڑاک دینے لگاتھااور حکومتی حلقوں میں بھی اِ س کی ہلچل محسوس ہونے لگی تھی شاید مولانا کے مارچ سے تھوڑے بہت ڈر کی بھی کیفیت پیداہوچکی تھی مگر کیاہے کہ جب ارادے نیک نہ ہوتومنزلیں نہیں ملاکرتی ہیں۔مولانا توقع سے زیادہ ہجوم دیکھ کر اورجن کے کے لیے ڈگڈگی بجارہے تھے کا’حق نمک حلالی ‘‘ادا کرنے کی غرض سے آپے سے باہر ہوگئے اور بھاری بھر ورکروں کی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو ئے ریاست و اُس کے اداروں کو للکار بیٹھے، بات یہاں پرہی جاکر نہ رکی،اپنے جیسے لوگوں کو سامنے پاکر حکومت وقت کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی باتیں کرتے ریاست کے اداروں پربھی خوب گرجے برسے،فوج کے کردارپربھی نام لیے بغیر تنقید کے نشتر چبھوتے رہے،حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہمیشہ کی طرح کی اپنی باغیانہ روش پر واپس آگئے ،جہاں اسٹیبلشمنٹ کولتاڑا وہیں حکومت کوبھی وزیراعظم کا استعفیٰ 2 دن میں چاہیے پر نجانے کیابنے ،اپنے آپ کو کیا سمجھے ،شتربے مہار ہوئے مہلتیں اور مختلف نوعیت کی دھمکیاں دیتے نظر آئے، جس کی ترجمان پاک فوج ،ڈی آئی ایس آر میجر جنرل جناب آصف غفور نے بروقت ہوایہ کہہ کرنکال دی کہ’’ فوج غیر جانبدار ادارہ ہے اِس کے ذمے پرامن الیکشن کرواناتھاجو اُس نے کروادئیے ہیں۔اگرکسی کو الیکشن پر تحفظات ہیں تومتعلقہ فورم سے رابطہ کریں،یوں سڑکوں پر شورشرابا نہ کریں،یہ ملک فساداور انتشار کا متحمل ہرگزنہیں ہوسکتا ،فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے حکومتی احکامات پر قانون کے مطابق عمل کریں گے اور یہ کہ فضل الرحمان بتائیں کہ اُن کا مخاطب کون ہے؟؟؟‘‘ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے فوراًبعد مولانا نے یوٹرن لیتے ہوئے کہاکہ’’ انہوں نے کسی ادارے کانام نہیں لیا‘‘بعدازاں افرادی قوت کو سامنے پاکر اور اپوزیشن کے چند بڑوں کو اپنا ہمنوا محسوس کرتے ہوئے نخوت وغرور سے دوبارہ کہا کہ’’ فوج ایک جانبدار ادارہ ہے اُسے غیر جانبدار ہی رہناچاہیئے آصف غفور سمجھ ہی گئے ہونگے کہ میرا اشاراکس طرف ہے ہمیںنام لینے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘مولانا کے اِس اشتعال انگیز،ہرزہ سرائی پر مشتمل خطاب نے اُن کی بظاہر بنی ہوئی گیم کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور انہیں وہاں پہنچادیا ہے جہاں جانے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔بظاہر پراعتماد مگر شکست خوردہ فضل الرحمان ’’آزادی مارچ‘‘ کی یہ گیم جووہ مہنگائی ،بے روزگاری ،الیکشن دھاندلی کا شور مچاکراورسا لمیت پاکستان کا لبادہ اوڑھ کر حکومت و اداروں پر الزام تراشی و بہتان بازی کرکے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرکے کھیلنا چاہتے ہیںاپنی مکروہ حرکات وسکنات اورمشکوک ایجنڈے کے باعث بری طرح ہار چکے ہیں۔مولانااپنی زبان درازی ،ضدی پن،خود مسلط کردہ جبری فیصلوںکو زبردستی منوانے ،اپوزیشن کوفیصلوںپراعتماد میں نہ لے کر چلنے کے سبب بری طرح’’ حلقہ یاراں‘‘ میں ذلیل ورسوا ہوئے پڑے ہیں۔مولانا کی مفادانہ و حرصانہ سوچ اور باغیانہ روش کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن کے دو بڑے شہباز وبلاول جواِن کے بہت قریب دکھائی دیتے تھے اِن کی بے جاضد ،ہٹ دھرمی اورفضول و احمقانہ باتوں کے باعث معاملے کو انتشار وفساد اورملکی عدم استحکام کی جانب جاتے دیکھ کراوراداروں کے بگڑتے ہوئے موڈ کو بھانپتے ہوئے اور حکومت سے کچھ لو اور دو پرممکنہ تعاون اورفوائد سمیٹنے کی یقین دہانیوں کے بعداِن سے دور ہوتے نظرآرہے ہیںجس کا اندازہ مولانا فضل الرحمان سمیت اِن کے حواریوں،دائیں بائیں اکٹھے ہونے والے ملک کی نیا ڈبونے والے چند افراد کو ہوگیا ہوگایا جلد ہوجائے گا ۔مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا مولانا سے دور ہونا ملک وقوم کے ساتھ ساتھ بذات خود دونوں پارٹیز کی بقاء اور اُن کے بڑوں کے لیے اچھا قدم ہے ۔جو کرپشن کیسزمیں بری طرح لتھڑے اپنے بچائو کے لیے ہر طرح کے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اوراپنا پیسہ ناحق فضول کاموں میں پانی کی طرح بہارہے ہیں۔ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ میں کیا بات کررہا ہوں۔اب مولانا فضل الرحمان کے لیے بھی بہتر یہی ہے ریاست و اِس کے اداروں کے خلاٖٖ ف اپنی لمبی زبان کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے اپنی اور اپنے مسلح جتھوں کی خیر وسلامتی و بہتری کے لیے اسلام آباد سے دھرنا اٹھالیں، پُرامن واپسی میں ہی فضل الرحمان اور اِن کے مسلح جتھوں کی بہتری ہے ۔ ورنہ دھرنا دینے کی ضد کرنے والوں کواسلام آباد میں بیٹھناتو دور کی بات، وہاںکھڑا ہونے کے لیے بھی جگہ نہ ملے گی۔ویسے بھی فضل الرحمان گھاگ سیاستدان ہیں اپنا اچھابُرا خوب جانتے ہیںریاست و اداروں سے ٹکرانے والوں کا انجام کیا ہوتا سے اچھی طرح واقف ،امید ہے کہ مولانا فضل الرحمان ملک عزیز میں اوروں کے بچھائے ہوئے مکروہ جال کو جلد ازجلد سمیٹتے ہوئے قوم کو احتجاج اور دھرنوں کے جھنجھٹ سے نجات دلاتے اپنا دھرنا اُٹھائے ندامت و شرمندگی کی تصویر بنے پتلی گلی اختیار کیے اسلام آباد سے گھرواپسی کی راہ لیں گے ،پھر یہ کہ فضل الرحمان کا جانا ٹھہر چکا ہے اِس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

جواب چھوڑ دیں