مقصد حیات

اسکول لیول سے کالج لیول تک آنے والے اکثر طالبعلم اپنی صلاحیتوں کو آزمانے سے گریز کرتے ہیں ، حالانکہ اسی لیول پر آکر ہی ان کو اپنی پروفیشنل زندگی کا ایک اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کو کوئی شعبہ منتخب کرنا ہوتا ہے اور یہی شعبہ آگے جا کر ان کی پروفیشنل زندگی کے مقصد کو پورا کرنے کیلئے ایک راستے  کا کام دیتا ہے جو انہیں ان کی منزل تک لے جاتا ہے۔

چونکہ میرے نزدیک تین کیٹگری کے طالبعلم ہیں

1: Out standing

2: Good

3: Fair

پہلی کیٹگری کے طالبعلم وہ ہوتے ہیں جن میں خداداد صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ لگن ہوتی ہے ایک جنون ہوتا ہے اپنے زندگی کے گول کو حاصل کرنے کا اور اس کے لیے وہ بنا کسی بھی دباؤ کے اپنی زندگی کو بہترین بنانے کے لیے خصوصی لگن سے پڑھتے ہیں اور اپنی کامیابی یقینی بناتے ہوئے سب کو یہ دکھاتے ہیں کہ وقت کو کیسے اپنی مٹھی میں قابو کرکے وہ ناقابل شکست رہے ہیں

2  درجہ کے طالبعلم ایسے ہوتے ہیں جن کا زندگی کا گول ان کا والد یا کوئی اور منتخب کرتا ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے  کوشاں ہوتا ہے مگر لگن نہیں ہوتی کیونکہ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے اور ان کو پتہ نہیں ہوتا کیونکہ ان میں قوت فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں پاتے کہ انہیں کیسے اپنے لیے مقصد کو حاصل کرنا چاہیے جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔ وہ محنت تو کرتے ہیں لیکن ان کی محنت میں ان کا جنون نہیں ہوتا۔

3 کیٹگری کے طالبعلم وہ ہوتے ہیں جن کا ناں تو کوئی مقصد حیات ہوتا ہے نہ ہی کوئی لگن۔ وہ بس مارے باندھے ہی اپنی پڑھائی جاری تو رکھتے ہیں لیکن بس پڑھائی ان کر نزدیک صرف ایک ٹائم پاس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ایسے طالبعلم محنت سے بھاگ کر اپنی زندگی ہی تباہ کر دیتے ہیں وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ان میں کیا صلاحیت ہے اور وہ کیسے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لیے ایک شاندار کامیابی کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔

لائف میں کچھ بھی Impossible نہیں ہے

کیونکہ Impossible تو خود ہی کہتا ہے    i m possible

تو کبھی یہ مت سمجھیں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے آپ ہر وہ چیز کر سکتے ہیں جس کا ارادہ کر لیں بس تھوڑا ہمت درکار ہے اپنے آپ کو اس مقصد کیلئے تیار کرنے کی۔  کیوں کہ یہ وقت ہے خود کو منوانے کا اپنی پہچان حاصل کرنے کا ناں کہ خود کو ضائع کرنے کا۔ کامیاب انسان وہ ہے جو جینے کا فن جانتا ہو ورنہ مرنا تو ایک دن سب نے ہے۔

لیکن آپ سوچیں گے کہ کیسے؟؟؟؟

کہ پہلے پہل آپ ہمت ہار کے بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم یہ مقصد تو کبھی حاصل ہی  نہیں کر سکتے لیکن آپ کے دل میں اگر لگن ہو تو آپ سوچیں گے کہ نہیں مجھے ایسے ہاتھ پہ ہاتھ دھرنے کی بجائے کوشش تو کرنی چاہیے اس لیے آپ اس مقصد کو حاصل کرنے کا عزم کرتے ہوئے اپنے کامیابی کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کے لئے آپ کو کیا حکمت عملی اپنانے چاہیے تو یہ مرحلہ ہوتا ہے اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو آزمانے کا آپ پھر ہر وہ حربہ آزمانے کے لئے تیار ہوتے ہیں جو آپ کو آپ کے گول تک زاد راہ مہیا کرے اس کے لئے آپ مرحلہ در مرحلہ آگے بڑھ سکتے ہیں

پہلا مرحلہ ہے اس مقصد کو پانے کا جذبہ

دوسرا مرحلہ ہے صحیح وقت پر صحیح  حکمت عملی تیار کرنا۔،

تیسرا اور اہم مرحلہ ہے محنت سے اپنی تیار کی گئی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرنا۔

اگر آپ اس لائحہ عمل کو اپنانے اور خود اعتمادی سے محنت کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو یقین کریں کہ آپ کو وہ سب حاصل ہوگا جو آپ چاہتے ہیں

بقول شاعر

اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے

گر میں پانا چاہوں منزل کو تو سامنے منزل آجائے۔

جواب چھوڑ دیں