وائرل ویڈیو

سماجی رابطوں کی جتنی بھی ویب سائٹس ہیں سب کے منفی و مثبت نتائج واثرات ہیں۔دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہو ، پاس کھڑے لوگ اپنا موبائل فون نکالتے ہیں اور ایک وڈیو  بنا کر اپنے فیس بک یا انسٹاگرام پر اپلوڈ کر دیتے ہیں ،وڈیو اگر عوامی دلچسپی اور کشش کی حامل ہو تو دیکھتے ہی دیکھتے چند سیکنڈز یہ وڈیو پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ایسی وڈیو کو وائرل وڈیو کہتے ہیں۔پاکستان میں کل سے ایک وڈیو بہت وائرل ہے جس میں د ووکیل حضرات ایک خاتون کو زدوکوب کر رہے ہیں۔میرے بہت سے وکلا دوستوں کا موقف یہ ہے کہ وڈیو کو اگر غور سے دیکھا جائے تو وکلا حضرات ایکشن کا ری ایکشن فرما رہے ہیں، مان لیا ایسا ہی ہوا ہوگا لیکن وڈیو بننے سے قبل جس ایکشن کا ری ایکشن خاتون کے ساتھ پیش آیا ہوگا کہ وہ اس قدر برہم ہوئی کہ اپنا ہاتھ وکلا کی گردن تک ہی لے گئی،اگرچہ یہ وڈیو میں دیکھنے کو نہیں مل رہا تاہم ایسا ضرور کچھ تو ہوا ہوگا کہ جس کے جواب میں خاتون اس قدر غصہ میں آئی کہ اپنے سر سے گرنے والی چادر بھی نہ سنبھال پائی۔دوسرا موقف جو میرے محترم دوست نے پیش کیا کہ کیا ہوا اگر وکلا نے مارا ہے؟اس خاتون کے سر پر دوپٹہ اوڑھنے والا بھی تو ایک وکیل ہی تھا،بالکل وہ بھی اسی پیشے سے وابستہ تھا لیکن شاید اس کا ضمیر ابھی زندہ تھا اسی لئے اس نے ایسا کیا۔اگر اس نے یہ احسن قدم اٹھایا ہے تو آج لوگ اس کو تحسین بھی تو پیش کر رہے ہیں۔کیا یہ اچھا نہ ہوتا ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہوتا اسے کمرہ عدالت یا کسی بھی وکیل کے چیمبر میں بیٹھ کر سلجھا لیا جاتا۔

بزرگ کہا کرتے تھے کہ بیٹا دنیا میں صرف دو پیشے ایسے ہی جس سے وابستہ لوگوں کا کتاب سے تعلق پوری زندگی رہتا ہے،اساتذہ اور وکیل۔اور کتابیں آدمی کو انسان بناتی ہیں،حیوانیت سے بچاتی ہیں،شاید اسی لئے حکیم سلمان نے کہا تھا کہ کتابیں انسان کے ذہن کو اس طرح زرخیز کرتی ہیں جیسے بارش بنجر زمین کو زرخیز بناتی ہے۔بدقسمتی دیکھئے کہ ایک پیشہ کے متحمل لوگوں نے اپنے حقوق کو اس قدر پہچان لیا کہ اب ان کی پہچان میں عام آدمی نہیں آتے،جبکہ دوسرا طبقہ سے وابستہ افراد کے حقوق کو پامال اس قدر کیا گیا کہ استاد محترم سے معاشرہ نے انہیں شودا ماسٹر بنا دیا۔مجھے یاد آرہا ہے کہ 1917 میں جب روس میں انقلاب آیا تو ڈوما(مجلس قانون ساز)کا پہلا اجلاس ہورہا تھا ،انقلاب کے داعیان سر جوڑے بیٹھے تھے کہ انقلاب تو آگیا اب اس ملک کی حالت کیسے فلاح کی طرف لے کر جائیں کیوں کہ انقلاب کا منشورمزدور اور کسان کی حالت سنوارنا تھا اور شمولیت اختیار کرنے والے بھی مزدور اور کسان ہی تھے،مزدور اور کسانوں کا کام تو عوام کے لئے مزدوری اور اناج پیدا کرنا ہے ملک چلانے کے لئے تو بقیہ اداروں میں انقلاب بھی ضروری ہوتا ہے۔ جیسے کہ ڈاکٹر،انجینئر، وکیل ، پائلٹ وغیرہ ،لہذا فیصلہ یہ کیا گیا کہ معاشرہ کا وہ کردار جوملک میں ان کرداروں کی تربیت کرتا ہے ان کی معاشی حالت ان سے بہتر کر دی جائے تو معاشی انقلاب بھی بھرپا کیا جا سکتا ہے۔پس ڈوما نے پہلا بل پاس کیا کہ ایک استاد جو کہ ان تمام کرداروں کو بنانے کا کاریگر ہوتا ہے اس کی معاشی حالت ان سب سے بہتر کر دی جائے تاکہ ایک استاد ہمیں اچھا وکیل،قابل ڈاکٹراور بہترین پائلٹ دے سکے۔

نعیم بخاری بجا کہتا ہے کہ ہمیں وکلا گردی کی حمایت کرنے کی بجائے انکی تربیت کرنی چاہئے،ایسے واقعات اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ واقعی یہ مردوں کا معاشرہ ہے،لیکن اگر واقعہ کی گہرائی کو ناپا جائے تو میری دانست میں یہ مردوں کا نہیں مُردوں کا معاشرہ ہے جس میں انسان اپنی حیوانیت کا پرچار اب کھلے عام کرتا دکھائی دیتا ہے۔اب بھی اگر کوئی اس واقعہ میں سمجھتا ہے کہ ہمارے وکیل بھائی ہی حق بجانب تھے تو ان کی خدمت میں پیارے آقا ﷺ کا یہ ایک قول ہی کافی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’عصبیت یہ ہے کہ تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا قبیلہ غلطی پر ہے اور تم پھر بھی اس کا ساتھ دو‘‘۔دوسرا قول مولانا جلال الدین رومی کا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اگر میرا علم مجھے انسانیت کی قدر نہیں سکھاتا تو مجھ سے جاہل ہزار درجے بہتر ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں