حادثہ یا قیامت؟

قیامت سی قیامت – اور کس کو کہیں گے قیامت؟ کیا جب مجھ پر گزرے گی اسے میں قیامت کہوں گی؟مگر اس پر کچھ کہنے سننے کے لئے میرا زندہ ہونا شرط ہوگا،اور میری قیامت جب آئے گی تو میں تو فنا ہو کر عالمِ بالا کا حصہ بن چکی ہوں گی،آج تو میں ان کی قیامت کی بات کروں گی جن پر آنِ واحد میں قیامت گزر گئی آج کا سورج ان کی زندگی غروب ہونے کی وعید لے کر طلوع ہوا ٹرین حادثے بہت سنے بہت دیکھے مگر ایسا حادثہ کہ جس کی وجہ تک پہنچنا اربابِ اختیار کے لئے مشکل ہوگیا ہے ایک نہیں دو نہیں پوری تین بوگیاں جل کر خاکستر ہو گئیں کردی گئیں یا کروائی گئیں؟یہ کھلا سوال نامہ ہے ان سب کے لئے جو 16دسمبر 2014 میں اے پی ایس کے شہداء کے کے قاتلوں کے نقشِ پا حکومت کے ایوانوں میں ڈھونڈتے رہے، ان لوگوں کے لئے سوالیہ نشان ہے کہ جو ہر ہونی کو روکنے کے لئے اک دوسری انہونی کو دیکھتے آرہے ہیں،اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہماری تاریخ عادی ہے ان انہونیوں کی 16اکتوبر 1951سے لیکر  27دسمبر 2007تک وزرائے اعظم کا حشر ہو یا سقوط ڈھاکہ،اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہو لہو لہو کراچی کی پکار،12مئی کے طاقت کے مظاہرے ہوں یا بلدیہ ٹاؤن کے 250افراد کی سوختہ لاشیں ہم سب دیکھ چکے ہیں،ہم سب دیکھ رہے ہیں اور شاید ہم سب دیکھتے رہیں گے پتہ ہے کیوں؟کیونکہ ہم صرف دیکھتے ہیں بولتے نہیں ہیںـ

جواب چھوڑ دیں