محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورہمارا کردار

فخرموجودات سالار انبیاء پیغمبر امن صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا تعلق ایمان ،اطاعت اوراتباع کے بعد چوتھی بنیادی شرط آپ کے ساتھ ہماری محبت ہے دین اسلام میں وہ ایمان یا وہ اطاعت قابل قبول نہیں ہے جس کی بنیاد محبت پر نہ ہو ایسی اطاعت جس کی جڑوں میں محبت رسول کا جذبہ موجود نہ ہو اسے بادی النظر میں نفاق سے تعبیر کیا جاتا ہے ایسی اطاعت کو محض رسمی یا ریا پر مبنی اطاعت سمجھا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول سے ایسی محبت مطلوب ہے جس میں نفاق اوردکھلاوے کا شائبہ تک نہ ہو بلکہ محبت دنیا مافیہا ہی نہیں بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ رسول عربی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو،ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے بیٹے، اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے ’’کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان اور مال جو تم نے کمایا ہے اور تجارت جس کے گر جانے کا تمہیں اندیشہ ہے اور مکانات جو تمہیں پسند ہیں، اگر یہ ساری چیزیں تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے‘‘ سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محوگفتگو ہیں توجناب عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یارسول اللہ ؐ مجھے اپنی جان کے علاوہ آپ سے ساری کائنات بڑھ کر محبت ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایا تمہارا ایمان مکمل نہیں ہے سیدنا عمرؓ فرماتے مجھے کل کائنات اوراپنی جان سے بھی زیادہ آپ ؐ سے محبت ہے یہ سن کرارشاد فرمایا اے عمر! ا ب تمہارا ایمان مکمل ہوا ہے ،محبت رسول ؐ کے سامنے ہر چیز کی محبت پست اورآقا علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت سب سے بلندہے،حب رسول ؐ کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر اس سے خود اس کا اپنا نفس اس مسلک کی مخالفت میں مزاحم ہوتا ہے تو وہ اسکی مخالفت کرتاہے، اگر دوسرے اس سے مزاحم ہوتے ہیں تو ان کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، یہاں تک کہ اس کے بیوی بچوں اور اعزا و اقارب کے مطالبات بھی اگر اس کے اس منہج کے مطالبات سے کسی مرحلہ پر ٹکراتے ہیں تو وہ حب رسول ؐ میں وہ تمام مطالبات ٹھکرا دیتاہے جو اس کی محبت میں حائل ہوتے ہیںکیونکہ حب رسول ؐ صرف حروف اورجملوں کا مجموعہ نہیں ہے اورنہ ہی اس کا تعلق جذبات کے ساتھ ہے اس کا تعلق مابعد ایمان اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے جیساکہ ارشاد نبوی ؐ ہے کہ جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔یعنی ایمان کے بعد عمل محبت کی پہلی شرط ہے اگر محبت بلا عمل ہو اوریہ الفاظ تک محدود ہو تو پھر اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ایسا ایمان اللہ تعالیٰ کے ہاںمقبول نہیں ہے ارشاد نبوی ؐ ہے میری تمام امت جنت میں جائے گی مگر جو جنت میں جانے سے انکار کرے حضرات صحابہ کرام ؓ نے سوال کیا یا رسول اللہ ؐ جنت میں جانے سے کون انکار کرسکتاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا جس نے میری نافرمانی کی گویا اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا ۔سطوربالا سے یہ بات اظہرمن الشمس واضح ہوگئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا ایمانی تعلق اس وقت تک استوار نہیں ہو سکتا جب تک اس ایمان کی بنیاد، اطاعت، اتباع اور محبت پر نہ ہو۔ وہیں مختلف اشارات سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اطاعت بلا محبت کے نفاق، اور محبت بلا اطاعت و اتباع کے بدعت ہے یہ بات کہ اطاعت بلا محبت کے نفاق ہے، سطوربالا میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے حوالی مدینہ کے بہت سے بدو اسلام کی سیاسی طاقت بڑھ جانے کے بعد اسلامی احکام و قوانین کی ظاہری اطاعت کرنے لگے تھے لیکن یہ اطاعت محض سیاسی مصالح کے تحت تھی، اللہ اور رسول کی محبت اور اس ایمان کا نتیجہ نہیں تھی جس کی اصلی روح اخلاص و اعتماد ہے جیسے ہی ان اعراب نے اپنے نقلی ایمان کا ڈھنڈورا پیٹا اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی اصلی حیثیت اہل ایمان پر اشکار کردی ’’اور یہ اعرابی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیںان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے ہو البتہ یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کر لی ابھی ایمان تمہارے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوا ہے۔‘‘دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے محبت رسول ؐ کی حقیقت کو مزید احسن پیرائے میں بیان کیا ہے ’’کہہ دیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کے دعویدار ہو تو پھر میری اطاعت کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گااورتمہیں بخش دے گا ،تمہارے گناہ معاف کردے گا۔‘‘اطاعت رسول ؐ سے محبت ،بخشش اور گناہوں کی معافی کو مشروط کردیا گیا ہے یعنی ببانگ دھل محبت کا دعوی ،لمبی لمبی تقاریر ،وضاحتیں ،لچھے دار مست والست اشعار صوفیانہ رنگ ،راہبانہ ڈھنگ ،عالمانہ بودوباش کیوں نہ اختیار کرلی جائے اگر زندگی کے شب وروز میں اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ موجود نہیں ہے تو ان کی یہ محبت بالکل بے معنی محبت ہے اور اگر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنے کے کچھ ایسے طریقے بھی ایجاد کر لیے ہیں جو صریحاً آپ کی سنت کے خلاف ہیں تو یہ اسی طرح کی بدعت ہے جس طرح کی بدعت نصاری نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں کی تھی کہ ان کو پیغمبر کی بجائے خدا سمجھ لیا تھا حضرات صحابہ کرام ؓ نے جس طرح خاتم النبین ؐ سے محبت فرمائی اسی انداز میں محبت کی جائے گی تو ہی حقیقی معنوں میں ایمانی لذت وسرور حاصل ہوگا حضرات صحابہ کرام ؓ اپنی جانیں قربان کردیتے مگر فخرموجودات ؐ کے تلووں میں ایک کانٹے کا چبھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے اپنے جسم تیروں سے چھلنی کروالیتے مگر آپ ؐ کا ایک بال بھی بیکا نہ ہونے دیتے مائیں اپنے بیٹے ،شوہر ،باپ اوربھائی سب کچھ قربان کرکے محبوب خدا ؐ کی سلامتی کی آرزوئیں رکھتی تھیںبقول شاعر:
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا۔

جواب چھوڑ دیں