عوامی دانش گاہیں معدوم کیوں؟ 

روایتوںاور حکایتوں کا زمانہ مضبوط سماجی رابطوں کا دور کہلاتا ہے۔یہ وہ دور تھا جب رشتے تعلقات کی مضبوط کڑیوں میں جکڑے ہوئے ایک آہنی سماجی زنجیر میں بندھے ہوتے تھے۔ادب و احترام،شرم وحیا،توقیروتکریم خاندانی شرافت کا معیار تصور کیا جاتا تھا۔خاندان اور علاقے کی پہچان رسم ورواج،تہذیب وثقافت اور تمدن سے کی جاتی تھی۔ایک گائوں کا مہمان سب کا ’’پروہنا‘‘ہوا کرتا تھا۔اور تو اور گائوں کا داماد پورے علاقہ کی عزت سمجھی جاتی تھی۔یہ روایات اور عادات نسل در نسل،سینہ بہ سینہ وراثت کو طور پر بچوں میں منتقل کی جاتی تھی،اگر کوئی بچہ ان روائتوں سے بغاوت یا منحرف ہوتا تو بچے سے قبل اس کے والدین کو طعنہ تشنیہ کیا جاتا کہ انہوں نے بچے کی پرورش بہتر طور پر نہیں کی،جبھی تو بچے نے اپنی ہی روائتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ پرانی روائتوں اور حکائتوں نے لوگوں کو ایک دوسرے سے مضبوط جکڑا ہوا تھا۔اس کی ایک بڑی وجہ شائد یہ تھی کہ بچوں،جوانوں ،بوڑھوں اور والدین کے پاس ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے کے لئے وقت تھا۔ہر خاندان میں ایک بزرگ ضرور ایسا ہوا کرتا تھا جو اپنی داستان گوئی کی وجہ سے مقبول ہوتاتھا بچے اپنے اس بزرگ کا بے صبری سے انتظار کیا کرتے تھے کہ کب وہ آئیں گے اور پچھلے سال کی نامکمل سٹوری سننے کو ملے گی۔سبھی رشتے میل ملاپ کے بیج سے پیدا ہو کر بڑے ہوتے تھے اسی لئے ان کی سماجی جڑیں اور بنیادیں ثقافتی اعتبار سے مظبوط ہوتی تھیں۔اگر کسی ایک رشتے کی جڑ کٹ جاتی یا سوکھ جاتی تو اس سے جڑے ہوئے، متعلقہ تمام ناطے خود بخود ہی خزاں رسیدہ ہو جاتے تھے۔

سماجی رشتوں اور رابطوں کو مضبوط رسی میں پرونے کے لئے مختلف تہذیبوں میں مختلف انداز اپناتے جاتے رہے ہیں جیسے کہ گائوں کا تکیہ،ترنجن،بارہ دری،تندور،بزرگوں کا برگد کے نیچے بیٹھ کر تاش کھیلنا،محلہ میں چائے والا کھوکھا،شہروں میں حمام اور مسجد،یہ سب وہ سماجی دانش گاہیں تھیں جو عصر حاضر میں معدوم ہو چکی ہیں یا ہوتی جارہی ہیں۔جب یہ دانش گاہیں موجود تھیں رشتوں میں ادب واحترام اور جڑت تھی،جیسے جیسے یہ عوامی دانش گاہیں معدوم ہونا شروع ہوئیں انسانوں کا قرب دوری میں بدلنا شروع ہو گیا،اب عالم یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں ایک چھت تلے ماں بچوں کو وٹس ایپ پر ریکوئسٹ بھیج رہی ہوتی ہے کہ کھانا تیار ہے،سب آکر تناول فرمالیں۔اس ضمن میں دوتہذیبوں کا اپنے صمیم روائتی،تہذیبی وثقافتی محاسن وشمائل کا تذکرہ خاص اس لئے ضروری ہے کہ یہ دونوں تمدنی لحاظ سے سرخیل خیال کی جاتی ہیں یعنی قدیم رومی تہذیب اور قدیم الایام عرب۔

اگر قدیم الایام عرب کی بات کی جائے تو عرب میں تسویدی کام پر اتنا اعتبار نہیں کیا جاتا تھا جتنا کہ حافظے پر بھروسہ کیا جاتا تھا،اسی حافظے کی بنا پر عرب دیگر اقوام کو عجم کہا کرتے تھے اور اسی حافظے کی برکت کی بنا پر ہی عرب روایات،حکایات اور ایک ہزار ایک داستان(الف لیلیٰ)کی وجہ سے عالم کل میں شہرت وتشہیر آج تک رکھے ہوئے ہیں۔سینہ بہ سینہ روایات جو عرب لوگ سالانہ میلوں،خاندانی تقاریب اور مجالس میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کیا کرتے تھے عربوں کی مضبوط حافظے کی علامت سمجھی جاتی تھی،عرب میں سب سے مستحکم عوامی دانش گاہ مجلس کو سمجھا جاتا ہے جو ہر گھر کے باہر ایک چبوترہ پر خوبصورت خیمہ ایستادہ کئے نظر آئے گی۔ہر کسی کو مجلس میں آمد پر قہوہ اور کھجور سے شرف ِ میزبانی بخشا جاتا ہے اور پھر اہل علاقہ کے بزرگ اور نوجوان موتیوں کی تلاش سے سامان ِ حرب کی داستانوں سے خیمہ کے ماحول کو چار چاند لگاتے ۔علاقے کے اہم فیصلے انہیں مجالس میں بیٹھ کر کئے جاتے ہیں گویا عرب ممالک میں مجلس اپنے تئیں مکمل عوامی دانش گاہ ہوتی ہے۔

قدیم یونان دانش،فلسفہ،منطق،فکر،علم اور سقراط کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی منفرد پہچان کا حامل ملک رہا ہے۔یونانی علم و حکمت اور فلسفہ کو دنیا میں اگر جانا جاتا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سقراط کی سرزمین ہے۔سقراط جہاں بھی بیٹھ جاتا وہیں ایک دانش گاہ قائم ہو جاتی۔یہ بات اکثر کتابوں کی زینت بنی ملے گی کہ سقراط گلیوں،چوراہوں،پہلوانوں کے اکھاڑوں اور حمام پر بیٹھے لوگوں کو اپنے فلسفہ فکر کے بارے میں آگاہی دینا شروع ہو جاتا۔سقراط کی بائیوگرافی میں سائمن اور مائوس کو اس لئے مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان دوستوں کے ہاںمحفل سجانے میں گزرا،سائمن پیشہ کے اعتبار سے ایک موچی تھا لیکن وہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا اسی لئے سقراط اس کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر اپنے خیالات کا پرچار نوجوان نسل کے سامنے کرتا اور سائمن اسے لکھ لیا کرتا تھا۔آج فلسفہ سقراط کے ہم تک پہنچنے میں سائمن کا بہت بڑا کردار ہے۔جب بھی سقراط سائمن کے پاس جا کر بیٹھتا لوگوں کا جم غفیر جمع ہوکر اسے دادوتحسین سے نوازتا،آپ کہہ سکتے ہیں کہ سائمن کی بساط دراصل سقراط کی پہلی عوامی دانش گاہ تھی،جہاں یونانی اپنی علمی تشنگی کم کرنے آتے۔دوسرا کردار مائوس کا ہے جو پیشہ کے لحاظ سے ایک کوزہ گر تھا،وہاں بھی سقراط وہی کام کرتا جو سائمن کے ہاں بیٹھ کر کیا کرتا تھا ۔گویا مائوس کی دوکان سقراط کی دوسری دانش گاہ تھی۔

عصرِ حاضر میں متذکرہ تمام عوامی دانش گاہیں ایک ایک کرکے معدوم ہو چلی ہیں کیونکہ اب انسان کو جدید ٹیکنالوجی نے اس قدر مصروف کردیا ہے کہ ان کے پاس ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے کے لئے وقت ہی نہیں۔جب وقت تھا تو رشتے بھی تھے اب انسانوں کے پاس نہ وقت ہے اور نہ رشتے۔اب سمجھ آتی ہے کہ حکایات وداستان گوئی محض ایک تفریح ہی نہیں تھی بلکہ ایک عوامی دانش گاہ اور یونیورسٹی تھی جس میں بچے حیا،اخلاق،ادب واحترام اور رشتوں کے تقدس کوپہچاننا سیکھتے تھے۔اب ،سب اساطیر ماضی کا ایک حصہ ہیں جسے جدید ٹیکنالوجی کبھی لوٹ کر آنے نہیں دے گی۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس کا عشر عشیر بھی آپ کو مل جائے تو کم از کم اپنی موبائل کی دنیا سے نکل کر کچھ دیر والدین اور خاندان کے لوگوں میں بیٹھا کرو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا،کچھ اور نہیں تو رشتوں کے احساس کی حدت ضرور محسوس کرو گے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں