پاکستانی سیاست دانوں کا جنترمنتر اورترک قیادت

ترکی اورروس نے کرد ملیشیا کو ترک سرحد کے ساتھ شام کے علاقوں سے انخلا پر اتفاق کیا ہے ۔روس کے جنوبی شہر سوچی میں ترک صدر رجب طیب اردوغان اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا جس کے تحت کرد ملیشیا کوشام کے سرحدی علاقوں سے انخلا یقینی بنایا جائے گا۔ترکی نے شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقوں میں موجود کرد ملیشیا وائے پی جی کے خلاف 9 اکتوبر کو فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔اس کاروائی کے بعد امریکہ نے ترکی پر سخت پابندیاں عائدکرنے کے ساتھ ترک معیشت کو سخت نقصان پہنچانے کا عندیہ دیاتھا۔واضح رہے کہ ترکی اپنی سرحد سے متصل 32 کلو میٹر تک کے شامی علاقے کو ‘سیف زون’ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے۔ ترکی کا مطالبہ ہے کہ کرد جنگجو شمالی شام کی 32 کلومیٹر کی حدود سے باہر چلے جائیں اور یہ علاقہ ‘سیف زون’ کہلا سکے۔
رجب طیب اردوان نے معاہدے کو ترکی کی تاریخی فتح قرار دیا ہے ۔ترکی پہلے بھی قیام امن کے لیے ایران اورروس سے معاہدے کرچکاہے ۔ترکی کے مضبوط حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ یہ معاہدہ قیام امن کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔رجب طیب کا ایجنڈا پرکشش ہے ۔وہ شامی مہاجرین کو اس علاقے میں آباد کرنا چاہتا ہے ۔جو ایک خوش آئندعمل ہے ۔رجب طیب نے بدلتے سفارت کارانہ ماحول میں ایک نیا ٹرینڈمتعارف کروایا ہے ۔پاکستان کو اس ٹرینڈ سے استفادہ کرنا چاہیے ۔امریکہ اور روس شام میں من مانیاں کررہے تھے بلی اور چوہے کے اس کھیل نے نہتے شامیوں کا لہولہان کیا ان کے گھربرباد کیے نسلوں کو نقصان پہنچایا۔دو گروہ مسلمانوں کی نسل کشی کررہے تھے ۔ایران ،روس بشارالاسد بمقابلہ امریکہ سعودی عرب اور سنی مجاہدین ۔تقریبا دس ریاستیں شام میں خون بہا رہی تھیں ۔شامی باشندے ہمسایہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں ۔رجب طیب اردوان نے بہادرانہ اقدام کیا جس سے اختلاف انسانیت سے دشمنی کے مترادف ہے۔فرض کریں اس کے پیچھے ترکی کے اپنے مفادات کاہونا بعید ازقیاس نہیں ہے ۔البتہ شامی پناہ گزینوں کو بسانے کا نعرہ قابل تحسین ہے ۔
پانچ اگست کو بھارت نے جموں کشمیر اورلداخ کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا۔80لاکھ کشمیریوں پر 9لاکھ فوجی تعینا ت ہیں ۔جو بچوں کو گرفتار کررہے ہیں ،نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کررہے ہیں ۔انٹرنیٹ سروس ،موبائل فون سروس ،بازاراور کاروبارِ زیست ٹھپ ہے۔کشمیر ی عوام پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں اورپاکستان میں مولانا فضل الرحمان کا دھرنا ،قبلہ نواز شریف کی بیماری ودیگر قیدیوں سے ڈیل اورڈھیل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتہ صحافتی برادری سے ملاقات کی انہوں نے میڈیا پرسنز سے درخواست کی کہ وہ جموں کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم پر بھرپور آواز اٹھائیں ۔ بین الاقوامی میڈیا بھارتی ظلم وبربریت کو بے نقاب کررہا ہے جبکہ ہمارا میڈیا دھرنے کو کوریج دے رہا ہے ۔وزیراعظم عمران خان کی تشویش بلاوجہ نہیں ہے مگر سوال تویہ ہے کہ تحریک انصاف اپنی دوٹوک پالیسی مقبوضہ جموں کشمیر سے متعلق واضح کیوں نہیں کرتی ۔
گزشتہ روز لاہور میں تھا تو تحریک انصاف کے متحرک کارکنوں سے ملاقات ہوئی وہ تمام لوگ مقبوضہ جموں کشمیر سے متعلق تحریک انصاف کی رویہ پر نالاں تھے ۔مایوسی ان کے الفاظ سے چھلک رہی تھیں ۔مہنگائی اپنے تمام تر حدیں عبور کرچکی ہے ۔بجلی کے نرخ 4روپے فی یونٹ تک بڑھائے گئے ہیں ۔عوام پر چاروں اطراف سے ایسا بوجھ ڈالا جارہا ہے کہ انہیں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہیں ۔آئی ایم ایف سے ہونے والی نئی شرائط میں عامتہ الناس پر مزید بوجھ ڈالنے کا حکومتی پلان ہے ۔دودھ اور شہد کی نہریں بہانے والے ،ڈالر کے بڑھنے پر کرپشن کی روداد سنانے والے انتہائی بے شرمی کے ساتھ اپنی نالائقی پر پردہ ڈال رہے ہیں ۔سانحہ ساہیوال کے معصوم بچوں کو مارنے والوں کو جس طرح کلین چٹ دی گئی ہے یہ انصاف کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے ۔
تحریک انصاف دھرنے کے فضائل اور برکات بیان کرنے والے آج مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے نقصانات بتاتے نہیں تھکتے۔ پھر ہمارے تمام سیاسی رہنما میں ایک عمل مشترک ہے کہ وہ سیاسی زاویوں کو دیکھنا اور پرکھنا سکھائیں نہ سکھائیں لیکن مخالفین کی تضحیک ضرور سکھا دیتے ہیں۔ کارکنان کا خون گرمانے کیلئے کسی منشور یا انقلابی راستے کی ضرورت نہیں، فقط نفرت اور تضحیک کی ڈویلپمنٹ ہی کافی ہے۔دھرنوں نے ہمیں سوائے دھوکے اورفراڈ کے کچھ نہیں دیا ۔یہاں باریاں لگی ہوئی ہیں اب کی بار یہ پھر وہ عامتہ الناس کاکوئی پرسانِ حال نہیں ہے ۔پارلیمانی جمہوریت کے ٹھیکیدار پارلیمانی نظام کی بانی برطانیہ سے کچھ سبق حاصل نہیں کرتے ۔برطانیہ کی دونوں سیاسی پارٹیاں بریگزیٹ کے معاملے پر سخت کشمکش کا شکار ہیں مگر وہاں دونوں پارٹیوں نے دھرنوں کا انتخاب نہیں کیا۔مولانا پوری ٹھاٹھ باٹھ سے آلارم بجاتے اسلام کی جانب چلے آرہے ہیں حاصل جمع کیا ہے ؟ دونوں کی نگاہیں امپائر کی انگلی کی جانب ہیں ۔
فرض کرلیں مذاکرات کامیاب بھی ہوئے تو ثالث کون ہوگا ؟ امپائر ! تہتر سال سے یہی کچھ ہورہا ہے تو اب نیا کیاہے ۔حکمرانوں کا کچھ نہیں جارہا ہے نہ جائے گا۔اگر کچھ نقصان ہوگا تو عوام الناس کا ۔گھرجلیں ،دیے بجھیں ،آنسو نکلیں ،اموات ہوں ،روڈ بلاک ہوں ،بازار اورسٹرکیں بندہوں ،متاثر عام آدمی ہوگا۔اس دھرنے سے نواز،زرداری،خان ،اچکزئی ،چوہدری برادران ،خضداروبزدار،آپا فردوس ومریم دیگر کے چولہے ٹھنڈے نہیں ہوں گے۔لازم ہے کہ مہنگائی کے جن پر قابوپانے اور معیشت کی تراقی کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں۔ رعونت ،غروراوردھرنا گردی جیسی منفی سوچ کوبالائے طاق رکھ کر پچھلی حکومتوں کی کچھ کامیاب پالیسیوں اور منصوبوں پر ایک غیر جانبدارانہ نظر ڈال کر کچھ اچھا کرنے کی کوشش کی جائے ۔مولانا حکومت کو اپنا معاشی پلان بشمول مسئلہ کشمیر کا حل کے لیے تجاویز دیں ،خان صاحب بھی کھلے دل سے مولانا اوراپوزیشن کے مثبت آراء کا احترام کریں۔ میں دھرنوں کا حامی نہیں ہوں البتہ معاملات کو مثبت طریقے سے حل کرنا تمام قیادت کی ذمہ داری ہے۔اگر اس ذمہ داری کو ٹھیک طریقے سے حل نہ کیا گیا تو پھر نہ بجے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔

جواب چھوڑ دیں