اقبال کا جگنو

جگنو کی نظر پڑی، ایک ڈری سہمی ہوئی خوشنما بلبل،  گہرے اندھیرے میں لپٹی سسک رہی تھی۔

وہ بدن کی سرسراہٹ میں سنسناتا ہوا اس کے پاس گیا۔

وہ جگنو سے بولی مجھے گھر پہنچا دو۔

وہ بولا، میں لاچار ہو چکا اب کہ میری روشنی باہر دھیمی اور میرے اندر کو کہیں بڑھ گئی ہے۔

صبح کا انتظار کر لو ،

پھر اپنے گھر چلی جانا۔

بہت پہلے ایک بلبل کو میں نے اس کے گھر پہنچایا تھا، اسے ڈھونڈنا اور کہنا،

اقبال کا جگنو اب تک اپنے گھر کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔

جواب چھوڑ دیں