بچوں کی نگہداشت

بچے من کے سچے ہماری اور آپ سب کی زندگیوں کاسرمایہ دنیا بھی اور سرمایہ آخرت بھی واقعی ان ہی کے دم سے ہماری خوشیاں وابستہ ہیں لیکن یاد رکھئے یہی ہماری آزمائش ہیں ہر لمحہ کا امتحان ہیں اور ہم میں سے کوئی امتحان میں کبھی بھی فیل ہونا نہیں چاہتا ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو صاحب اولاد ہیں ۔ اولاد کا درد رکھتے ہیں اور اپنی قربانیوں ، محنتوں ، محبتوں سے انہیں حلال کمائی کھلا کر معاشرے کو کا ر آمد اور معزز شہری بناتے ہیں پھر دعا بھی کرتے ہیں کہ انہیںاپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ بنا ۔ آمین اور واقعی خوش نصیب ہیں وہ والدین جو زندگی کے مقصد کو سمجھتے ہوئے خشیت الٰہی میں زندگی گزارتے ہیں اور درد دل رکھتے ہیں واقعی کسی نے سچ کہا ہے۔
“نہ ہو انسانیت کا درد جس انسان کے سینے میں
بہت مشکل ہے ایسی شخصیت کو آدمی کہنا”
بچہ اللہ کی شان ! رب کی پہچان ، محبتوں کا نچوڑ اور دنیا کا بہترین کھلونا اور معصوم فرشتہ ہوتا ہے جو ہر کسی کو لبھاتا ہے ۔ دوسرے چھوٹے بچے بھی جتنا خوش اپنے سے چھوٹے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں کسی اور شے سے اتنا خوش نہیں ہوتے تو پھر ایسی انمول نعمت کا احساس ہمیںکئی گناہ زیادہ ہونا چاہئے اس کے لئے ہمیں بھرپور توجہ ، سدھار نیکی سچائی محبت ، محنت اور خلوص کا مکمل نمونہ ہر لمحہ ہونا چاہئے صبر برداشت نیک نیتی اور خلوص سے پلنے والا یہ بچہ دھیرے دھیرے معاشرہ کا ایک فعال اور معزز شہری بنتا ہے ۔ ورنہ تو وہی بات کہ انسان یہاں وقت کاٹے عیاشیاں کرے ، پیسہ کمائے ، اڑائے اور سوجائے اور مر جانے کے لئے نہیں آیا ہے ۔
“جنوں ہوتا ہے ہر عمر میں جداجدا
کھلونے، عشق، پیسہ اور پھر خدا خدا”
جو کل تھا گزر گیا کرنے کے کام آج اور ابھی سے ہیں اسے کبھی پر نہ ٹالیں ۔ پچھلے دنوں بچوں پر تشدد ، ظلم ، زیادتیوں کے جو المناک واقعات تسلسل سے سنائے اور دکھائے جا رہے ہیں یہ بہت ہی زیادہ ہماری انسانیت کو جھنجوڑنے اور عبرت انگیز سبق لینے والے ہیں آج کے بچے کل کے جوان اور ہمارا مستقبل ہی تو ہیں کیا یہ مستقبل آپ کو درکار ہیں کانٹا یا پھول؟ پڑسوں ٹی۔ وی پر آنے والے پروگرام انکشاف نے آج تک میر ی نیند اڑا دی جس میں چار دوستوں نے اپنے ہی دوست کی دلہن کو اس کے سامنے بر بریت کا نشانہ بنایا اور پھر ایک میسج میں ایک شخص کو ایک 4، 6سال کے بچے اور الٹا لٹکا کر زدو کوب کرتے دکھایا گیا ، پڑسوں ہی سیڑھیوں سے اوپر چڑھتے ہوئے پچھلے آنے والی ایک فیملی کو دیکھا ، والدکی گود میں ڈیڑھ دو سالہ بچہ تھا ، ماں ابایا ، پرس اور سامان سنبھالے آگے تھی کہ اچانک پٹا خ سے آواز آئی ۔ بچے کے رونے میں سو گنا اضا فہ ہو گیا ۔ میں سمجھی بچہ گر گیا ۔ مڑ کر دیکھا باپ واپس پلٹا ، ماں بھی بے چین ہو کر پلٹی سامان کے سا تھ ہی بچے کو کھینچ کر لیا اور سینے سے چمٹا یا میری اور اس کی آنکھیں ملی میںزور سے پوچھ چکی تھی کیا ہوا ؟ بچہ گرا تو نہیں ۔ تیزی سے اترتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ تماچا مارا گیا ہے ۔ میں نے اشارے سے اس ماں سے پوچھا یہی ناں وہ خوف زدہ مغموم گردن ہلا کر نیچے چلی گئی ۔ میاں کے پیچھے ، گھر میں فوراً گھس کر میں بالکنی میں گئی کہ دیکھوں کون ایسا ظالم باپ تھا جس نے اتنی زور سے بچی کے منہ پر تماچا مارا؟ وہ اب بھی گرج کر کہہ رہا تھا خاموش اور بچی ماں سے چپک کر نہ جانے خاموش ہوگئی یا بے ہوش؟ مگر یقین جانئے میرے ہاتھ پیر کانپنے لگے اور دل سے سدا نکلی اللہ رحم کر ے انہیں ہدایت دے کہ یہ انسان بنیں نہ کہ انسانیت پر بدنما داغ ۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ تصاد جتانے کیلئے اور ہر ایک پہچان کیلئے مگر کشمیر میں تو میں تقریباً ڈھائی ماہ سے کالی بھیڑوں کو گھر گھر کے دروازوں پر کھڑے ریوڑ کی شکل میں دیکھ رہی ہوں ۔ بندوقیں تانے جانوروں سے ہزار گنا بد تر بے حس اور بے ضمیر حیوان! نہتے معصوم انسانوں پر ظلم کر رہے ہیں انہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے ان کی زندگی کا مقصد قتل غارت گری ، ظلم زیادتی ! اللہ کی پناہ ! کیسے لوگ ہیں کبھی کبھی تو مجھے خیال آتا ہے کہ وہ تو ٹھہرے ظالم اور پابند غلام جو اپنے سر پر چڑھے غلاموں کی غلامی کر رہے ہیں مگر پوری دنیا کے انسان اور خصوصاً مسلمان امت وسط مسلم ممالک اب تک خاموش تماشائی میں کیا لکھوںقیامت کی کھلی نشانی !
“آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہو ں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی”
کاش ان نام نہاد فوجیوں کو بھی انسانیت کا درد ہوتا! کاش ہم مسلمان ہی کردار کے غازی بننے ہی پر لگے ہوتے اور اس دنیا کے لئے رول ماڈلز بن کر امن کے پیغامبر ہوتے اور نرمی ، عاجزی ، رحم ، محبت اور انسانیت کو فروغ دیتے بھائی بھائی بن کر رشتوں کو احترام انسانیت سے نوازتے تو منظر کچھ اور ہوتا ہم نے اپنے وقت کی گویا اپنی زندگی کی قدر نہ کی بچوں کی نگہداشت اچھی نہیں کی جتنی کرنی چاہئے ۔ جتنی ہمیں کرنی چاہئے تھی خود رول ماڈل نہ بنتے بلکہ بہترین عمل عبادت ، بہترین خصلت علم (دینی علم) اورحکم ربی ا ور اطاعت رسو ل ؐ کو اپناتے ۔ بقول البیرونی انسان عقل سے پہچانا جاتا ہے شکل سے نہیں ۔ تو اس طرح تن کے اجلے من کے کالے نہ ہوتے ۔ بچوں کی نگہداشت اس نہج پر کی جائے کہ ہمیں کبھی شرمندگی نہ ہو حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر وقت ہر جگہ ہر کسی کے لئے یکساں ہوں یاد رکھئے برا نہ ہونا نیکی ہے تم بہت اچھے ہو بڑے بڑے کام کرو وہ بھی نیکی ہے تم بہت اچھے ہو بڑے بڑے کام کرو مگر بڑے بڑے دعوے یا وعدے نہ کرو۔ کام کرو کام وہ بھی نیک ورنہ نیک بندہ جانتا ہے کہ جھوٹ ایسا رشتہ ہے جس سے سارے ہی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ مایوسی کفر ہے الحمد للہ ہم صاحب اولاد ہیں شرمندہ اور نادم مگر پر امید کہ رب ہے تو سب ہے آج ہی پلٹ آئیں استغفار اور توبہ کے ساتھ جاگیں ۔

جواب چھوڑ دیں