کسی بھی عمل کو اللہ کے لئے خالص کرنا اس کی قبولیت کی بنیاد ہے، جو کام اللہ کے لئے اخلاص سے نہ کیا جائے، وہ اس کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا، گویا وہ ایسا عمل ہے جس پر اجر نہ ملے، ایک ایسی نماز جس کا ثواب نہ ہو، اور ایسا صدقہ جس کی قدر و قیمت عدم اخلاص نے ختم کر دی ہو، اور عامل کی مراد پوری نہ ہوئی ہو۔
دین ِ اسلام میں اعمال اللہ کے لئے خالص ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اللہ کے لئے اخلاص برتنا ایک وسیع مضمون ہے اور یہ تمام اعمال پر حاوی ہے، اور اخلاق کا اعلی مرتبہ ہے، اخلاص میں کمی یا اس سے محرومی کی صفات میں ریا، لوگوں میں شہرت، اور تذکرہ حاصل کرنے کی نیت اور کوشش ہے۔
ایک دل میں اللہ سے اخلاص اور مدح اور ستائش سے محبت اور طمع جمع نہیں ہو سکتے، بالکل اس طرح جیسے آگ اور پانی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
اخلاص کا مادہ ’’خ ل ص‘‘ ہے، جس کے معنی ’’پاک صاف اور خالص ہونے ‘‘ کے ہیں۔ ایسی محبت جس میں سچائی ہو، اور جو خالص ہو۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
’’اخلاص یہ ہے کہ ہر ما سوا اللہ سے دل کو پاک کر لیا جائے‘‘۔ (مفردات القرآن، امام راغب، ص۱۳۳)
لسان العرب میں ہے: ’’اخلاص ریا کو ترک کر دینے کا نام ہے، جبکہ دین کو اللہ ہی کے لئے خالص کر لیا گیا ہو‘‘۔
ابراہیم بن ادھم کہتے ہیں: یہ اللہ تعالی کے ساتھ صدق ِ نیت برتنا ہے۔ (الاحیاء، ج۴، ص۴۷۴)
یعقوب المکفوف کا قول ہے: ’’مخلص اپنی نیکیوں کو اس طرح چھپاتا ہے جیسے وہ اپنی برائیاں چھپاتا ہے‘‘۔
جنیدؒ کا قول ہے: ’’اخلاص اللہ اور بندے کے درمیان رازہے، نہ فرشتہ اسے جانتا ہے کہ اسے لکھے، اور نہ شیطان اس تک پہنچ سکتا ہے کہ اسے خراب کرے، اور نہ ہوائے نفس، کہ اس کی جانب مائل ہو‘‘۔
سہل سے کہا گیا: نفس پر سب سے زیادہ بھاری کیا چیز ہے؟ کہا: اخلاص، کیونکہ نفس کی اس تک رسائی نہیں۔
مکحول کہتے ہیں: ’’اگر انسان چالیس دن اخلاص کے ساتھ گزار لے تو اسکے قلب کی حکمت کے چشمے اس کی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں‘‘۔
ابو سلمان الدارانی کا قول ہے: ’’اگر انسان اخلاص اختیار کر لے تو وسوسے اور ریا اس سے دور بھاگ جاتے ہیں‘‘۔ (مدارج السالکین، ج۲، ص۹۲)
مخلِص اور مخلص میں فرق
مخلِص: وہ ہے جس نے اپنی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کر لیا، جس نے اپنے نفس کو اللہ کے لئے خالص کر لیا اور اپنا سر اسکے سامنے جھکا دیا۔۔
مخلص (لام پر زبر کے ساتھ): وہ ہے جسے اللہ اپنے لئے خالص کر لے، اسے رسالت اور کتاب عطا کرے، یعنی انبیاء علیھم السلام کو اللہ نے اپنے لئے خالص کر لیا۔ معبود کا بندے کو اپنے تقرب کے لئے خالص کر لینا۔
قرآن کریم میں ہے:
{الا عبادک منھم المخلصین} (الحجر، ۴۰)
’’سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے خالص کر لیا ہو۔‘‘
قرآن کریم میں اخلاص اور اس کے مشتقات کا استعمال اکتیس (۳۱) مرتبہ ہوا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لئے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر‘‘۔ (سورۃ البیّنۃ، ۵)
یعنی ہر زمانے میں صحیح اور درست دین یہی رہا ہے کہ خالص اللہ کی بندگی کی جائے، اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کی آمیزش نہ کی جائے، ہر طرف سے رخ پھیر کر انسان صرف ایک اللہ کا پرستار اور تابع فرمان بن جائے۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۱۵)
اور فرمایا:
’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں‘‘۔ (الانعام، ۱۶۲۔۱۶۳)
اعمال میں اخلاص کی حیثیت ایک خوشبودار پھول کی ہے، جس کی خوشبو چاروں جانب پھیلتی ہے، بلکہ اس کی خوشبو ہی اس کی موجودگی کی خبر دیتی ہے۔ اللہ تعالی کا مخلص بندہ سعادت کی راہوں پر آگے آگے چلتا ہے، وہ بندوں کی خوشنودی سے بالکل پاک ہو جاتا ہے، اس پر اللہ کی رضا حاصل کرنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے، جو اسے آگے لے کر جاتی ہے، اعمال میں اللہ سے اخلاص برتنا ہی دین کی اصل ہے، اور یہی عمل کا تاج بھی ہے۔اخلاصِ عمل بندے کے وقار کو بڑھاتا ہے، اس میں بلند ہمتی پیدا کرتا ہے، یہ راہ سعادت کی راہ ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو اخلاص کا حکم دیا:
’’تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دینِ خالص اللہ کا حق ہے‘‘۔ (الزمر، ۲۔۳)
پس عمل کی اصلاح نیت کی درستی سے ہے، اور نیت کی درستی دل کی اصلاح سے ہوتی ہے۔ اس آیت میں دو نکات بیان کئے گئے ہیں، ایک مطالبہ اللہ کی عبادت کا ہے، اور دوسرا ایسی عبادت کا جو دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے کی جائے، یعنی آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کا اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے۔اس کی تشریح درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ابنِ مردویہؒ نے رشید الرّقاشی سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لئے کہ ہمارا نام بلند ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے پوچھا: اگر اللہ سے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لئے نہ ہو‘‘۔ (دیکھئے: نفہیم القرآن ، ج۴، ص۳۵۶۔۳۵۷)
سورۃ الاعراف میں فرمایا:
’’اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لئے خالص رکھ کر۔‘‘ (سورۃ الاعراف، ۲۹)
یعنی رہنمائی اور تائید و نصرت و حفاظت کے لئے خدا ہی سے دعا مانگے، مگر شرط یہ ہے کہ اس چیز کی دعا مانگنے والاآدمی پہلے اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر چکا ہو۔ یہ نہ ہو کہ زندگی کا سارا نظام تو کفر و شرک اور معصیت اور بندگیِ اغیار پر چل رہا ہو اور مدد خدا سے مانگی جائے، کہ اے خدا، یہ بغاوت جو ہم تجھ سے کر رہے ہیں، اس میں ہماری مدد فرما۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۲۱۔۲۲)
اخلاص سعادت کی راہ ہے
بندہ صدق ِ دل سے اللہ کی بندگی میں لگ جائے، اور اس کے پیش ِ نظر صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو، اور لوگوں کی ملامت یا ستائش کی پرواہ نہ کرتا ہو، تو حقیقتاً اس نے سعادت کی راہ پا لی، نیک کام کی تکمیل اور اس کی برکت کا حصول اخلاص ِ نیت کے ساتھ وابستہ ہے۔اللہ تعالی نے اپنے نبی ؐ کو بھی اخلاص کی تلقین صرف ایک سورہ میں تین مرتبہ کی:
’’تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوے‘‘۔ (الزمر، ۲)
’’اے نبیؐ، ان سے کہو: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے اس کی بندگی کروں‘‘۔ (الزمر، ۱۱)
’’کہہ دو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے اسی کی بندگی کروںگا‘‘۔ (الزمر، ۱۴)
پس عمل کی درستی نیت کے درست اور خالص ہونے سے ہے، اور نیت کا خالص ہونے دل کے خالص ہونے سے ہے۔
اللہ تعالی کے ہاں اعمال کی قبولیت میں دو چیزیں شامل ہے، ۱۔ اس عمل کا اللہ کے لئے خالص ہونا، ۲۔ اس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہونا۔
’’محض ریا کا ظہور فرض نماز اور روزے کی ادائیگی میں نہیں ہوتا، البتہ صدقاتِ واجبہ (زکوۃ) اور حج یا ان جیسے ظاہری اعمال میں اس کا صدور ہو جاتا ہے، جن سے نفع ملنے کی توقع ہوتی ہے، اور ان میں اخلاص ہی مطلوب ہے،اور مسلمان کو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح ان کا عمل نیچے چلا جائے گا، اور اس ریا کار کو اللہ کی جانب سے سزا اور عقوبت ملے گی۔
محدیثین علماء کی اکثریت نے جن میں امام بخاریؒ نے اپنی’’ صحیح‘‘ میں، مقدسیؒ نے ’’عمدہ الاحکام‘‘ میں، بغویؒ نے ’’شرح السنہ‘‘ اور ’’مصابیح السنہ‘‘ میں، امام نوویؒ نے ’’اربعین النووی‘‘ میں،کتاب کا آغاز ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ سے کیا ہے، جو اعمال میں نیت کے اخلاص کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ سفیان ثوریؒ کہتے ہیں: ’’میں نے اپنی نیت سے بڑھ کر کسی چیز کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ یہ بار بار مجھے پچھاڑ دیتی ہے‘‘، اور اللہ کی رضا کے حصول کی نیت کے بغیر طاقت بے مصرف ہے، یہ ایک رائیگاں کوشش ہے، اور ایسا عمل ہے جو لوٹا دیا جاتا ہے، اللہ تعالی غنی و حمید ہے، جو عمل خالص اس کے لئے نہ ہو وہ اسے قبول ہی نہیں کرتا۔ ابو امامہ الباھلی ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا: یا رسول اللہ ﷺ ایک شخص اللہ کی رضا اور ناموری کے لئے جہاد کرتا ہے تو اسے کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ اس نے تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا، اور آپ ﷺ نے ہر بار یہی فرمایا کہ اس کے لئے کچھ نہیں ہے، پھر فرمایا: اللہ تعالی اس کے سوا کسی عمل کو قبول نہیں کرتا جو خالصتاً اسی کے لئے ہو، اور اس کی رضا مندی کی طلب میں ہو‘‘۔ (رواہ ابو داود والنسائی)
فضیل بن عیاضؒ دنیا کی امتحان گاہ میں اعمال کی درستی کا معیار بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’کہ وہ عمل خالص ہو اور درست ہو، ان سے پوچھا گیا: اے ابو علی، خالص اور درست ہونے سے کیا مراد ہے، انہوں نے کہا: اگر عمل خالص ہو لیکن درست نہ ہو تو وہ قبول نہیں کیا جا تا، اور اگر وہ درست طریقے پر ہو مگر خالصتاً اللہ کی خاطر نہ ہو تو بھی قبول نہیں ہوتا، خالص ہونا یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کی خاطر ہو، اور درست ہونا یہ ہے کہ وہ کام رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۴۷۷۹)
کن کاموں میں اخلاص برتنا ضروری ہے؟
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اخلاص کا تعلق عبادات سے ہیں، ہمیں خالصتاً للہ عبادت کرنی چاہئے، نماز، روزے اور تلاوت ِ قرآن اور دیگر عبادات اور دعوت الی اللہ کے کام کرتے وقت اپنی نیت میں کھوٹ کا جائزہ لے لینا چاہئے، یہ خیال درست نہیں، ہر بھلائی کرتے ہوئے نیت کو خالص کر لینا ضروری ہے، خواہ وہ ہمسائے کی خبر گیری ہو،یا صلہ رحمی، یا والدین سے احسان، کیونکہ یہ سب بھی عبادت ہیں۔ ہر وہ کام جو اللہ کی محبت میں اور اس کی رضا پانے کے لئے کیا جائے اس میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے، حتی کہ باہمی معاملات میں خیر کا ہر رویہ بھی اخلاص کا تقاضا کرتا ہے، جیسے تجارت میں سچ کو اختیار کرنا، بیوی سے حسن سلوک، اولاد کی تربیت میں محاسبہ، اور ہر وہ کام جو بظاہر دنیا کے معاملات کہلاتا ہے، اس میں بھی اخلاص برتنا ضروری ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جو خرچ بھی اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہو، تمہیں اس پر اجر ملتا ہے، حتی کہ اس نوالے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو‘‘۔ (متفق علیہ؛ الریاض الصالحین، ۲۹۴)
ہر عمل جو اللہ کی محبت اور اس کی رضا کے لئے کیا جائے وہ قول ہو یا فعل،ظاہری یا باطنی، تو وہ عبادت ہے، اور اس میں اخلاص کا وجود ضروری ہے، خواہ وہ کوئی معمولی عمل ہی کیوں نہ ہو۔
اخلاص کیا ہے؟
عمل کرتے ہوئے نیت کو اللہ کے لئے خالص کر لینا، کہ آپ کو اللہ کی رضا ہی مقصود ہے، نہ دکھاوا ہے نہ شہرت ، تعریف کی تمنا ہے نہ اونچا منصب درکار ہے، اور نہ کسی کی ہم نشینی۔ آپ کو اس عمل پر کسی کی مدح سرائی چاہئے ، نہ کسی کی ملامت کا خوف لاحق ہو، اور پھر جب آپ کی نیت اللہ کے لئے خالص ہو گی اور آپ اسے بندوں کے لئے مزین بنانے کی کوشش نہیں کریں گے، تو آپ نے اخلاص کے تقاضے کو پورا کر دیا۔
فضیل بن عیاضؒ کہتے ہیں: ’’کسی عمل کو لوگوں کے لئے کرنا شرک ہے، اور لوگوں کی خاطر کسی عمل کو ترک کرنا ریا ہے، اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ان دونوں سے بچا دے‘‘۔
تمام اعمال میں اخلاص کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اس فرمان ِ الہی کو نگاہ میں رکھے: ’’کہہ دیجئے، میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں ‘‘۔ (الانعام، ۱۶۲۔۱۶۳)
اخلاص کا اثر
اللہ سے اخلاص برتنا ایک ایسا وصف ہے جو بندے کو اعلی درجات تک پہنچا دیتا ہے، ابو بکر بن عیاش کہتے ہیں: ’’ابو بکر صدیقؓ کو یہ فضیلت نماز اور روزوں کی کثرت کی بنا پر نہیں ملی، بلکہ اس چیز کی بنا پر ملی جو انکے دل میں تھی، (یعنی اخلاص للہ)‘‘۔
عبد اللہ بن مبارکؒ کا قول ہے: ’’بہت سے چھوٹے اعمال کو ان کی نیت بڑا بنا دیتی ہے، اور کتنے ہی بڑے اعمال کو ان کی نیت چھوٹا کر دیتی ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، کہ رسول کریم ﷺ نے( پر خلوص چھوٹے عمل کی بڑائی بیان کرتے ہوئے )فرمایا: ’’کوئی شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور صدقہ کرتا ہے، تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے، اور اس کی ایسے پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی اونٹنی کے بچے کو پالتا ہے، حتی کہ وہ پہاڑ جتنا یا اس سے بھی بڑا ہو جاتا ہے۔ (رواہ مسلم، ۱۷۵۹)
’’اور اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے‘‘۔ (البقرۃ، ۲۶۱)
یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہو گا۔ جو خدا ایک دانے پر اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اگ سکتے ہیں، اس کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو اس طرح نشو نما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گنا ہو کر تمہاری طرف پلٹے۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۲۰۳)
جب بندے کا اخلاص قوی ہو جائے، اور اس کی نیت خالصتاً لوجہ اللہ ہو، اور وہ اپنے عمل کا اخفاء بھی کرے (یعنی اسے پوشیدہ رکھے)، تو اسے اپنے رب کا قرب حاصل ہو جاتا ہے، اور وہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا، رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق : سات قسم کے لوگ اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے ۔۔ اور ان میں ذکر کیا، ایک شخص کا، جس نے صدقہ کیا تو اسے اس قدر چھپا کے دیا کہ اس کے دائیں ہاتھ کے دینے کو بایاں ہاتھ بھی نہ جان پایا۔(متفق علیہ)
تھوڑے عمل کی کثیر برکت
جب بندہ خالص نیت کے ساتھ عمل ِ صالح کرتا ہے، اگرچہ وہ کوئی آسان سا عمل ہو، تو اللہ اسے قبول کرتا ہے، اور اسے بڑھا دیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جنت میں ایک شخص کو پھرتے دیکھا، جس نے ایک ایسے درخت کو کاٹ دیا تھا، جو راستے میں چلنے والے لوگوں کو تکلیف دیتا تھا۔ (رواہ مسلم، ۴۷۸۴)
خالص نیت کا اجر
اللہ تعالی اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے، یہ اس کا کرم ہی ہے کہ بندہ نیک عمل کا ارادہ باندھتا ہے، اور اسے کرنے کے وسائل نہیں پاتا تو وہ اسے اس کی نیت ہی پر اجر سے نواز دیتا ہے۔حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک غزوے پر جا رہے تھے، راستے میں آپؐ نے فرمایا: ’’مدینہ میں ایسے کچھ لوگ موجود ہیں، کہ تم نے کوئی راستہ یا وادی ایسی پار نہیں کی، مگر وہ (اجر میں) تمہارے ساتھ تھے، ان کو مرض نے روک لیا تھا۔(رواہ مسلم، ۱۹۱۱) ایک روایت کے مطابق ’’وہ اجر میں تمہارے شریک ہیں ‘‘۔
حضرت انسؓ کی روایت ہے، کہ ہم رسول ِ کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک سے واپس لوٹ رہے تھے، جب آپؐ نے فرمایا: ’’ہم نے مدینہ میں کچھ ایسے لوگ چھوڑے ہیں، ہم نے کوئی درہ یا وادی طے نہیں کی جس میں وہ ہمارے ساتھ نہ ہوں، ان کو عذر نے روک لیا تھا‘‘۔ (رواہ البخاری، ۲۶۸۴)
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رب اللہ تبارک وتعالی سے بیان کرتے ہیں(حدیث قدسی): ’’اللہ تعالی نے نیکیاں اور برائیاں لکھ رکھی ہیں، اور انہیں بیان کر دیا ہے، پس جس نے نیکی کا ارادہ کیا، اور اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ اس کی ایک کامل نیکی لکھ لیتا ہے، اور جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ کے ہاں اس کی دس سے سات سو گنا تک بڑھا چڑھا کر نیکیاں لکھی جاتی ہیں‘‘۔(متفق علیہ)
داود الطائی کا قول ہے: ’’میں نے تمام بھلائیوں کو حسن ِ نیت میں جمع دیکھا ہے‘‘۔
یحیی بن کثیر کہتے ہیں: ’’نیت کرنا سیکھو، کیونکہ یہ عمل سے زیادہ وقعت رکھتی ہے‘‘۔
اخلاص کے ثمرات
کوئی نیک عمل اخلاص کے بغیر قبول نہیں ہوتا، اور اخلاص نہ ہو تو بڑے سے بڑا نیک عمل بھی رد کر دیا جاتا ہے، خواہ وہ عالم کا علم اور اس کی اشاعت ہو، یا مالدار کا راہِ خدا میں خرچ، حتی کہ شہید کی شہادت بھی رائیگاں چلی جاتی ہے۔مخلص شخص پر اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے، وہ شیطان کے تسلط اور اغوا سے محفوظ رہتا ہے، اللہ تعالی نے شیطان کا قول ذکر فرمایا ہے:
’’اس نے کہا: تیری عزت کی قسم! میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے‘‘۔ (ص، ۸۲۔۸۳)
اللہ تعالی اپنے مخلص بندوں کو نافرمانوں اور ان کی مکاریوں سے محفوظ رکھتا ہے:
’’ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں، درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا‘‘۔ (یوسف، ۲۴)
اخلاص سے خیر کے دروازے کھلتے ہیں؛ سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جو بھی کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرو گے، تمہارا ایک درجہ بلند اور رفیع ہو جائے گا‘‘۔(رواہ البخاری،۲۲۵۶)
اخلاص قلب و شعور کو طمانیت عطا کرتا ہے، رحمن کا خالص بندہ ایسی راحت اور سرور محسوس کرتا ہے جو کسی اور کو نہیں ملتی، کیا یہ راحت کم ہے کہ تمام انسان اس کے لئے نیچے ہو گئے، اور ایک رب ہے جس کی رضا کے حصول کے لئے وہ بھاگ دوڑ کر رہا ہے، اور اس کی راحت کا کیا بیان جب اسے معلوم ہو جائے کہ انسانوں میں سے کوئی بھی اسے نفع اور نفصان پہنچانے پر قادر نہیں ہے۔
مخلص کیسے بنا جائے؟
شیطان بندے پر نظریں لگائے بیٹھا ہے، وہ اس کے نیک اعمال کو کسی طرح ضائع کروا دینا چاہتا ہے، اگر بندے سے نیک عمل نہیں چھڑوا سکتا تو وہ اس میں کجی اور کوتاہی کروانے کی کوشش کرتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اعمال ِ صالح کے صدور کے ساتھ انکی حفاظت کا خصوصی اہتمام بھی بندے پر لازم ہے، اور اخلاص کو قائم رکھنے کے عوامل درج ذیل ہیں:
٭۔ دعا
ہدایت اللہ کی جانب سے ملتی ہے، بندے کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، وہ جس جانب چاہے اسے موڑ دے، پس بندے کو اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنے کا اہتمام کرنا چاہئے، اور اس پر دوام کا بھی۔ اس سلسلے میں رب سے دعا مانگنی چاہئے:
۔ اللھمّ مصرّف القلوب صرّف قلوبنا علی طاعتک۔اے اللہ، دلوں کو پھیرنے والے، ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی جانب پھیر دے۔)
۔ یا مصرّف القلوب ثبّت قلبی علی دینک۔ (اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما۔)
حضرت عمر بن خطابؓ کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے:
’’اللھم اجعل عملی کلہ صالحاً، واجعلہ لوجھک خالصاً، ولا تجعل لاحدٍ فیہ شیئاً‘‘۔
(اے اللہ، میرے تمام اعمال کو نیک بنا دیتا، اور انہیں اپنے لئے خالص بنا دے، اور کسی کا اس میں کوئی حصّہ نہ رکھنا‘‘۔
٭اخفائِ عمل
ہر نیک عمل کی تشہیر اخلاص کو خطرے میں ڈال دیتی ہے، فرائض اعلانیہ ادا کئے جائیں، تاکہ نیکی کی فضا بنے، لیکن نوافل کو اخفاء میں رکھنا بھی اخلاص برقرار رکھنے کی ایک تدبیر ہے، جس طرح برے اعمال کی تشہیر نہیں کرنی چاہئیے، اسی طرح نیکیوں کا بھی اشتہار نہیں لگانا چاہئے، کہ ریا، شہرت اور تذکرہ اخلاص کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
٭۔ نیکی میں اوپر والوں پر نگاہ
اعمال ِ صالحہ میں ہمیشہ اپنے سے اوپر والوں پر نگاہ رہنی چاہئے، نیکی کا معیار اپنے زمانے کے لوگ نہیں بلکہ قرون ِ اولی کے صالحین، صدیقین،
شہداء اور انبیاء علیھم السلام کو بنائیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہیں کے راستے پر تم چلو‘‘۔ (الانعام، ۹۰)
٭۔ عدم قبولیت کا خوف
عمل ِ صالح کے ہر مرحلے پر اس بات کا خوف رہے کہ کہیں یہ عمل ضائع نہ ہو جائے، سلف صالحین اللہ تعالی سے نیک اعمال کی توفیق کے ساتھ اس کی حفاظت کی دعا مانگا کرتے تھے، اللہ تعالی نے بھی متنبہ کیا:
’’تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔‘‘ (النحل، ۹۰)
حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہﷺ، (قرآن کی آیت) ’’اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور ان کے دل اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے‘‘ (المؤمنون، ۶۰) اس شخص کے بارے میں ہے جو چوری کرتا ہے، زنا کرتا ہے اور شراب پیتا ہے، اور اسے اللہ عزو جل کا خوف لاحق ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں اے بنتِ ابوبکر صدیقؓ، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جونماز پڑھتے، روزے رکھتے، اور صدقہ دیتے ہیں،اور وہ ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے اعمال قبولیت کے درجے پر نہ پہنچیں‘‘۔ (رواہ الترمذی و امام احمد)
اخلاص یہ ہے کہ بندہ عمل سے پہلے، اس کے دوران اور اسکے بعد بھی اپنی نیت کو خالص رکھے۔
٭۔ بندوں کی پزیرائی سے بے پرواہ
مخلص شخص اپنے نیک اعمال کی بندوں سے پزیرائی سے پھولتا نہیں، بلکہ اسے یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ یہ عمل ضائع نہ ہو جائے، وہ پہلے سے بڑھ کر اللہ کی بندگی میں لگ جاتا ہے، اور اس میں اللہ کی خشیت بڑھ جاتی ہے، وہ یقین رکھتا ہے کہ بندوں کی مدح بھی ایک فتنہ ہے۔وہ رب سے اس فتنے سے بچنے کی دعا مانگتا ہے۔
؎ دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
٭٭٭
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...