عزت کی قیمت صرف ایک یورو

جرمنی میں ایک سپر مارکیٹ میں کیشئر کا کام کرنے والی ایک خاتون کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑگئے اور یہ واقعہ پورے ملک میں ذاتی اخلاقیات اورروزگار سے متعلقہ قوانین کے سلسلے میں ابھی تک ختم نہ ہونے والی ایک بحث بنا گیا۔

سمانتھا اکتیس برسوں سے ایک سپر مارکیٹ میں کام کر رہی تھی۔ تاہم اسے نوکری سے فارغ اس لئے کیا گیا کیونکہ اس نے ایک گاہک کی طرف سے مشروبات کی دوبارہ قابل استعمال بوتلوں کی واپسی کے موقع پر جاری کئے جانے والے کوپنوں کو چوری کیا، جو صرف ایک یورو اور تیس سینٹ مالیت کے تھے۔ تاہم اس کے آجر ادارے نے کہا کہ مالیت جتنی بھی ہو لیکن اس خاتون نے چوری کی ہے۔

معاملہ جب درمیانی درجے کے تجارتی شعبے کے کارکنوں کی ٹریڈ یونینوں تک پہنچا تو یونینوں نے سمانتھا کے حق میں یہ موقف اختیار کیا کہ متعلقہ سپر مارکیٹ کی انتظامیہ تین عشرے سے بھی زیادہ عرصے تک اس خاتون کارکن کو وہاں کام کرنے کے باوجود اسے ناپسند کرتی تھی۔ اس لئے انہوں نے بہانہ بنا کر سمانتھا کو مالازمت سے فارغ کیا۔

جب یہ معاملہ برلن میں روزگار سے متعلقہ صوبائی حکومت تک پہنچا عدالتی فیصلے نے اس خاتوں کو بالکل حیران کر دیا۔ سمانتھا کہتی ہیں۔

” مجھے بہت دھچکا پہنچا ہے، میں ایک اچھی سوچ کے ساتھ عدالت میں گئی اور مجھے یہ توقع تھی کہ صوبائی عدالت میرے حق میں فیصلہ دے گی”

لیکن ایسا نہ ہوا، عدالت نے فیصلہ سنایا کہ سمانتھا نہ صرف ایک یورو اور تیس سینٹ کے کوپن چوری کرنے کی مرتکب ہوئی ہے بلکہ اس نے اپنے آجر کے پیشہ وارانہ اعتماد کو بھی داو پر لگا دیا۔

اس بارے میں برلن صوبائی لیبر کورٹ کے ترجمان گیرہارڈ بِینکرٹ کہتے ہیں۔

“خاص طور پر کیشیئر کی ملازمت کے لئے تو متعلقہ کارکن کے اپنے قول و فعل میں مکمل طور میں ہم آہنگی ہونا انہتائی ضروری ہے۔”

عدالتی فیصلے کے مطابق اس خاتون کیشیئر کی نوکری سے برطرفی اس شدید شبے کا نتیجہ ہے کہ یہ خاتون بہت ہی معمولی مگر چوری کی مرتکب ہوئی۔

ٹریڈ یونین عہدیداران کا کہنا ہے کہ پچاس سالہ سمانتھا کی بر طرفی اس کی تنظیمی سرگرمیوں کے پس منظر میں عمل میں آئی کیونکہ اس نے سن دو ہزار سات میں اپنے ساتھی کارکنوں کے لئے شفٹ الاوئنس کے خاتمے کے خلاف ایک باقاعدہ ہرتال کا اہتمام کیا تھا۔

ٹریڈ یونینوں کا دعوی کچھ بھی لیکن قانون کی نظر میں اس خاتون کیشیئر کا مجرم ہونا ثابت ہو گیا ہے اور اسی لئے صوبائی عدالت نے اس خاتون کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں دیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد اس واقعہ کی بازگشت جرمن اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر سنائی اور دکھائی دی ۔ بہت سے اخبارات نے لکھا ” عمر بھر کی عزت محض ایک یورو” ۔ دیگر کئی اخبارات نے عدالتی فیصلے سے قطع نظر اس واقعہ کو آجرین کی طرف سے ٹریڈ یونینوں کے فعال کردار کے خلاف دانستہ بد سلوکی کی بدترین مثال قرار دیا۔

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.

جواب چھوڑ دیں