دن چڑھے

سردیوں کے مہینوں میں خواہ سردی آئے  یا  نہ آئے،  سورج بھیا نے اپنے وقت پر طلوع اور غروب ہونا ہے ۔لہذا عام دنوں کی نسبت دن زرا جلدی چڑھ آتا ہے ، اسی مبہم میں ہم نے گھڑی دیکھے بغیر ہی جلدی سے بازار کا رخ کیا  ، کہ اس وقت رش کم ہوتا ہے اور کام جلدی نپٹ جاتا ہے ۔ جب بازار پہنچے تو دیکھا ،  تمام دکانیں بند ہیںـ ہماری آنکھیں کھلیں اور گھڑی پر نظر دوڑائی،  زیادہ نہیں بس پونے بارہ  ہی ہوئے تھے ـ بازار میں اکا دکا دکانیں ہی کھلی تھیں ،  باقی  بازار میں” دن چڑھے اندھیرا چھایا ہوا تھا” ۔کہیں کہیں آنکھیں ملتے کچھ دوکان دار اپنی دکان کے تالے کھولتے نظر آئے ، ہم اپنی جلد بازی پر خود کو نصیحت کرتے ہوئے  واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گئے ، کہ کیا ضرورت تھی اتنی جلدی نکلنے کی ، گھڑی تو دیکھ لی ہوتی ، کیا فائدہ  ہوا،  اب دوبارہ آنا پڑے گا۔

واپسی میں ہم یہ سوچتے رہے کہ رزق کے دروازے تو صبح نماز فجر کے بعد ہی رب کھول دیتا ہے ، مگر ہم اپنی سستی ،کاہلی اور بدلتے دور میں آدھے سے زیادہ دن گزرنے کے بعد ان دروازوں کا رخ کرتے ہیں ۔جب کہ ہمارے نبی مہربانؐ نے بتادیا ہے کہ ، دن کے پہلے حصے میں میری امت کے لیے برکت رکھ دی گئی ہے ـ مگر دن کا وہ حصہ ہماری قوم سوتے جاگتے گزار دیتی ہے ۔ہم معیشت کا رونا روتے ہیں معاش تو ہمارے اپنے ہاتھوں تباہ ہورہا ہے۔

سودی معیشت تو ویسے ہی لعنت زدہ اور بے برکت ہے ، لیکن دوسری طرف ہم خود بھی غلط طور طریقوں ، غلط اوقات کار،  وقت کے زیاں اور ایسے دوسرے عوامل کے ذریعے اپنے معاش کو نقصان پہنچارہےہیں ، دن چڑھنے کے بعد ، ظہر  تک  بازار مکمل کھلتے ہیں ، جب کہ اس وقت دن کا دوسرا حصہ شروع ہوچکا  ہوتا ہے، پھر  رات گئے بازاروں میں بیٹھے رہتے ہیں ، جب کہ یہ دن کا آخری حصہ ہوتا ہےـ اس حصے میں حکم ہے کہ گھروں کے دروازے بھی بند کردیے  جائیں ، آرام کیا جائے  کہ یہ وقت بلاؤں اور شیاطین کے نکلنے کا ہے ۔ خود سوچیں ، جس وقت برکت  ہے وہ سو کر یا دوسری مصروفیات میں گزار دیا جائے،  اور جو وقت آرام کا ہے اس وقت کو  بازاروں میں لگایا جائے،  کیا یہ فطرت کے خلاف نہیں ۔جب بھی انسان نے فطرت سے ہٹ کر کام کیا  نقصان ہی اٹھایاـ  سچ ہے کہ جس نے پیدا کیا اس نے اوقات کار  کا تعین بھی کیا  ـ اگر  معاش کے حصول میں ہم خالق کے مقرر کردہ نظام کے ساتھ چلیں گے تو اس میں ہر طرح کا  فائدہ بھی ہے اور سکون بھیـ  تاجر کا بھی اور خریدار کا بھی ۔

یاد رکھیں اگر سب رزق دینے والی ذات کا حکم مانیں گے ، اس کے مطابق تجارت کریں گے تو معیشت پھلے پھولے گی ۔

1 تبصرہ

  1. I’m writing on this topic these days, keo nha cai, but I have stopped writing because there is no reference material. Then I accidentally found your article. I can refer to a variety of materials, so I think the work I was preparing will work! Thank you for your efforts.

جواب چھوڑ دیں