علم سب کے لیے

یہ نعرہ کوئی نیا نعرہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ہوش مند قوم کے لیے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اورزمانے کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے کے لیے بنیاد ہے۔جب بھی کوئی نظریہ زندگی دنیا میں چھاجانے کےلیے اٹھا ہے اس نے اپنے آپ کو علم کے میدان میں ثابت کیا ہے کہ وہ عالم واقعہ میں اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس کو د نیا میں فرمانروائی کرنے کا حق ہے۔

جو قومیں اس میدان سے راہ فرار اختیار کرتی ہیں ان کو غلامی کا طوق پہنا دیا جاتاہے۔ اور اس طرح وہ اپنی صدیوں کی کمائی برسوں میں لٹا دیتی ہیں۔ ہمارے ملک مین بدقسمتی سے یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ چاروں صوبوں میں تعلیم صرف ایک نفع بخش کاروبار کے طور پر موجود ہے جس میں ان بچوں کی کے لیے کوئی مواقع موجود نہیں ہیں جن کے والدین کثیر سرمایا نہیں رکھتے۔ اور اعلٰی تعلیم کےکیا کہنے وہ تو کھیل ہی ہے وطن عزیز میں نوابوں اور سرمایا داروں کا۔

ہمارے ارباب اختیار اس مجرمانہ کھیل میں بڑی تندہی سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے آج تک نصاب تعلیم ہی طے نہیں ہوسکا کئی طرح کے نصاب یہاں رائج ہیں جان بوجھ کر یہ کھیل پورے ملک میں کسی نہ کسی انداز سے کھیلا جارہا ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیوایم، نے تو انتہا ہی کردی آج سندھ کا نوجوان نقل کلچر کے سرکاری سطح پر فروغ پاجانےکی وجہ سے قابلیت کے بغیر ڈگریاں ہاتھ میں لیے مارا مارا پھر رہاہے۔ بلوچستان کا بھی یہ حال ہے۔ کچھ بہتر صورتحال کے پی کے اور پنجاب کی ہے مگر اب بھی وہاں بہت کچھ بہتری کی گنجایش موجود ہے۔

جس طرح کرپشن نے ملک کے تمام اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ کھایا ہے اسی طرح تعلیمی اداروں کو بھی چاٹ کھایا ہے۔ یہ وطن عزیز کے مستقبل، ہمارے نونہالوں کے قتل عام کے مترادف ہے۔

اہل خیر سے کبھی کوئی معاشرہ خالی نہیں ہوتا ہے۔ کم یا زیادہ، اہل خیر ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ بقول اقبال

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اہل خیر اس میدان میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ جو کہ پہاڑی کے چراغ کی مانند ہے یہ کا م سرکاری سرپرستی چاہتاہے۔ مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے ۔اس معاملے کی سنگینی کا ادراک نہ صرف والدین بلکہ پوری قوم کوکرنا ہوگا کیونکہ ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ایک بہت بڑے خطرے سے دوچار ہونے والےہیں۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔

ہمارا ماضی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت روشن ہے اور ہمارے اسلاف کے کارنامے تعلیمی میدان میں آج بھی مینارہ نور ہیں۔ آپ ذرا اس معاشرے کا تصور کریں کہ جہاں ہر طرح کی جہالت تھی مگر وہاں کے افراد نے دنیا کی امامت کی ایسا کیسے ہوگیا؟ اسکا ایک ہی جواب ہے کہ علم اور وہ بھی سچ پر مبنی علم، جب مکہ میں اسلام کی شمع روشن ہوئی آپﷺ نے دعوت کا آغاز کیا، وہ دعوت تھی ایک دین، ایک نظام زندگی کی طرف جو افراد آپ ﷺ کے ساتھ اس سفرمیں شریک سفر بنے آپﷺ نے سب سے پہلے ان کی تعلیم تربیت کا آغاز کردیا۔ آپﷺ نے دارارقم کو تعیلم وتربیت کا مرکز بنایا۔ آپﷺ علم کی اہمیت سے اچھی طرح آشناتھے۔ جس کا م کا آغاز آپﷺ نے اسلام کے نقطہ آغاز سے کیا اس کو آپﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی جاری رکھا۔ آپ ﷺ نے یہاں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی اور  ساتھ باہر ایک چبوترہ تعمیر کروایا جو صفہ کے نام سے مشہور ہوا۔ جہاں مختلف زبانیں بولنے والے مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے طلباء تھے جن کی مالی حالت بھی یکساں نہیں تھی۔ جہاں حضرت ابوہریرہ جیسے فاقہ مست عاشق رسولﷺ بھی تھے، وہاں سے مالدار صحابہ بھی اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ آنحضورﷺ نے علم کا دروازہ تمام انسانوں کے لیے کھولا آپ ﷺ نے تمام طلبہ کو ایک ہی نصاب کا درس دیا اور وہ تھا قرآن و سنت کا نصاب جس کی وجہ سے دنیا کو ایسے افراد ملے جنہوں نے پورے نظام زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا اور اسی تعیلم وتربیت کے نتیجے میں انسانیت کو وہ بیغام ملا کہ جس کی وجہ سے دنیا میں انسانوں نے اپنی شناخت پائی۔ خالق کائنات سے اپنے تعلق کو پہچانا۔

اگر آج بھی ہمیں ویسی ہی دنیا چاہئے جس میں امن تھا، معاشرے میں سکون تھا تو ہمیں “علم سب کے لیے”  کی پالیسی اپنا نا ہوگی اورایک قوم ایک نصاب کو رائج کرناہوگا جونصاب قرآن وسنت کا نصاب ہے۔ جس میں انسان اپنے رب کا حق پہچانے گا اور اپنے ساتھ رہنے والے بندوں کا حقوق ادا کرے گا۔

جواب چھوڑ دیں