تحریک انصاف حکومت،دھرنا اوراس کے اثرات

دھرنا سیاست نے ہمیشہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔وقتاً فوقتاً مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے عامتہ الناس کو تبدیلی اورخوشحالی کا جھانسا دے کر ورغلایا جاتا رہا ہے ۔ہر مرتبہ تبدیلی کا وعدہ غلط ثابت ہوا ۔1958کی تحریک ہو یا 1977کی یا 1999کی نقصان ملکی معیشت کا ہی ہوا۔2007کا لانگ مارچ ہو یا 2014تا2018تحریک انصاف کے جلسے ریلیاں دھرنے وطن عزیز نے نقصانات برداشت کیےغریب آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا۔موجودہ حکومت ڈالر کو استحکام نہ دے سکی ،مہنگائی میں ہوشربہ اضافہ غریبوں کے لیے درد سربن گیا ہے ۔آمدن سے زیادہ اخراجات وسائل کی قلت لاتعداد مسائل کو جنم دے رہے ہیں ۔مہنگی بجلی غریبوں کے چراغ گل کررہی ہے ۔ایک مزدور جس کی ماہانہ اجرت 12ہزار سے 15ہزار روپے ہے اسے 6ہزار تک بل بھیجے جارہے ہیں ۔سبزیاں ،دالیں چینی گھی کی آسمان کو چھوتی قیمتیں تبدیلی کو منہ چڑا رہی ہے ۔کپتان مسائل کی بڑی وجہ کرپشن اورنااہل حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال رہا ہے ۔معاشی اشاریے بہتر ہونے کی امیدیں پیدا ہورہی ہیں مگر غریب کو کیا لگے ان اشاریوں سے اسے تو عزت کی دوقت روٹی چاہیے ۔ڈاکٹر ز پنجاب اورخیبر پختون خواہ میں احتجاج پر ہیں اُو پی ڈیز بندہیں محترمہ یاسمین راشد سب اچھا ہونے کی نوید سنا رہی ہیں ۔ڈینگی بے قابومرض ہوتا جارہا ہے ۔دوسری جانب مولانا فضل الرحمان مقتدر حکومت کی بنیادیں ہلانے کے درپر ہیں ۔
دھرنے سے اتفاق اوراختلاف دونوں ہوسکتے ہیں مگر تین سوالات کا جواب بس ضروری ہے ۔1۔انصارالاسلام کو ایک جیسالباس اورڈنڈے تھمانے کا مشورہ کس نے دیا۔کیا یہ اقدام ملیشیاء بنانے کے مترادف نہیں ہے ۔ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے دوران اس کی ویڈیووائرل کرنا کیا پاکستانی موقف کو کمزور کرنے کی ناکام سعی نہیں تھی ؟۲۔ کیا کسی بھی گروہ کو اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔کیا یہ اقدام نیشنل ایکشن پلان کے تجاویز کے متصادم نہیں ہے ۔مذاکرت کے دروازے توسیاست میں کبھی بندنہیں ہوتے پھر کیوں مولانا حیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں ،مولانا لانگ مارچ کشمیر کاز کے لیے کیوں نہیںکرتے ؟وطن عزیز کی حفاظت میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے مولانا کیوں نہیں ملتے ۔وطن عزیز کو اندرونی اوربیرونی محاذوں پر سخت مسائل کا سامنا ہے ؟۳۔ مولانا کی ٹیم اسمبلی اورسینٹ میں کیوں موثر آواز نہ اُٹھا سکی؟
جمہوری قوتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی قسم کی ہنگامی آرائی دشمن کے عزائم کی راہ ہموار کرے گی ،ارض پاک کاوہ اصلی دشمن جو ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے کمربستہ رہتا ہے ۔گزشتہ دنوں ہوئے پراپیگنڈا کا پاک فوج نے بہادرانہ جواب دیا ،بھارتی افواہوں کی ہوا نکالنے کے لیے سفارتکاروں کو آزاد کشمیر کا دورہ کروایا گیا ،بھارتی موقف دنیا میں پٹ رہا ہے ۔بھارتی میڈیا کی جعلی بھڑکیں ،اورجھوٹی خبروںکی حقیقت دنیا جان رہی ہے ۔گرتی ہوئی معیشت ،بدامنی ،ماب لنچنگ ،دہشت گردوں کی سرپرستی بھارت کی بنیادیں ہلا رہی ہے ۔دول ،مودی اورامیت کسی حادثہ کا انتظار کیے ہوئے ہیں ۔جب دشمن سرحدوں اور بین الاقوامی محاذوں پرناکام ہورہاتو جمہوری قوتوں کو اندرونی استحکام کے لیے مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ہم سب جانتے ہیں بین الاقوامی مافیہ ریاستوں کے اندرونی حالات کو کس طرح خراب کرتا ہے ۔پہلے پہل تفرقہ اورایشوز کو ہوا دی جاتی ہے بعدازاں ریاست پر سوال اٹھائے جاتے ہیں فوج پر دشنام طرازیاں کی جاتی ہیں ،میڈیا ڈرائیور کا رول پلے کرتا ہے ۔وہ لوگوں کی حقائق سے اگاہ نہیں کرتا بلکہ منتشر سوچ کے بیانیہ کو ہوا دیتا ہے جس سے لوگ گھروں سے نکلتے ہیں ،خون بہتا ہے اوردشمن کے عزائم کو تقویت ملتی ہے ۔پاکستانی میڈیا کا کردار مثبت رہا ہے اسے مزید ٹھیک کیا جاسکتا ہے ۔میڈیا جذبات کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ہمارے ادارے مضبوط ہیں جنہوں نے گمنام اورظاہری دشمن کو شکست سے دوچار کیا ۔
وزیراعظم عمران خان اوروزراء کو اپنا رویہ نارمل رکھنا چاہیے ۔ضد اورہٹ دھرمی سے ملک ترقی نہیں کرتے ۔حکومت نے گزشتہ 13ماہ کے دوران عوام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ۔وزیراعظم نے پاور سٹیشن کی افتتاحی تقریب میں فرمایا کہ ڈالر بڑھ جائے تو بجلی کے نرخ بڑھ جاتے ہیں حضور ڈالر آسمان کی بلندیوں تک آپ کے اقتدار میں ہی پہنچاہے ۔100سے 158تک کی اڑان آپ کی ٹیم کی محنتوں کا ثمر ہے ۔مہنگائی کاطوفان ،بیروزگاری ،نااہل وزرا ء کی ٹیم ،پارلیمان سے غیرمنتخب مشیران وغیرہ ۔24ہزار کروڑ کی انکوائری کروانے والی حکومت 11ہزار کروڑ کا حساب کیسے دے گی ۔فہم وتدبر اورمناسب کام کیا ہوتا تو یہ نوبت قطعاً نہ آتی ۔اب بھی حکومت وزراء کو مشورہ ہے کے افہام وتفہیم کا راستہ اپنایا جائے ۔گفت وشنید سے معاملات حل کیے جائیں ۔کسی بھی قسم کا تشدد حالات خراب کرسکتا ہے ۔وزرا ء کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس دھرنے میں تما م اپوزیشن جماعتیں مولانا کو سپورٹ کررہی ہیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی غریب اور نچلے درمیانے طبقے کی اکثریت آبادی بہت زیادہ پریشان ہے اور اس میں نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ہے بلکہ اس اکثریتی آبادی کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے لئے عوامی سطح پر سیاسی حالات سازگار ہیں۔مولانا سے بات چیت بہت ضروری ہے ۔یہ منجھا ہوا کھلاڑی ہے ۔بدقسمتی سے اس کا مقابلہ کرنے والے شعور میں کم اورزور میں زیادہ یقین رکھتے ہیں ۔شعورمولانا کا ایجنڈا ناکام کرسکتا ہے اورزور اپوزیشن کو تقویت دے سکتاہے۔الزام برائے الزام کا وقت بیت چکا ۔عوام کو ریلیف چاہیے اگر ایسانہ ہوا تو غریبوں کی فوج بھی مولانا کی صفوں میں بیٹھ جائے گی پھر آپا فردوس عاشق اعوان کے حکومتی بیانیہ کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔پاور ز کا پلڑا تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگتا 2007کا لانگ مارچ صدر پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمہ کا ٹانک ثابت ہوا تھا۔
وطن عزیز دھرنوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ہرجمہوری حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے کا مکمل حق ہے ۔جمہوری حکومتیں عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی پاسدار ہوتی ہیں ۔حکومت کو چاہیے کے وہ عام آدمی کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے مثبت اوردیر پا حکمت عملی اپنائے ۔مقبوضہ کشمیرکے حالات انتہائی خراب ہیں گزشتہ 80دنوں سے 80لاکھ کشمیری گھروں میں محصور ہیں ۔کوئی نہیں جانتا کہ ان پر کیا گزررہی ہے ۔ظلم کے شب وروز کب ختم ہوں گے اس کا اندازہ کسی کونہیں ہے ۔مظلوم کشمیری بھارتی درندہ صفت فوج کے رحم وکرم پرہیں اوریاں جمہوری قوتیں دھرنا دینے اوررکوانے کی سعی میں مگن ہیں ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں