گو- جراں والا  (طنزومزاح)   

 گوجرانوالہ ایسا شہر ہے جس کا نام سنتے ہی ذہن میں گوجر قوم آجاتی ہے ،کہ شاید اس شہر میں گوجر قوم کی اکثریت رہائش پزیر ہو گی، جس بنا پر اس شہر کا نام گوجوانوالہ پڑ گیا ہوگا۔اس شہر کے باسیوں میں ایک خوبی ہے کہ کبھی باسی کھانا نھیں کھاتے ،اور جب کھانا شروع کر دیتے ہیں تو اس وقت تک نھیں اٹھتے جب تک کہ اٹھنے کے قابل نہ رہ جائیں۔کھانا کھاتے وقت کسی سے بات چیت نھیں کرتے ، ادباً یا احتراماً نھیں ،بلکہ کہتے ہیں کہ کھانے کے دوران باتیں زیادہ کریں تو کھانا کم کھایا جاتا ہے۔گوجرانوالہ میں ہر شخص ، گوجر ہو  نا ہو پہلوان ضرور ہوتا ہے،کمزور سے کمزور کو بھی اس شہر میں لوگ دو القابات سے پکارتے ہیں،پہلوان جی کدھروں، تے بادشاہوں کدھر، یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جس میں اتنے پہلوان نھیں جتنے اکھاڑے ہیں ، کچھ محلے تو ایسے بھی ہیں کہ جہاں اکھاڑے پہلے بنائے گئے ، یہ سوچ کر کہ کبھی وقت ملا تو محلہ بھی آباد کر لیں گے۔کھانے کے اس قدر شوقین ہیں کہ مادی اشیا کی تعریف بھی ایسے کرتے ہیں کہ ’’بھائی جی تہاڈی گڈی بڑی ’’مزیدار‘‘ جے ، یاپھر ’’سوہنیو!گھر بڑا مصالحہ دار بنایا جے‘‘ اور کبھی سفر سے واپس آئیں تو روداد سفر کا حال بھی ایسے ہی بیان فرمائیں گے،موٹر وے تے سفر دا مزہ ای آگیا‘‘

گوجرانوالہ کی ثقافت ہے کہ وہ مہمان کو بھوکا نھیں مارتے ، بلکہ کھلا کھلا کے مارتے ہیں،حالیہ ورلڈ چمپئن انعام بٹ ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ وہ جس بھی شادی میں جاتے ہیں انھیں ایک دیگ زیادہ پکوانا پڑتی ہے ، یا پھر مجھے سب سے آخر میں کھانا دیا جاتا ہے،گوجرانوالہ میں سب سے زیادہ محکمہ رجسٹریشن(شناختی کارڈ)والے تنگ ہیں کہ جس سے بھی پوچھو شناختی علامت اور پتہ کیا ہے ، تو شناختی علامت میں ’’جانگیہ‘‘جب کہ پتہ میں اپنے استاد کے اکھاڑے کا نام درج کرو ادیتے ہیں۔زرعی اجناس میں اگر ان سے جانوروں کے پٹھوں(چارہ) کی بات کی جائے تو فوراً  بول پڑتے ہیں،  جی مجید پہلوان پٹھہ بھولا پہلوان۔۔۔۔سننے پر یقین نھیں رکھتے،سنانے پر پختہ یقین ہے ، خواہ کھری کھری ہی کیوں نہ ہو۔لڑائی کے اتنے شوقین ہیں کہ کشتی لڑنے کا موقع نہ ملے تو محلے والوں سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔’’ان کے ہاتھ اتنے بٹیرے نھیں آتے جتنے کہ گوجرانوالہ میں دکانوں پر پائے جاتے ہیں۔یہاں کے لوگ یا پہلوان ہوتے ہیں یا بدمعاش،پہلوان ہوں تو استاد کا پٹھہ ہونے پر فخر کرتے ہیں ، بدمعاش ہوں تو الو کے پٹھہ پر، پاکستان میں کوئی ایسا باپ نھیں جس کی یہ خواہش نہ ہو کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر نہ بنے،گوجرانوالہ میں ہر باپ کی آرزو ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا پیدا ہوتے ہی پہلوان ہو۔ویسے اس شہر میں ہر کوئی پہلوان ہی پیدا ہوتا ہے ،پورے شہر میں ایک ہی ڈاکٹر پیدا ہوا تھا ،ڈاکٹر یونس بٹ، پہلوان نہ ہونے کی بنا پر بطور سزا اب اس کا شہر میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ڈاکٹر یونس بٹ واحد گوجرانوالیہ ہے جس کے نام کے ساتھ نہ پہلوان جچتا ہے نہ ڈاکٹر مناسب لگتا ہے۔اس کا مناسب حل بٹ صاحب نے یہ نکالا ہے کہ گوجرانوالہ میں داخلہ کے لیے کچھ داؤ پیچ ،اور ڈاکٹر ثابت کرنے کے لیے کچھ نسخے ازبر کر رکھے ہیں۔

گوجرانوالہ کے لوگ وراثت پر اتنا نھیں جھگڑتے جتنا کھانے کی تقسیم پر لڑتے ہیں،شادی بیاہ کی تقریب ہو تو پہلوانوں کو دیگوں سے دور رکھا جاتا ہے،صرف اُسی دیگ کو پہلوان کی قربت نصیب ہوتی ہے جو خالی ہو۔

میرے ایک دوست کالم نگار کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے، بڑے بھاری بھر کم کالم لکھتے ہیں۔ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ اتنے صحت مند کالم کیسے لکھ لیتے ہیں ، تو کہنے لگے خالی پیٹ لکھا نھیں جاتا،جس دن کالم کے پلے کچھ نہ ہو مجھے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج کا کالم خالی پیٹ لکھا گیا ہے۔اکثر کالم نگار لکھتے وقت چائے،کافی اور سگریٹ پاس رکھتے ہیں، مگر میرے گوجرانوالیے دوست کالم نگار کا قلم یخنی،بٹیر،چڑے اور مرغ مسلم کے بغیر حرکت میں ہی نھیں آتا۔شروع شروع میں ایک اخبار میں صرف ’’کھانے ‘‘کے لیے لکھتے تھے، اب اس ادارے نے تنخواہ لگا دی ہے۔کیوں کہ کھانا ادارے کے بس کی بات نھیں تھی۔اس شہر کے لوگ آپے سے باہر ہوتے ہیں یا پیٹ سے،خالص گوجرانوالیہ کا اندازہ بھی پیٹ سے ہی لگاتے ہیں،اس شہر کے سیانے تو اتنے سیانے ہیں کہ پیٹ دیکھتے ہی بتا دیتے ہیں کہ اس شخص کو گوجرانوالہ میں آئے کتنے سال ہو گئے ہیں۔

باشندگان گوجرانوالہ خالی پیٹ اور خالی جیب کبھی گھر سے باہر نھیں نکلتے۔’’جتھے ویکھن توا پرات،اوتھے گزرن دن تے رات‘‘کے مصداق ان کا ماننا ہے کہ زندگی کا انحصاردو چیزوں پر ہے،یعنی توا اور پرات،ایک پکانے کے لیے اور ایک کھانے کے لیے۔بہت سی خوبیوں میں اس شہر کے لوگوں میں ایک یہ خوبی بھی ہے کہ ’’رج‘‘ کے کھاتے ہیں اور رج کے ہی کھلاتے بھی ہیں۔لہذا کمزور معدہ اور کمزور دل کے افراد گوجرانوالہ سے دور ہی رہیں تو ان کے لیے اچھا ہے،  وگرنہ کھلا کھلا کے معدہ کے السر میں مبتلا کر دیں گے۔کچھ بھی ہو لوگ زندہ دل ہیں،ارو تو اور مرُدے کو بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اگر اس کا دل زندہ ہوتا تو آج بکرے کے دل گردے اسے کھلاتے۔اس سے تو لگتا ہے کہ واقعی زندہ دل لوگ ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں