ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نھیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

اگر اقبال کے فلسفہ خودی کا عمیق نظروں سے مطالعہ کیا جائے تو فلسفہ خودی سے مراد اصل میں خود آگاہی ہے ـ فلسفہ خود آگاہی کیا ہے؟اسے جاننے کے لیے حضرت علیؓ کا یہ قول کافی ہے کہ ’’من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ‘‘جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا۔علامہ اقبال سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ کی شاعری میں جتنا تذکرہ نوجوانوں کا ہے ، مردِ پیری کا کیوں نھیں  ،تو اقبال نے فرمایا کہ ہمارے بوڑھے پکی ہوئی کھیتی ہیں ،تیارکھیتی کو سنبھالنا اتنا مشکل نھیں ہوتا جتنا کہ تیار ہونے والی فصل اس لیے کہ اگرپکنے والے پھل کو کوئی بیماری پڑ جائے تو اس کی پوری فصل اور پھل ہی تباہ وبرباد ہو جائے گا جب کہ تیار شدہ فصل اور پھل جتنا بھی خراب ہو جائے اس کا کچھ حصہ ضرور کاشتکار کے حصہ میں آجاتا ہے،اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

گویا ملکی معیشت کا انحصار نوجوان نسل پر ہوتا ہے ،یہی وہ فوج ہے جو ملک کا مستقبل اور معمار ہوتی ہے۔اسی فلسفہ پر ہمارے وزیراعظم عمران خان نے کاربندہوتے ہوئے’’ کامیاب نوجوان‘‘پروگرام متعارف کروایا ہے جس کا مقصد بے روزگار نوجوان نسل کو قرض کی سہولیات بہم پہنچانا ہے تاکہ ملکی نوجوان اپنے قدموں  پر خود کھڑے ہو سکے نا کہ اس انتظار میں رہیں کہ جب ان کے پاس وسائل آئیں گے تو وہ کام پرلگیں گے، پروگرام میں سو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور پہلی بار پچیس ارب روپے ہنر مند خواتین کے لیے بھی رکھے گئے ہیں تاکہ نصف سے زائد خواتین کی آبادی کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیں۔اگرچہ ایسا پروگرام پاکستانی نوجوانوں کے لیے کوئی نئی بات نھیں ہے ، اگر ایسا ہے تو کامیاب نوجوان پروگرام میں ایسا کیا ہے کہ اس کی تحسین کی جا سکے، مجھے لگتا ہے کہ خان صاحب نے اس پروگرام کی افتتاحی تقریب سے جو خطاب کیا ہے اس سے لگتا ہے یہ عمل صاف شفاف اور میرٹ پر مبنی ہوگا،سابقہ حکومتوں میں شاید اس کا فقدان رہا ہے ۔اس سلسلے میں وزیراعظم نے ہلکے پھلکے خوشگوار اور طنزیہ انداز میں مولانا فضل الرحمان کو مخاطب بھی کیا کہ اگر مولانا بھی میرٹ پر پورا اترتے ہیں تو انھیں بھی قرض کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

ا س میں بھی کوئی شک نھیں کہ نوجوان کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، لہذا کامیاب نوجوان سے مراد دراصل کامیاب پاکستان لیا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نھیں ہونی چاہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ خان صاحب چوں کہ حال ہی میں دورہ چین سے واپس آئے ہیں ،تو ہو سکتا ہے کہ چین میں کسی صاحب اقتدار واختیار نے انھیں اپنی یہ کہاوت سنا دی ہو کہ چین کسی کو مچھلی نھیں دیتا ، بلکہ کانٹا دیتا ہے ، کہ وہ خود مچھلی کا شکار کرے اور چین پر زیادہ دیر تک انحصار کرنے کی بجائے خود انحصاری پر یقین رکھے۔یا پھر ہو سکتا ہے کہ اسلام کے سنہری دور کا یہ واقعہ انھوں نے کسی تاریخ اسلام کی کتاب میں پڑھ لیا ہو کہ ایک بار ایک صحابی آپﷺ کے پاس آیا اور عرض کی یارسول اللہﷺ گھر میں فاقہ ہے اور کوئی کام کاج بھی نھیں ہے میری کوئی مددفرمائی جائے تو آپ ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا کہ کیا  آپ کے گھر میں کچھ بھی نھیں ، جس پر صحابی نے عرض کی یارسول اللہﷺ میرے گھر میں ایک کلہاڑی کے سوا کچھ بھی نھیں جس کا دستہ بھی نھیں ہے،آپ ﷺ اس صحا بی سے وہ کلہاڑی منگوائی اس کا دستہ خود بنایا اور صحابی کو دیتے ہوئے فرمایا کہ ، جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤ، بازار میں فروخت کرو اور اپنا اور بچوں کا پیٹ پالو، کچھ عرصہ بعد وہی صحابی آپ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوا اور کہتا ہے کہ یارسول اللہ ﷺ اب میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں کسی اور مجبور اور ضرورت مند کی خدمت کرسکتا ہوں،حکومت پاکستان کا یہ قدم بلا شبہ قابل تحسین ہے کہ وہ نوجوانوں کو کاروبار کی تلقین اور ترغیب دے رہی ہے ، انھیں مانگنے پر نھیں لگا رہی،مجھے لگتا ہے کہ اس بار پروگرام کے ثمرات ہماری نوجوان نسل تک ضرور پہنچیں گے ، اس لیے کہ ایسے پروگرامز کو چلانے کے لیے جس جذبہ،لگن،اخلاص،میرٹ اور حقوق کی پاسداری کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ وزیراعظم کی تقریر سے عیاں ہو رہا تھا،ان شااللہ یہی نوجوان پاکستان کا مستقبل،فلاحی ریاست اور خوش حال پاکستان کے امین ہوں گے ، کیوں کہ جب یہ جون اپنی خودی کو پہچان لیں گے تو پھر کسی منزل پر بھی ان کا راہوار نھیں رکے گا۔

جواب چھوڑ دیں