جمہوریت اور انسانیت؟؟

وہ پتے اور ہوتے ہیں جنہیں گل لوگ کہتے ہیں

ہر قطرہ کی قسمت میں گوہرہونا نہیں آسان۔۔۔

جمہوریت اصل میں ہوتی کیا ہے ۔اس کی عملی تصویر ہمیں آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت محمدﷺ نے مدینہ کی ریاست میں دکھائی۔اب روشنی ڈالتے ہیں پاکستان کی جمہوریت پر، سمجھ نہیں آ رہی میں اس جمہوریت کی کیا تعریف کروں جس کے  چہرے پر دو بدنما داغ ہیں ، ایک کرپشن اور دوسرامنافقت کا ، جس کی سب سے عمدہ مثال مولانا ہے۔ ہماری جمہوریت کے تو  کیا  کہنے جو دنیا میں بھی سب سے منفرد ہے  ، مثال کے طور پر دین پر سیاست ، لاشوں پر سیاست، ذاتیادت پر سیاست  ، ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں اس جمہوریت کی کہ  کاغذاور سیاہی ختم ہو جائے گی مگر مثالیں ختم نہیں ہوں گی۔جس طرح آج مولانا دین کے نام پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں ، دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی واحد منافقت ہے ،  یہی طرز منافقت آج ہماری سیاست کو گندا کر رہا ہے۔

اب سول سروس کی کچھ بات ہو جائے جس کا کسی بھی ملک کی جمہوریت میں اہم کردار ہوتا ہے ، جمہوریت کے کامیاب یا  ناکام ہونے کا دارومداربیورو کریٹس پر ہوتا ہے ،  بیورو کریٹس کا ایماندر ہونا کسی بھی جمہوریت کے لیے مال غنیمت سمجھا جاتا ہے ۔بیورو کریٹس کو چھوڑیں کسی بھی سول ادارے کی جانچ پٹرتال کرلیں ،  آولے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ افسر سے نوکر تک کرپشن کی نہ ختم ہونے والی سیڑھیاںچڑھ رہا ہے  ، اس کی ایک مثال کچھ عرصہ قبل ٹی ولی پرایک خبر کی صورت میں نظر سے گزری ، کہ کسی سرکاری محکمے کے ایک چھوٹے سے افسر نے کرپشن کے ذریعے ایک عالی شان بنگلہ بنایا ہے ، جس کا صرف ایک واش روم ہی تین مرلہ پر مشتمل ہے۔سوچیئے  ذر اگر ایک چھوٹا سا افسر یہ سب کچھ کر رہا ہے تو  پھر بڑے بڑے مگر مچھوں نے نجانے کتنے  اربوں کے چونے لگائے ہوں گے ۔اور کیوں نہ لگاتے جب انھیں معلوم تھاکہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں،  اور اگر کسی نے کرپٹ افراد پر ہاتھ ڈالا تو جمہوریت خطرے میں آ جائے گی ۔اور چور مچائے شور والا ڈارمہ شروع ہوجائے گا ۔ جس طرح آج سبھی چور ، ایک پلیٹ فارم پر متحد ہیں اوراپنی اپنی چوری بچانے کے لیے متحرک ہیں۔

اب بات ہوگی پاکستان کیسے مدینہ  کی ریاست بن سکتا ہے جس کا ذکر باربار وزاعظم عمران خان کرتے ہیں ، پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کے لیے  ریپ، آئس نشہ ، فحش ویب سائٹز اور غیر تہذیبی برہنہ لباس سے پاک کرنا ہو گا،  اس کے ساتھ ساتھ غریب کا چولہا پورا سال چلتا رہے ، مزدور ،کسان،اور اسی طرح کے باقی نچلے  طبقے کو بھی معاشرے میں اوپر لانے کی ضرورت ہےـ پاکستان میں پچھلے گیارہ سال سے جمہوریت قائم ہے  مگر ابھی تک ہمارے ساستدان بالغ نہیں ہوسکے ، پچھلے دس سال میں جس طرح کی جمہوریت پاکستان میں رہی اس سے کہیں بہتر پرفارمنس تو ماضی کی فوجی حکومتوں کی رہی ہے ، آج بھی سندھ کے سب سے پسماندہ علاقے تھرمیں بچے غذائی قلت سے مر رہے ہیں، دوسری طرف پنجاب میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پچھلے ۱۰ سال سے مسلسل ہو رہے ہیں اور اب عروج پر پہچا چکے ہیں درندگی کے تازہ واقعات قصور اور چونیاں  میں رونما ہوئے ہیں ،رپورٹ کے مطابق  صرف قصور میں اب تک ۲۴۶ بچوں کے ساتھ ریپ ہوا ہے اور جو جنسی درندگی کے واقعات ڈر اور خوف کی وجہ سے رپوٹ نہیں ہو رہے وہ نجانے کتنے ہوں گے ، ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں کسی بڑی سیاسی پارٹی کا  ایم  پی  اے یا  ایم این اے ملوث ہوتا ہے ، جیسے قصور کے ایک واقع میں انٹیلی جنس رپوٹ کے مطابق ن لیگ کا ایم پی اے بچوں کی فحش ویڈیو بنا کر عالمی مارکیٹ میں سیل کرتا تھا ، جنہیں مختلف فحش ویب سائٹز پر منتقل کیا جاتاہے ، جس کی وجہ سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہورہی ہے ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور حکو،ت میں بھی جنسی زیادتی کے ان گنت واقعات  ہوئے ہیں ، مگر کوئی کیس بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا کیوں کہ کچھ کیسز میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ایم پی اے اور یم این اے ملوث  ہیں ، یہ دونوں جماعتیں اپنی سیاسی ساخت بچانے کے لیے جنس زیادتی کے کیسز کو دباتی رہی ہیں ـ

 موجود حکومت جس پارٹی کی ہے اس کا نام ہی تحریک انصاف ہے جس سے پوری پاکستانی قوم کوعدل و انصاف کی امید ہے ، جنسی زیادتی کی سزا سر عام پھانسی ہونی چاہیے ، چونیاں میں کچھ روز پہلے بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والا ایک ملزم گرفتا کیا گیا ہے ، اگر اسے نشان عبرت بنا دیا جائے تو  آگے سے کسی کی جرات نہ ہو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی ، جنرل ضیاء الحق کے مارشل کے دور میں لاہور میں دو بچوں کے قتل کا ایک واقع رونما ہوا  تو قانوں فوری طور پر حرکت میں آیا اودور ملزمان کو چوبیس گھنٹوں میں گرفتا  کر کے سرعام پھانسی پر چڑھ دیا گیا ، اور ان کی لاشیں شام تک اسی جگہ لٹکی رہیں  جہاں بچوں کوقتل کیا گیا تھا،  پھر پورے ۱۱ سال تک قتل اورجنسی زیادتی کا کوئی واقع سامنے نہیں آیا ، پچھلی دونوں حکومتیں اس لیے ناکام ہوئیں کیوں کہ ان کے دور حکومت میں ملک میں کرپشن ، بروزگاری، اور غربت عروج پر رہی ، جب کہ جنسی زیاستی کے واقعات میں ناقابل حد تک اضافہ ہوا ، نجانے کتنی بنت حوا ہوس کا نشان بنی جس میں قصور کی زنیب بھی شامل ہے ، ان بچوں اور بچیوں کا بس اتنا قصورہے  کہ یہ غریب کے گھر پیدا ہوئے ہیں ،اس گھر کی کیا حالت ہوگی جس کی جوان بیٹی کی عزت لوٹ لی جائے ، اس کی ماں ، بہن ، بھائی اور باپ کس اذیت سے گزر  رہے ہوں گے ، یہ درد ہم میں سے کوئی محسوس بھی نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ ہمارے ساتھ نہیں ہورہا، ایک انسان کو دوسرے انسان کا دکھ ، در، تکلف ، اس وقت محسوس ہوتی ہے جب اس کے  اپنے گھر قیامت برپا ہو، ہم سب کو مل کر اپنے بچے بچیوں کو اس درندگی سے بچانا ہے،  اگر آج ہم نے ریپ کیسز میں سر عام پھانسیاں نہ دیں تو پھر  کل کو کسی بہن ، بیٹی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی ،  خدار کچھ کیجیے۔

آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں جنسی زیادتی پر شرعی سزائیں مقرر کی جائیں،  اسلام میں زانی کو سو کوڑے مارنے کا حکم ہے،  اگر ہمارے ملک میں چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور زنا کرنے والے کو  ۱۰۰ کوڑے مرے جائیں تو پھر زنا کرنے اور قتل کرنے کا کوئی سوچ کا بھی نہیں  سکتا ، پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ ضروری ہےـ قبیلہ قریش کی ایک عورت نے  جب چوری کی تو  فیصلہ ہوا کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے ، چنانچہ اس کے عزیز و اقارب نے حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ پر دباؤ ڈالا،  آپؓ  سفارش لے کر رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپﷺ نے فرما یا ـــ ـــــــــ: ـ  اللہ کی قسم اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہؓ  بھی چور کرتی  تو اس کو بھی یہی سزا دی جاتی ۔

جواب چھوڑ دیں