عمرانی حکومت اور بلند و بانگ دعوے

     ان گزشتہ چودہ پندرہ مہینوں میں پاکستانی عوام عمران خان صاحب کی شخصیت، قابلیت اور صلاحیتوں سے بہتر طور آگاہ ہوچکے ہیں۔ ان کے بلند و بانگ دعوؤں اور عملی اقدامات کی حقیقت بھی جان چکے ہیں کہ کس طرح انھوں نے اپنے سیاسی جلسوں کے دوران عوام کو سنہرے دور کے خواب دکھلائے ، اور برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے کسی ایک دعوے پر بھی عملدرآمد کی بجائے ، روایتی سیاستدانوں سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یوٹرن پر یوٹرن لیتے نظر آئے۔ گزشتہ دنوں بھی انھوں نے کنونشن سینٹراسلام آباد میں کامیاب جوان پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانون کو مختلف صنعتوں میں انٹرن شپ کروائیں گے ،10 لاکھ نوجوانوں کوقرضے دیں گے ، مگر اب ملک کے نوجوانوں کو ان پر پہلے جیسا اعتماد ہرگز نہیں رہا، کیوں کہ عمران خان نے مسند اقتدار سنبھالتے ہی پہلے سو دن کا جو منصوبہ پیش کیا تھا اس میں نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے اور 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا اعلان تھا ۔ ابھی چند ماہ قبل ہی وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے بھی پورے فخر و انبساط کے ساتھ قوم کو یہ خوش خبری سنائی تھی کہ حکومتی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک میں ملازمتوں کا سیلاب آنے والا ہے مگر اس خوش خبری کے عملی قالب میں ڈھلنے کی اب تک نوبت نہیں آ سکی۔ اس کے برعکس وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا عوام کو ملازمتیں فراہم کرنے کے حوالے سے جو بیان سامنے آیا وہ عام لوگوں،  خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے منشور پر اعتماد کا اظہار کرنے والوں کے لیے اضطراب سے خالی نہیں۔حکومت کا ایک سال گزرنے کے بعداب فواد چودھری عوام سے فرمارہے ہیں کہ وہ حکومت سے نوکریاں نہ مانگیں ، اس طرح فواد چودھری نے تحریک انصاف کے منشور ہی کی تردید کردی ہے ۔ فواد چودھری نے مزید فرمایا کہ حکومت سرکاری شعبے میں روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنا تو دور کی بات، چار سو محکموں کو بندکرنے پر غورکررہی ہے ۔ فواد چودھری کے فرمودات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ یا تو پہلے عمران خان اور ان کے مشیروں کو علم نہیں تھا کہ وہ کیا وعدے کررہے ہیں یا پھر اب فواد چودھری کو حقیقت حال کا علم ہو ا ہے کہ سرکار ایک کروڑ نوکریاں نہیں فراہم کرسکتی۔  جب کہ آئین پاکستان کی دفعات 25 سے 38 تک کا مطالعہ کیا جائے تو ان دفعات میں شہریوں کی تمام بنیادی ضروریات بشمول تعلیم، صحت اور روزگار بلا امتیاز پوری کرنا ریاست کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ سرکاری دفاتر، مختلف سروسز، ایجنسیوں اور بین الاقوامی نوعیت کے سرکاری اداروں کی ملازمتیں کہیں بھی اتنی نہیں ہوتیں کہ ملکی آبادی کے ہر فرد کو ان میں کھپایا جا سکے، لیکن سرمایہ دارانہ یا ملی جلی معیشت والے ملکوں میں حکومتیں زراعت، صنعت، کاروبار اور خدمات کے شعبوں میں ایسے سازگار حالات اور مواقع فراہم کرتی ہیں جن سے لوگوں کو نجی شعبے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ روز گار میسر آسکیں۔ مگر عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد جو ماحول پیدا کیا ہے اسے عالمی بینک کی رپورٹ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے اور شہروں شہروں ہونے والی تاجروں کی ہڑتال سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ روپے کی بے قدری ، ٹیکسوں میں بے انتہا اضافہ ، بجلی ، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں ہر چند دن کے بعد اضافے نے نجی شعبے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ اس پر شرح سود میں زبردست اضافے نے رہی سہی کسر پوری کردی۔  اس کے نتیجے میں صنعتی یونٹ روز بند ہورہے ہیں اور زرعی شعبہ بھی زبردست خسارے کا شکار ہے ۔  پاور لومز ٹیکسٹائل انڈسٹری کی جان ہیں۔ فیصل آباد میں پاور لومز بند پڑی ہیں اور ہزاروں افراد کے گھروں کا چولہا بجھ گیا ہے ۔ عمران خان کی پالیسیوں نے جو ماحول پیدا کیا ہے اس سے روزگار کے مزید مواقع کیا پیدا ہوتے ، جو لوگ روزگار سے لگے ہوئے تھے وہ بھی اب بے روزگاروں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ جب کہ وہ حکومت تو ایسی پالیسیوں کو اعلانیہ عملی جامہ پہنانے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی جو سابق ادوار حکومت میں غربت، مہنگائی، روٹی روزگار کے گھمبیر ہوتے مسائل سے عوام کی گلو خلاصی کرانے اور ریاست مدینہ جیسی اسلامی فلاحی مملکت تشکیل دینے کے دعوؤں، وعدوں، منشور اور ایجنڈہ کے تحت عوام کی ہمدردیاں حاصل کر کے اقتدار میں آئی ہو۔ ایک جانب جہاں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کامیاب جوان پروگرام سے نوجوانوں کو سنہرے مستقبل کے خواب دکھا رہے ہیں وہیں حکومتی وزراء اپنے بیانات سے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے روزگار کے دروازے بند ہونے کی نوید سنا کر مایوس نوجوانوں کو راہزنی، چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت گری جیسے قبیح جرائم کے راستے اختیار کرنے پر راغب کررہی ہے ۔ عمران خان اور ان کی کابینہ کے دعوؤں اور عملی اقدامات کی بدولت انھوں نے قوم کا اعتماد کسی حد تک کھودیا ہے، اور قوم مطالبہ کررہی ہے کہ ملک سے غربت و مہنگائی ختم کی جائے، انھیں ریاست مدینہ کے خواب نہ دکھائے جائیں ، کیوں کہ آپ ایسا ہرگز نہیں کرسکتے ، آپ نہ تو قول کے سچے ہیں،  نہ ملک میں نظام مصطفی کا نفاذ چاہتے ہیں ،اور نہ ہی سودی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسلام کے سنہری اصولوں پر کاربند رہنے سے قائم ہونے والی ریاست مدینہ توبس سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا ۔

٭…٭…٭

جواب چھوڑ دیں