تہذیب،تحقیق اور آج کا انسان

تہذیبی ترقی غیرجانبدارانہ تحقیق کے بنا ممکن نہیں ہو سکتی،اگر ہم تحقیق کی بات کریں تو اس سے مراد صداقت اور سچائی کی تلاش ہے،تحقیق حال کو بہتر بنانے ،مستقبل کو سنوارنے اور ماضی کی تاریکیوں کو پرُ ضیا بنانے کا نام ہے۔تحقیق کا سب سے اہم کام گمشدہ دفینوں اور خزینوں کو دریافت کرنا یعنی نامعلوم سے معلوم کے سفر کا نام تحقیق ہے۔ اگر ہم علم عمرانیات کا جائزہ لیں تو سماجی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ انسان کے زمین پر آباد ہونے کے بعد  مسائل نے بھی جنم لینا شروع کردیا تھا،جیسے جیسے مسائل بڑھتے گئے انسان نے ان مسائل کے حل کی طرف توجہ مبذول کرنا بھی شروع کر دی کیوں کہ  اگر مسائل کا بروقت حل تلاش نہ کیا جائے تو ہر سو مسائل ہی مسائل ہوں گے جس سے انسانی تہذیب کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔انسان نے مسائل کا حل اس لیے بھی تلاش کرنا شروع کر دیا کیوں کہ  اس نے اس فلسفہ حیات کو پا لیا کہ انسانی ترقی کا راز صرف اسی بات میں مضمر ہے کہ مسائل کو حل کیا جائے۔دراصل اسی ارتقا کا نام ہی تحقیق ہے۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق ہمیں گمشدہ ماضی سے روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے۔اگر ہم انسانی ارتقا،سماجی وتہذیبی درجات کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم انسان ،وحشی، جنگلی سے جدید انسان کیسے بنا؟یہ سفر ایک دن میں طے نہیں ہوا بلکہ اس تہذیبی ترقی و ارتقا کے پس منظر میں صدیوں کی داستانیں پنہاں ہیں۔گویا تبدیلی کا یہ عمل صدیوں پر محیط ہے۔

آج کا انسان جس مادی ترقی،تکینیکی سہولیات اور سائنس کی ایجادات و اختراعات کی باتیں کرتا ہے یہ سب مسلسل تحقیقی عمل سے ممکن ہو سکا۔وگرنہ انسان تو فطرت کے رحم وکرم پر ہی زندگی گزار رہا تھا،یعنی موسم کی شدت کا سامنا کرنا پڑتا تو اپنے آپ کو غاروں میں چھپا لیتا ، جب کہ آج جدید دور میں انسان موسموں کی تلخیوں اور سختیوں کا سامنا کرنے کے لیے بڑی بڑی عمارتوں کا مالک بنا بیٹھا ہے،قدیم انسان اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے درختوں کے پتوں ،پتھروں اور جانوروں کی کھالوں پر لکھتا تھا، اب نفیس کاغذ پر جدید پرنٹنگ پریس سے خوبصورت کتابیں شائع کر رہا ہے۔گھنٹوں کا سفرقدیم زمانہ میں انسان پیدل، گھوڑوں اور ہاتھیوں پر کیا کرتے تھے اب سائنسی ترقی سے انسان جہاز کے ذریعے ایک براعظم  سے دوسرے براعظم کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر لیتا ہے۔اور تو اور چاند پر قدم رکھنے کے بعد اب انسان مریخ پر کمندیں ڈالنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔سائنسی ترقی سے انسانی تہذیبی ارتقا و ترقی کا سفر جامد نہیں ہو گیا بلکہ سائنسی ترقی وسماجی ترقی کے تسلسل کے ساتھ ساتھ تہذیبی عمل میں بھی اسی رفتار سے ترقی ہو رہی ہے۔جیسے عملی ترقی کی کوئی حد نہیں ایسے ہی انسانی تہذیب کی ترقی کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔گویا تحقیق اور تہذیب ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں ، تحقیق کی نئی جہتیں دراصل تہذیب کے کثیر پہلوؤں کو تاریکی سے روشنی عطا کرتی ہے۔مثلا ایک وقت تھا کہ ولی دکنی کو پہلا شاعر خیال کرتے تھے اب جدید تحقیق نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ولی سے پہلے بھی بہت سے شعرا نے اپنا کلام جمع کیا تھا۔ایسے ہی کوپر نیکس نے ایک طویل عرصہ تک عیسائی پادریوں کو اور انگلستان کے بادشاہوں کو اپنے اس نظریہ کا قائل رکھا کہ زمین نظام شمسی کا مرکز ہے،لیکن 1633 میں گلیلیو نے اس تھیوری کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ کوپرنیکس کا یہ نظریہ غلط ہے کہ زمین مرکز ہے بلکہ سورج اس نظام کا مرکز ہے۔گویا سائنسی ترقی نے انسان کو قدیم سے جدید بنانے میں اہم کردار اد اکیا۔

عصرِ حاضر میں اگر ہم انسانی عادات واطوار کا مطالعہ کریں اور اس کے تہذیبی ماحول پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دور جدید میں بھی انسان اپنی عادات واخلاقیات میں حجری دور میں ہی مسکن پذیر ہے۔بڑھتے جرائم،کھلے عام عصمت دری، لوٹ مار، کرپشن، انسانوں کی حیوانیت، چوری اور چوربازاری، عریانی و بے حیائی دیکھ لگتا نہیں کہ انسان نے ترقی کر لی ہے ۔ انسان آج بھی حجری زمانہ کا ہی دکھائی دیتا ہے ،جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگو تھا آج بھی ’’لچا سب سے اچا‘‘خیال کیا جاتا ہے، چار کتابیں پڑھ کر، ڈگریاں ہاتھوں میں تھام کر انسانی استحصال کرنا زمانہ قدیم میں غلام رکھنے کے ہی مترادف ہے ،اسی لیے سماجی ماحول دیکھ کر اکثر میرے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان،سماجی تہذیب اور اقدار نے ترقی کر لی ہے یا آج بھی ہم غیر شائشتہ تہذیب کے باسی ہیں ،بس ننگے بدن پر لباس پہن لیا ہے وگرنہ آج بھی ہم عصرِ حجر میں ہی بس رہے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں