ڈرائیوروں کی ہلاکتیں اور تحقیقات کا حکم

لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے تمام  اداروں نے یہ طے  کر لیا ہے کہ اب جو بھی فیصلے کرنے ہونگے وہ خود ہی کرنے ہیں ۔ اداروں کے آپس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق اب وہ زمانہ گیا جب گرفتاریاں عمل میں آیا کرتی تھیں، پھر ان کے خلاف چالان کاٹے جاتے تھے، پھر ملزموں کو عدالت کے رو برو پیش کیا جاتا تھا اور ملزمان کے خلاف پورے ٹھوس ثبوت و شواہد پیش کرکے ان کو ملزم سے مجرم قرار دلوا کے قرارِ واقعی سزا کا مستحق بنا یا جاتا تھا ۔  اب تو پکڑو اور ماردو والی کہانی کرو، خود ہی پولیس بن جاؤ، خود ہی عدالت بن جاؤ، وکیل بھی خود ہی بنو اور جج بھی۔ کون اتنا تردد کرے کہ پکڑے، چالان کاٹے، جرم کی تحقیقات کرے اور عدالتوں کے چکر لگائے۔

اگر میرے دل کی بات سنیں تو میرا دل بھی مجرموں کیلیے اسی قسم کے جذبات و خیالات رکھتا ہے۔ اب یہ سارے مجرمان اتنے بیباک و سفاک ہو گئے ہیں کہ کسی کی بھی جان لینے میں لمحہ نہیں لگا تے۔ کسی کو بھی گن پوائنٹ پر روکا اور لوٹ لیا۔ کسی نے فطری گھبراہٹ کی وجہ سے یا اپنے آپ کو لٹنے سے بچانے کیلیے ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، لوٹنے والوں نے بنا تامل گولی چلادی۔

کچھ وارداتوں کا جواب تو ایسا ہی ہونا چاہیے اور اب کہیں کہیں ایسا دیکھنے میں بھی آنے لگا ہے لیکن جہاں معاملہ چھینا جھپٹی یا لوٹ مار کا نہ ہو بلکہ کسی تنازعے کا ہو، کسی ایجی ٹیشن کا ہو، کسی کو اس بات کا احساس ہو رہا ہو کہ کوئی بھی محکمہ یا ادارہ اس کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے یا وہ آئین و قانون کے مطابق اس کے ساتھ انصاف کرنے کی بجائے اسے کسی امتیازی سلوک کا نشانہ بنا رہا ہے تو پھر کسی بھی لحاظ سے کسی بھی قانون نافذ کرنے یا امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے والے ذمہ دار ادارے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ درندگی کا مظاہرہ کرنے پر اتر آئے اور انسانوں کو پرندوں اور جانوروں کی طرح شکار کرنے لگے۔

ایک افسوسناک خبر کے مطابق “فوج کے زیر انتظام تعمیراتی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے درمیان جاری تنازعے کے دوران کراچی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کم از کم تین افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ  چند کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں”۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق “میڈیا سے بات کرتے ہوئے کراچی پولیس ضلع مشرقی کے ڈی آئی جی عامر فاروقی نے بتایا کہ ایف ڈبلیو او اور ٹرک ڈرائیوروں کے درمیان ٹرکوں پر سامان لادنے یعنی لوڈنگ کے حوالے سے تنازعہ چل رہا تھا۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ایف ڈبلیو او کے اہلکار اعلیٰ عدالت کی جانب سے ٹرکوں کے لوڈنگ کے وزن کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ڈی آئی جی عامر فاروقی کے مطابق ٹرک ڈرائیوروں نے طیش میں آ کر ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔  پولیس کے مطابق ایف ڈبلیو او کے حکام نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی مگر ایسا ممکن نہ ہوا تو اس کے بعد انھوں نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی”۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ کوئی ڈکیتی یا لوٹ مار کا واقعہ نہیں تھا ، جہاں دوطرفہ فائرنگ کا یا مقابلے کا خدشہ موجود ہوتا اور کسی بھی بڑی واردات کے امکانات سے بچنے کیلیے انتہائی قدم اٹھانے کی صورت پیش آتی، بے شک پتھراؤ بھی کوئی آئینی اور قانونی قدم نہیں تھا لیکن جواب میں اس حد تک آگے بڑھ جانا کہ افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھیں یا شدید زخمی ہوکر ہمیشہ کیلیے معذوری کا شکار ہوجائیں، جیسے رد عمل کا سامنے آنا بھی کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ کہا جارہا ہے کہ اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی لیکن کیا ہوائی فائرنگ سے ہلاکتیں ہوجانا یا افراد کا زخمی ہوجانا بنتا ہے۔ جو بھی مظاہرین تھے وہ پرندے تو نہیں رہے ہونگے کہ وہ آسمان پر پرواز کرنے کی وجہ سے “ہوائی” فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک یا زخمی ہو گئے ہوں۔

جس قسم کا تنازعہ پیدا ہوا تھا وہ پاکستان میں کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا ۔  آئے دن پورے پاکستان میں اسی قسم کے تنازعات روز ہی جنم لیتے رہتے ہیں اور ان سب کا حل بات چیت سے نکال لیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ بات کسی ہنگامے کی صورت میں کوئی بہت اچانک نہیں پہنچ گئی تھی بلکہ اس بات کو بڑھ کر یہاں تک پہنچنے میں 4 دن لگے تھے۔ کیا یہ کوئی ایسا مسئلہ تھا جو چار دنوں میں بھی حل نہ ہو سکا۔  کیا ہر بات اور ہر اصول پاکستان میں پتھر کی لکیر بنا دیا گیا ہے اور بیچ کی کوئی راہ نکالی ہی نہیں جاسکتی۔

اچھا تو یہی ہے کہ جو اصول و قوائد وضع کر لیے جائیں ان سب پر سختی سے عمل ہونا چاہیے لیکن ہر دین، ہر مذہب اور دنیا کے ہر آئین و قانون میں مختلف صورت حال کے پیش نظر نہ صرف انسانوں کے بنائے ہوئے اصول و قوانین میں لچک پیدا کردی جاتی ہے بلکہ خود اللہ کے بنائے ہوئے قوانین میں بھی بدلتی صورت حال کے مطابق بہت رعایات رکھی ہوئی ہیں۔ وضو ضروری ہے، مگر تیمم بھی کیا جاسکتا ہے، چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لیکن تنگ دستی اور قحط کی صورت میں قانون نرمی برتنے کا حکم دیتا ہے، مردار کھانا حرام ہے لیکن زندہ رہنے کیلیے ایسا کرنا پڑجائے تو اس کا کوئی حساب نہیں۔ جب اللہ کے قانون میں لچک ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وقت اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر ہم اپنے اصول و ضوابط پتھر پر کندہ کی ہوئی تحریر بن جائیں اور اس حد تک آگے بڑھ جائیں کہ ہمارے نزدیک انسان کی جان کی کوئی اہمیت ہی نہ رہے۔

اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ بہت ہی اچھا کیا ہے، لیکن کیا وہ پاکستان میں کسی بھی واقعے کی تحقیقات کا سلیس اردو میں مطلب بتا سکتے ہیں۔ کیا وہ بتائیں گے کہ لیاقت علی خان سے لے کر بینظیر کی شہادت تک کی تحقیقات کو سلیس اردو میں کیا کہا جاتا ہے۔ 12 اکتوبر، حکیم محمد سعید، صلاح الدین اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن تا ماڈل ٹاؤن لاہور کی تمام تحقیقات کے آسان اردو میں کیا معنیٰ ہوتے ہیں؟۔ اگر وزیر اعلیٰ کو اردو نہیں آتی تو ان کیلیے اتنا عرض ہے کہ جس واقعے کے مجرموں کو ان کے انجام تک نہیں پہنچانا ہوتا اسے “تحقیقات” کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ویسے بائی دا وے، اس واقعے کی تحقیقات وہی عطار کے لونڈے کریں گے جن کے علاج سے “میر” بیمار ہوگئے تھے یا معالج کا انتخاب متاثرین کی صواب دید پر ہوگا؟۔

پاکستان نے اپنی جانب سے اور پاکستان کے تمام اداروں اور عوام کی جانب سے شاید یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ اب اپنے اپنے زخموں کا علاج کسی بھی “لونڈے” سے نہیں کرایا جائے گا بلکہ جو کچھ بھی کرنا ہے از خود کرنا ہو گا۔ حکومتِ وقت کے تخت شاہی پر متمکن افراد ہوں، مقتدرہ ہو، انتظامیہ ہو، مقننہ ہو، قانون نافذ کرنے والے محکمہ جات ہوں یا عوام، یہ سب کے سب فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ بزعم خود ایک پورا پاکستان ہیں اور وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق جو چاہیں گے سو کریں گے اور ہر پاکستانی نے اپنے ہی پاکستانی سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

یہ صورت حال بہت ہی خطرناک ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی ادارہ ہو، مذہبی گروہ یا سیاسی پارٹیاں ہوں، سب کو اپنی اپنی حدود میں رہنا ہوگا ورنہ حالات ہر آنے والے دن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے واقعے کی تحقیقات کا حکم تو دے دیا ہے لیکن اب اس حکم میں اخلاص کتنا ہے، اس کا علم آنے والے چند ہفتوں کے اندر ہو جائے گا۔ ہم تو بس اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ

ترے وعدوں پر کہاں تک مرا دل فریب کھائے

کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

جواب چھوڑ دیں