تھانوں سے دھرنوں تک

معاشرے کے امن و امان کا دارومدار اور عوام الناس کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے اور ریاست کی حدود کے اندر امن و امان کو برقرار رکھنے کی اولین ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے۔ مگر پولیس اور تھانے جو امان کی پناہ گاہ  ہیں اُن کا نام سن کر لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ مجھے یہ بات ہمیشہ سے پریشان کرتی آئی ہے کہ امان کی جگہ کو پریشانی کا نام کیوں دیا جاتا ہے۔مگر تاحال مجھے کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا جو ستائے ہوئے امان کے مکین تھے۔ تھانے کچہریوں کے چکر کسی کے نصیب میں آجائیں تو اُسے دنیا کا بدنصیب انسان جانا جاتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ پولیس کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے محتاط ہوتی ہے کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے مگر ان لوگوں کا مقدمہ کون درج کرے جن سے ظلم کے ساتھ پیسے ہتھیا لیے جاتے ہیں کہیں پیسے لے کر مقدمات کو دبا دیا جاتا ہے اور کہیں پیسے لے کر مقدمات کو رفع دفع کر دیا جاتا ہے اب حضرت عمر فاروقؓ کے دور کی سخاوت کہاں سے لائیں جو غریبوں کی داد رسی کریں جو مظلوموں کے چہروں سے چھلکتی ، ماؤں بہنوں کی سسکتی آہوں کو سن کرانصاف دلانے کی کوشش کریں۔ اور امن و امان کے رکھوالے فرسٹ ایڈ بھی نہ کریں موقع واردات پر کسی مظلوم کی آہ سن کر کسی کا گمشدہ بچہ بھی تلاش نہ کریں ، حتیٰ کہ اگر منظر سے کوئی بندہ غائب ہو جائے اور ابتدائی رپورٹ بھی درج نہ ہو تو پھر امن وامان کا ذمہ دار کون۔ غریبوں کا ملک کون سا ہو، کیا اس ملک میں غریبوں کا سربراہ کوئی نہیں، کیا یہ ریاست صرف امراء کی ریاست ہے، کیا ظلم کو ہمیشہ پیسوں کے ترازو میں تول کر دبایا جاتا رہے گا۔ کون آئے گا جو غریب کی آہ سنے گا، کون ہو گا جو غریب کو انصاف دلائے گا۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جرم کی شرح کو کم کیا جائے ۔جرم کیا ہے ؟ اس کی آگہی دی جائے تاکہ جرائم کی شرح کم ہو۔مگر جرم کب جنم لیتا ہے؟ جب سرمایہ دارانہ نظام ملک کی بنیادوں میں بیٹھ جاتا ہے اور غریبی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ غریبی بذاتِ خود ایک جرم ہے ۔تعلیم و تربیت کی کمی بھی نوجوان نسلوں میں جرائم کی شرح کو بڑھاتی ہے مگر جس ملک میں پیٹ بھرنے کے لیے روٹی نہ ہو وہاں تعلیم و تربیت کا فقدان تو فطری طور پر ہو گا کیونکہ تعلیم مفت کردینے سے تربیت عام نہیں ہو جاتی جب تک ریاست عوام الناس کو بنیادی ضروریات (روٹی ، کپڑا،مکان ،علاج و معالجہ  وغیرہ) سے آراستہ نہ کرے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو کم عمری میں مزدوری پر لگا دیتے ہیں اور تعلیم مفت ہونے کے باوجود بچوں کو سکول نہیں بھیجتے تو اس کے ذمہ دار بھی والدین نہیں بلکہ ریاست ہے کیونکہ جس گھر میں غربت ہو، روٹی نہ ہو ،مکان کرایے کا ہو اور مریض علاج و معالجہ کے لیے سسک رہے ہوں وہاں مجبور والدین گھر کا خرچ پورا کرنے کے لیے بچے کو اسکول بھیجنے کی بجائے چند روپے کمانے پر لگا دیتے ہیں تا کہ ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ آپ خود سوچیں کہ اعلیٰ تعلیم صرف وہی بچے حاصل کرتے ہیں جن کے گھر کے حالات آسودہ ہوتے ہیں، جن کو ذہنی سکون میسر ہوتا ہے۔ جن کے دماغ کو غریبی کا کیڑا نہیں کھاتا وہی تربیت کا بھی ارفع مقام حاصل کرتے ہیں کیونکہ غریبی کفر بھی ہے ۔ جرائم کی پیداوار ہمارا سرمایہ دارانہ نظام اور ہمارے رویے ہیں۔ بغاوت کے رجحانات منفی رویوں سے جنم لیتے ہیں اور جب کوئی جرم ہو جاتا ہے تو امن و امان کے رکھوالے مظلوم کی داد رسی کرنے کی بجائے حیلوں بہانوں سے کام لیں تو بھی لوگوں میں بغاوت کے رجحانات جنم لیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک میں امن و امان کے رکھوالے امن کی صورتحال کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ غریبوں کا گلا امراء کے پیسوں سے کاٹا جا رہا ہے۔ جس طرح معاشرے میں غربت سرمایہ داروں کی پیداوار ہے اسی طرح غریب کا انصاف بھی امراء نے پیسوں سے خرید رکھا ہے۔ مگر انصاف سے کام نہ لینے والے یہ بھو ل جاتے ہیں کہ جب بغاوت کے رجحانات بڑھ جائیں تو بغاوت جرائم پر غالب آ جاتی ہے اور مظلوم کی آوازیں یکجا ہو کر وہ چیخیں پیدا کرتی ہیں جو لوگوں کو دھرنوں کی صورت سڑکوں پر لے آتی ہیں پھر جس کو امن و امان کے رکھوالے بھی قابو کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں