وزیرِسائنس کی نئی سائنس 

پاکستان تحریک انصاف کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں فرمایا ہے کہ حکومت اگر بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنا شروع کر دے گی تو ملکی معیشت بیٹھ جائے گی ،عوام حکومت  کی طرف نوکریوں کے لئے نہیں دیکھے ۔ایک حد تک تو ان کی بات بالکل درست ہے کیونکہ کسی بھی ملک میں روزگار کے حصول کے لیے دو ادارے کام کر ہے ہوتے ہیں ،ایک سرکاری ادارے اور دوسرا نجی ادارے، اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو چلیں مان لیتے ہیں کہ ملکی سرکاری ادارے پہلے سے ہی تباہ شدہ حالت میں اس حکومت کو وراثت میں ملے تھے۔ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل مل کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ ان دو میں سے اگر ہم سٹیل مل کی ہی بات کریں تو یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ ہے جو 19000 ایکڑ رقبے  پر مشتمل ہے،لیکن یہ ادارہ پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کی من مانیوں کی نذر ہونے کے باعث 2015 سے بند پڑ اہے۔بندش کی وجہ سے ہرسال حکومت پاکستان کو اٹھارہ ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے جو بلاشبہ پاکستان کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔قریبا دس ہزار ملازمین حکومت پاکستان کی توجہ کے منتظر ہیں کہ کب اس طرف سے بلا وا آتا ہے کہ سٹیل مل نے پھر سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔پانچ ہزار کے قریب ریٹائرڈ ملازمین اپنی پینشن سے محروم کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے،سابق حکومتوں کی طرح حالیہ حکومت بھی ابھی کوئی واضح پلان مرتب نہیں کر پائی کہ کیا پاکستان اسٹیل کی نجکاری کر دی جائے یا پھر بیل آؤٹ پیکچ سے اس کو بحال کیا جائے۔میری رائے میں جو حکومت پاکستان نے پچاس لاکھ گھر بنانے کاپلان بنا رکھا ہے اگر اس 19000 ایکٹر کو فروخت کر دیا جائے یا پلاٹنگ اور رہائشی پراجیکٹ شروع کر کے اس علاقہ سے مستقل آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔اگر حکومت ایک سال میں اس مل کے للیے کوئی واضح پروگرام مرتب نہیں کر پائی تو بقیہ اداروں کا بھی اللہ ہی حافظ ہوگا۔

معیشت کی بحالی اورمضبوطی کا دوسرا پلان طویل المدتی ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک دن کا کام نہیں ہے۔نجی اداروں کو سہولیات کی کشش سے ہی مضبوط کیا جا سکتا ہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ روزگار مل سکے گا۔گویا نجی اداروں میں روزگار کی فراہمی کے  لیے ملکی معیشت کو بحال اور مضبوط بنانا ہوگا اور سب سے زیادہ روزگار کے مواقع بھی پرائیویٹ اداروں میں ہی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔اگرچہ فواد چوہدری کے کہنے کا مقصد بھی یہی تھا لیکن انہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا جب اس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت پہلے ہی مہنگائی اور مس مینجمنٹ کی وجہ سے اپنا گراف نیچے کی طرف لے کے جا رہی ہے۔ ایسے میں ایک ایسا بیان جاری کر دینا جس سے پاکستانی عوام میں مایوسی کی فضا پیدا ہو ،خاص کر نوجوان نسل میں،کسی طور تحریک انصاف کے حق میں نہیں جا سکتی۔

ایک اور بات بھی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذہن میں ہونی چاہئے تھی کہ خود عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر اعدادوشمار کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ ملک میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد کتنی ہے اور پھر جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ ایک کروڑ نوکریاں پیدا کر کے نوجوانوں کو بیروزگار نہیں رہنے دیں گے۔اب جب وعدہ وفائی کا وقت آیا ہے تو وزیر موصوف فرما رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے اگر ایسا ہوا تو ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو جائے گی۔کیا اس بیان کے بعد نوجوانوں میں مایوسی نہیں پھیلے گی، کیا اس کے بعد عوام کا تحریک انصاف سے اعتماد نہیں اٹھ جائے گا، کیا اس بیان کے بعد تحریک انصاف اپنے حامیوں سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھے گی؟

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں