غلام ابن غلام

    ماضی میں جب انسانی عقل وچالا کی اس قدر ترقی یافتہ نہ تھی تب قوم،قبیلہ یاافراد کو غلام بنانے کا طریقہ فقط جنگ اورطاقت کااستعمال تھا۔ ماضی قدیم میں غلاموں کی خریدوفروخت بھی کی جاتی رہی ۔  وقت گزرنے کے ساتھ شاطر عقل وچالا کی ترقی کرتی رہی اورغلام بنانے کے طریقے بھی بدلتے رہے۔بذریعہ طاقت غلام بنائے جانے والے اپنے آقا یعنی قابض سے نفرت کے جذبات رکھاکرتے تھے۔اس طریقہ کار میں اخراجات بہت زیادہ آتے تھے اورپھر ہر وقت غلاموں کی جانب سے بغاوت کاخطرہ بھی موجود رہتا تھا۔قوم کوغلام بنانے کاایک طریقہ مذہب بھی ہے پرمیں اس طریقہ پربات نہیں کرناچاہتا۔

دورحاضرمیں قوم کوغلام بنانے کا کامیاب ترین طریقہ وسائل پرقبضہ کر کے قوم کوروزی روٹی ،صحت وتعلیم کے چکرمیں اس قدرمصروف کر دینا یا پھنسا دینا کہ وہ اس چکرسے باہرنکلنا تو دور ایساسوچنے کے بھی قابل نہ رہے۔

آمدن سے زیادہ ٹیکس عائد کر کے مزید الجھادیا جاتا ہے۔سیاسی،سماجی،مسلکی گروہوں میں تقسیم کر کے میڈیا خاص طور پر الیکٹرونکس میڈیا اورسوشل میڈیاکے ذریعے قوم کو ہانکا جاتا ہے۔یہ دورحاضرکے وہ طلسمی طریقے ہیں جن میں غلام غلامی بھی محسوس نہیں کرتے اور بغاوت کاسوال بھی پیدانہیں ہوتا ۔ بظاہر کوئی زبردستی بھی محسوس نہیں ہوتی۔جمہوریت وہ حسین غلامی ہے جوقوم کو با اختیار ہونے  کا یقین دلا کرالیکشن کے پردے میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں سلیکشن کرتی ہے ۔ غلاموں کے حصے میں آتے ہیں

کرپشن،رشوت،سفارش،مہنگائی،ناانصافی،بیروزگاری جیسے عظیم کھلونے

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

شادعظیم آبادی

غریب کوہمیشہ سنہرے مستقبل کے سہانے خواب دیکھا کرجسے عام زبان میں خیالی پلاؤ یا سبز باغ دیکھانابھی کہا جاتا ہے ، بہلایاجاتاہے۔تاریخ شاہد ہے کہ عام عوام غیروں سے آزادہوئے تو انہیں اپنوں نے قیدکرلیا۔بالآخر رہے غلام کے غلام یعنی غلام ابن غلام۔آقا میاں نوازشریف ہو، بینظیربھٹو، پرویزمشرف ہو، آصف زرداری ہو یا عمران خان نیازی،  غلاموں کوکیا فرق پڑتا ہے ، غلام تو غلام ہی رہیں گے ۔ پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میں بھی غریب عوام بے بس ولاچار ہیں۔بے لگام مہنگائی ۔ تیز رفتار بیروزگاری ۔چھم چھم برستی کرپشن ۔نا انصافی کے سیلاب بلکہ طوفان  میں گھرے ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جسے بہلانے کے لیے  کھلونے بھی نہیں دیے جاتے ، ہم فقط وعدوں اوردعوؤں کے عوض بک جاتے ہیں۔صدیاں گزرگئیں ہمیں تمناؤں میں الجھایا جاتاہے پرکھلونے نہیں دیے جاتے اورہم بھی اپنی حالت بدلنے کے لیے  جدوجہدکرنے کی بجائے مزیدنڈھال ہوتے جاتے ہیں۔آج کاسوال یہ ہے کہ بڑھتی بیروزگاری کے ہاتھوں ستائے عوام کولنگرخانوں کے بہانے بہلایا جاسکتا ہے؟ زکواۃ وصدقات پرچلنے والے لنگر خانوں سے مفت کھانا کھانے کے لیے بھی ضمیراورخوداری کی موت لازم ہے جب کہ کسی کارخانے میں مزدوری کر کے عزت کی روزی کمانے میں خوداری اورفخرمحسوس ہوتاہے۔انتخابی منشور کا اعلان کرتے وقت کپتان نے کہاتھا کہ پاکستان میں اکثریت غریب ہو رہی ہے جب کہ ایک چھوٹا سا طبقہ امیر ہے۔ہم ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں۔سول سروس میں سیاسی مداخلت نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ہم کمزور اداروں کو مضبوط کریں گے۔  ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے، پچھلے دس سال میں قرضے 27ہزار ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ آئندہ حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ ہم حکومت میں آ کر ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر فراہم کریں گے۔یہ سچ ہے کہ حکومت کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے پر ڈالر کی قیمت میں تیز ترین اضافہ ۔ ایک کروڑنوکریوں ۔ پچاس لاکھ گھروں کی طرف سفرشروع کرنے کی بجائے چلتے کارخانے بندہورہے ہیں،مہنگائی کی بدولت کاروبارٹھپ ہو رہے ہیں۔مصنوعی مہنگائی کے ذمہ دارسرمایہ دار طبقے کونکیل ڈالنے کی بجائے سہولیات فراہم کی جارہی ہیں توعوام کیاسمجھیں ، پی ٹی آئی کی حکومت اپنے منشورپرعمل کب شروع کرے گی؟ جناب وزیراعظم عمران خان ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر جب چاہیں فراہم کریں پرتب تک غریب کے زندہ رہنے کے لیے سازگارماحول بنانے کی کوشش کریں ـ

گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے اشتراک سے شروع ہونے والے لنگر خانے کاافتتاح کیااورکہا کہ پہلے مرحلے میں 112 لنگر خانے کھولے جائیں گے۔مزید لنگرخانے کب کہاں اور کتنے مرحلوں میں کھولے جائیں گے یہ بات ابھی رازہی ہے ۔سابقہ ادوار میں بحریہ فاؤنڈیشن کے تعاون سے بحریہ دستر خوان تو کبھی سستی روٹی پروگرام شروع کیا گیا ۔اس طرح کے تمام  منصوبے قوم کے اربوں روپے ہڑپ کرنے کے باوجود بری طرح ناکام ہوئے ۔ خود وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست  بنانا چاہتا ہوں جس میں مملکت کا کوئی غریب، نادار اور ضرورت مند بھوکا نہ سوئے اور اسے سرکاری خرچ پر علاج معالجے اور تعلیم سمیت زندگی کی تمام لازمی بنیادی سہولتیں میسر ہوں۔ وزیراعظم کی سوچ کوسلام پیش کرنے کے بعد عرض ہے کہ جب تک حکومت پورے ملک کے غریب، نادار افراد کے  لیے مفت کھانے کاانتظام نہیں کرتی۔جب تک معیاری صحت وتعلیم سمیت تمام بنیادی ضرویات مفت فراہم کرنے کے قابل نہیں ہوتی تب تک مہنگائی کولگام ڈالی جائے۔بیروزگاری کوبڑھنے سے روکاجائے۔مصنوعی مہنگائی کوکنٹرول کیاجائے توسمجھ آئے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے خیالات اوربیانات کوعملی جامہ پہنانے میں کس قدرسنجیدہ ہیں۔بقول کپتان ملک میں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر ہے ۔حکومت میں آ کر اس چھوٹے امیر طبقے کونکیل ڈالنے کی بجائے کپتان بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح اسی چھوٹے امیر طبقے کی گرفت میں معلوم ہوتے ہیں ۔غریب عوام پرانے پاکستان میں بھی غلاموں کی طرح زندگی بسرکررہے تھے اورنئے پاکستان میں بھی کسی تبدیلی کے امکانات نظرنہیں آتے ۔

یعنی ہم رہے غلام ابن غلام

 

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں