ہمیں بھی زندگی ایک ہی بار ملی ہے!

 پہلے یہ جان لیجئے کہ صحافت نکلی ہے صحیفے سے اور صحیفہ کہتے ان الہامی صفحات کو جو چار الہامی کتابوں کے علاوہ ہیں ۔  اللہ رب العزت نے مختلف انبیاء علیہ السلام پر جو اوراق نازل کیے وہ صحیفے کہلاتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل ، ایک جگہ پڑھا تھا کہ آنے والے وقتوں میں (یعنی دور حاضر میں) پرخطر پیشوں میں صحافت اور وکالت شامل ہونگے ، اس وقت یہ سوچ ذہن میں آئی تھی کہ ایسا بھلا کیوں ہوسکتا ہے، عوام کی قلم سے اور قانون سے خدمت کرنے والے کیوں خطروں کا شکار ہوں گے ؟ خیر وقت آج وہاں پہنچ چکا ہے جس وقت کے لیے ایسا کہا گیا تھا ، آج جو کچھ پڑھا تھا صحیح ثابت ہوچکا ہے۔  نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہی صحافت کے پیشے سے وابسطہ لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ خصوصی طور پر ان لوگوں کی جو حق اور سچ کی ترویج کواپنا شعار بنائے ہوئے ہیں، جو تحقیق کی حد تک جانے کے خواہیں ۔  بدقسمتی سے ان حالات کی خرابی کی وجہ بھی اہل قلم ہی ہیں ، جو قلم کو فروخت کرنے والے بنے ہوئے ہیں،  جو اپنے قلم کا استعمال اس میں سیاہی ڈلوانے والوں کے لیے  کرتے رہے ہیں ۔ اس مضمون کے لکھنے کی بنیادی وجہ ہمارے پاکستان گروپ آف جرنلسٹ سندھ کے صدر سینئر صحافی فاروق بابو بھائی کی گزشتہ دنوں ہونے والی گرفتاری ہے ۔ تواتر سے پاکستان گروپ آف جرنلسٹ کے سیکریٹری جنرل جناب مہر عبدالمتین صاحب کی جانب سے سماجی اور پرنٹ میڈیا میں کی جانے والی پیروی اور ان کے ساتھ تمام جانب سے موصول ہونے والے پیغامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کوئی ہے جو صحافیوں کو بے یارومددگار چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔ نا تو یہ کوئی پہلی گرفتاری ہے اور ناہی حق اور سچ کی آواز کو دبانے کی پہلی کوشش ہے۔

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر روز بدلتے ہوئے منظرنامے میں کچھ نا کچھ بدلاؤ (تبدیلی) کی شنید ملتی چلی جا رہی ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ وفاق میں ہونے والی ہلچل سے قریباً تمام صوبے ہی اضطراب کی کیفیت کا شکارہیں، ایوانوں میں کرسیاں ہلتی ہوئی محسوس کی جارہی ہیں گویہ انتظامی زلزلہ آنے والا ہو۔  کراچی کی صفائی کے لیے کیے جانے والے اعلانوں کی ایک فہرست ترتیب پا چکی ہے لیکن بد قسمت شہر روشنیوں سے تو پہلے ہی محروم کیا جا چکا اب اسے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کی حکمت عملیاں زور شور سے دیکھائی دے رہی ہیں۔ گندگی کی بنیادی وجہ پلاسٹک کے تھیلے قرار پائے اور سندھ حکومت نے فیصلہ کیا کہ پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی عائد کر دینی چاہئے جس کے لیے  ایک طے شدہ وقت مہیہ کیا گیا اور اس کے بعد باقاعدہ پابندی لگادی گئی ،اس حوالے سے شہر قائد میں کچھ ملا جلا رجحان دیکھائی دے رہا ہے ، دوکاندار وں کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے ساتھ کپڑے کا تھیلا نہیں لا رہے اور زیادہ سامان خریدنے کی صورت میں ہمارے لیے مشکل ہورہی ہے۔ جب کہ شہریوں کا کہنا ہے کہ کوئی بات نھیں بہت جلد سب کے ہاتھوں میں ، گاڑیوں میں کپڑے کے تھیلے نظر آنے لگیں گے جو کہ ایک خوش آئند تاثر ہے۔ اب آجاتے ہیں ایک ایسے مضر صحت اور گندگی کا بھرپور سبب بننے والی چیز پر جس کا نام گٹکا ہے۔  پان کھانا ایک زمانے میں تہذیب یافتہ گھرانوں کی پہچان سمجھا جاتا تھا اوربطور طنز کہا جاتا تھا کہ دیکھو پان کھانے کی تمیز نہیں ہے۔ آج بھی کراچی ، حیدرآباد اور لاہور میں ایسی ایسی پان کی دکانیں ہیں کہ شاہی دور یاد آجاتا ہے ۔ پھر شاید پان اور اس کے لوازمات مہنگے ہوتے چلے گئے اور عام آدمی کی استطاعت سے دور ہوتے چلے گئے۔ بقول غالب کے منہ کو لگی کافر چھوٹتی ہی نہیں، اس طرح پان کے نعمل بدل کے طور پر گٹکا متعارف کرایا گیا، گمان کر سکتے ہیں کہ اوائل میں گٹکے میں شامل کی جانے والی چیزیں اچھی رہی ہونگی لیکن وقت کیساتھ ساتھ جب یہ ایک بھرپور منافع بخش کاروبار بن گیا تو باقی آپ خوب جانتے ہیں۔لیکن حال اور مستقبل کو بدترین نقصان پہنچانے والی اشیاء میں یہ گٹکا نامی چیز بھی ہمارے ہمسائے دشمن کا اہم ترین آلہ کار ثابت ہوا ہے جس نے سب سے زیادہ نقصان نوجوان نسل کو پہنچایا ہے، قارئین متفق ہونگے کہ یہ گٹکا ہمارے لئے کلبھوشن یادیو سے کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔

یوں تو پورا ملک ہی عرصہ دراز سے خوف میں مبتلا ء ہے،کبھی دہشت گردی تھی ، کبھی دھماکے تھے اور کبھی اغواء برائے تاوان ۔  یہ خوف مختلف شکلوں میں مختلف قدر کے لوگوں کے لیے مختلف رہا ہے ۔ دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور قریباً دھماکے بھی اس دہشت گردی سے ہی منسلک تھے۔  ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ستائش کہ مستحق ہیں کہ بے دریغ اپنی جانوں کا نظرانہ دے کر عوام کو اس دہشت گردی سے نجات دلائی ۔  یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ لوگوں کے لاپتہ ہوجانے کا معاملہ پاکستان کی عالی عدلیہ میں بھی چل رہا ہے کبھی یہ معاملہ بہت زور پکڑ لیتا ہے اور کبھی ایسے غائب ہوجاتا ہے کہ جیسے سب لاپتہ افراد خاموشی سے اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔ یہ خوف کراچی میں کچھ زیادہ ہے۔

داخلی اور خارجی امور سے آگاہی فراہم کرنے والے اور ان کی تہہ میں جانے والوں کو صحافی کہا جاتا ہے یہ صحافی ہی ہوتے ہیں جو ہمیں بروقت اطلاع دیتے ہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے اور کیا کچھ ہوسکتا ہے ، جدید صحافت میں حالات سے نمٹنے کی تدبیر سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے ۔ لیکن سوائے افسوس کرنے کے اور ہمارے پاس کچھ بچتا نہیں کہ اتنا اہم کام کرنے والوں کو نا تو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور نا ہی کسی قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ جب کہ یہ صحافی جنگی نوعیت کے حالات میں بھی ہر اول دستے کی طرح اپنے فرائض (عوام و خواص کو صورتحال سے آگاہ رکھنا) احسن طریقے سے نبہاتے دیکھائی دیتے ہیں اور اپنی قیمتی جانوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہر حکومت دعوا کرتی سنائی دیتے ہیں کہ ہم مواصلات و صحافت کے اداروں کو مستحکم کرنے کی اور انہیں بھرپور تحفظ فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے۔ لیکن آج اکیسویں صدی میں جب انسان عقل و شعور کی حدوں کو چھو رہا ہے یہ صحافی بد ترین حالات سے دوچار ہیں ، پاکستان جیسے ممالک تو پھر بھی تیسری دنیا کے ممالک میں شمار ہوتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اثر رسوخ رکھنے والے افراد صحافت کو بطور کاروبار دیکھتے ہیں اور اپنی مرضی کی صحافت کے متمنی دیکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں صحافتی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ ارباب اختیارکیساتھ مل کر صحافیوں کی گرفتاری کے عمل کیلئے خصوصی ضابطہ اخلاق مرتب کریں اور آئین میں خصوصی ترمیم کیلئے ناصرف گزارشات پیش کریں بلکہ وزارت مواصلات کے ساتھ مل کر اپنے جان و مال و عزت کی بقاء کے لیے عملی طور پر پیش قدمی کریں۔  اس میں اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ کسی بھی صحافی کو گرفتار کرنے سے قبل صحافتی تنظیم کے لوگوں سے ہی اس کی تحقیقات کروائی جائیں تاکہ اپنے پیشے کی عزت و توقیر برقرار رکھنے کے لیے یہ کام ناصرف احسن طریقے سے سرانجام دیا جائے بلکہ کسی قسم کی بدعنوانی کی بھی گنجائش نا چھوڑی جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ صحافیوں کے پیشے کوخاطر میں رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔بغیر افہام و تفہیم کی فضاء قائم کئے کسی بھی قسم کا امن قائم نہیں کیا جاسکتا ۔

پاکستان گروپ آف جرنلسٹ کے ذمہ داران خصوصی طور پر صحافیوں کے لیے آگے بڑھ کر اپنی خدمات انجام دینے والے مرکزی سیکریٹری جنرل مہر عبدالمتین صاحب ارباب اختیار تک درو دراز علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے مسائل کو بھرپور اجاگر کر رہے ہیں اور ان سے جا کر مل بھی رہے ہیں۔قریباً پوری صحافی برادری کا مہر عبدالمتین صاحب پر بھرپور اعتماد ہے کہ وہ پاکستان گروپ آف جرنلسٹ کو پاکستان کے صحافیوں کی نمائندہ جماعت بنائینگے اور ان کے جائز حقوق دلوانے میں اپنا قلیدی کردار ادا کرینگے۔ آخیر میں ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ کراچی کے سینئر صحافی فاروق بابو بھائی کی رہائی اور ان پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی تحقیقات کے لیے جلد از جلد عملی اقدامات کیے  جائیں۔ جیساکہ مضمون کا عنوان ہے کہ ہمیں بھی زندگی ایک ہی بار ملی ہے اور ہم لکھنے والوں کی زندگی بھی آپ سب کی طرح ہی ہے، ہم بھی کسی خاندان کا حصہ ہیں اور ہم سے بھی ہمارے اہل خانہ کی امیدیں ہیں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں