“کبھی الوداع نہ کہنا”

            “یا اللہ باقر صاحب کہا ں چلے گیے،  ایک تو جمعہ کے روز اسکول سے بچے بھی جلدی آجاتے ہیں ، جلدی جلدی کھانا تیار کرنا، صفائی ستھرائی ، نماز کے کپڑے استری کرنا سبھی کام روزمرہ کی نسبت جلدی ختم کرنے ہوتے ہیں ، مگر باقر صاحب کو سودا لینے گیے قریباً دو گھنٹے ہونے کو آئے مگر وہ اب تک نہیں لوٹے ہیں “

            روبینہ پریشانی کے عالم میں گھر کے گیٹ سے باہر جھانکتی تو کبھی بے چینی سے صحن میں ٹہلنے لگتی۔ اسی اثناء میں گھنٹی کی آواز آئی ، روبینہ نے دوڑ کر دروازہ کھولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سامنے  باقر صاحب کھڑے تھے اور ہاتھ بھی خالی تھے یعنی سودا بھی نہ لائے تھے۔

            “ارے بھئی آپ کہاں چلے گئے تھے؟ میں کب سے پریشان ہو رہی ہوں ، بچوں کے اسکول سے آنے کا وقت ہوگیا ہے ، کیا ہوا؟  خیریت ہے ؟  سودا کیوں نہیں لائے ؟  اب میں کیا پکاؤں گی ؟

ایک ہی سانس میں روبینہ نے ڈھیروں سوالات کر ڈالے ۔ باقر صاحب نے انہیں کوئی جواب نہ دیا اور اندر لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے۔ اب روبینہ کو بھی فکر لاحق ہوئی کیونکہ اس نے کبھی بھی باقر صاحب کو اتنا سنجیدہ اور پریشان نہ دیکھا تھا ۔ روبینہ نے جلدی سے پانی کا ٹھنڈا گلاس لا کر انہیں دیا ۔ پانی پینے کے بعد باقر صاحب نے روبینہ کو جوبات بتائی اسے سن کر روبینہ بھی اداس ہوگئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔

            پچھلی گلی میں رہائش پذیر باقر صاحب کی مرحوم والدہ کی سب سے عزیز سہیلی “انوری خالہ”  کا انتقال ہو گیا۔ انوری خالہ طویل عرصے سے تنہاء زندگی گزار رہی تھیں ۔ ان کا اکلوتا بیٹا ساجد آسٹریلیا میں تابنا ک مستقبل کی تلاش میں جو گیا تو پھر واپس لوٹ کر نہ آیا ۔ بس ماہانہ معقول رقم ” ماں کی خدمت”  کے لیے بھجواتا  رہا ۔ انوری خالہ کے شوہر نظیر صاحب کے انتقال کو بھی چار سال ہوچکے ہیں۔

            ایک عدد ملازمہ ان کی دیکھ بھال کے لیے آتی تھی جو صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک انہی کے ساتھ ہوتی۔ وہی ان کو کھانا بنا کر اور سودا سلف لا کر دیتی اور باقی  تمام کام بھی کرتی تھی۔ زیادہ افسوس کی بات تو یہ تھی کہ آج جب وہ ملازمہ آئی کافی دیر گھنٹیاں بجانے کے باوجود بھی دروازہ نہ کھلا ، تو اس نے پڑوسیوں کو مطلع کیا ۔ پڑوسیوں نے بھی کوشش کی ، دروازے بجائے ، کھڑکیاں بجائیں ، آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہیں آیا ۔ اب سب فکر مند ہوئے کہ کہیں انوری خالہ کو کچھ ہو نہ گیا ہو لہٰذا دروازہ توڑ دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور تب جا کر پتا چلا کہ انوری خالہ کی روح تو کب کی قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی وہ فرش پر گری ہوئی تھیں۔ قریبی کلینک سے فوراً ڈاکٹر صا حب کو بلا یا گیاتو انہوں نے بتایا  کہ  خالہ جی کے انتقال کو دس گھنٹے سے زائد وقت ہوچکا ہے ۔ شدید دل کے دورے کے سبب وہ کب کی فوت ہوچکی تھیں اور یہ کہ اگر انہیں وقت پر طبی امداد مل جاتی تو شاید وہ بچ جاتیں ۔

            باقر صاحب انتہائی رنجیدہ تھے ، ایک تو انسانیت کے ناطے بھی کسی کی ایسی بے بسی کی موت کو دیکھ کر قدرتی طور پر دل دکھتا ہے دوسرا یہ کہ باقر صاحب کی والدہ کی وہ دیرینہ سہیلی تھیں اور باقر صاحب کا بچپن ان کے بیٹے ساجد کے ساتھ ان کے بڑے سے آم کے پیڑ والے صحن میں کھیلتے گزرا تھا ۔ نظیر خالو کے انتقال کے بعد باقر صاحب اور ان کی والدہ نے انوری خالہ کا ہر طرح سے ساتھ دیا ڈا کٹر کے جانا ہوتا یا بینک کے کسی کام سے تو وہ باقر کو ہی بلاتی تھیں ۔ باقر صاحب بھی اپنی والدہ ہی کی طرح ان کی خدمت کرتے تھے ۔ اسی لیے انہیں قلبی لگاؤ کی وجہ سے دوہرا صدمہ تھا ۔ بقول انوری خالہ کے نظیر صاحب تقسیم برصغیر کے وقت اپنے والدین سے بچھڑ گئے تھے اور انہیں کسی نے “یتیم خانے”پہنچا دیا تھا۔ وہ سنجیدہ طبعیت کے مالک تھے اور بچپن ہی سے کافی ذہین تھے ۔ یتیم خانے ہی میں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور امتیازی نمبروں سے بے۔اے پاس کیا اور ریونیو کے دفتر میں کلرک کی ملازمت  اختیار کی۔ ان کی شرافت اور قابلیت دیکھ کر دفتر کی طرف سے انہیں جلد ہی پروموشن مل گئی اور ساتھ ہی انہیں دو کمروں کا مکان بھی الاٹ کر دیا گیا۔ کسی دوست کی وساطت سے انوری خالہ سے ان کا نکاح اور سادگی سے رخصتی ہوئی۔وہ بہت اچھی شریک حیات ثابت ہوئیں اور اپنی سلیقہ مندی سے گھر کو جنت کا نمونہ بنادیا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک عدد پیارے سے بیٹے “ساجد”سے نوازا۔

            محدود آمدنی ہونے کے باوجود انہوں نے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ چھوڑی ۔ شہر کے سب سے بہترین انگلش میڈیم اسکول میں اس کا داخلہ کر وایا۔ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے پارٹ ٹائم جاب بھی شروع کردی ۔ انوری خالہ نے بھی گھر میں سلائی کا کام شروع کرکے ان کا ہاتھ بٹایا ۔

            نظیر صاحب کا بچپن یتیم خانے میں گزرا تھا ۔ جہاں پر انہوں نے اپنی خواہشات کو بنیادی ضروریات تک محدود رکھنا سیکھا تھا ۔ پر اب ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے ساجد کو کسی بھی قسم کی محرومی کا شکار نہ ہونے دیں اور وہ سب کچھ مہیاء کریں جس کے لیے وہ خود ترستے رہے ۔

            ساجد بھی اپنے والد کی طرح ذہین تھا اور ہمیشہ کلاس میں اول نمبر پر ہی رہا اور جب یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو ساجد کی خواہش پر اسے بہترین یونیورسٹی میں داخلہ دلوادیا گیا۔کمیٹی ڈال کر موٹر سائیکل دلوائی کیونکہ جس یونیورسٹی میں ساجد نے داخلہ لیا تھا وہاں زیادہ تعداد امراء اور خوشحال گھرانوں کے بچوں کی تھی اور وہ سب یا تو کار یا پھر موٹر سائیکل پر یونیورسٹی آتے تھے ۔

            یونیورسٹی کی سیمسٹر فیس لگ بھگ نظیر صاحب کی تین ماہ کی تنخواہ کے برابر تھی اور ان کی حیثیت سے بہت بڑھ کر تھی مگر وہ اپنے دھن کے پکے تھے ، کبھی بھی ساجد کو اس مالی مشکل کا احساس نہ ہونے دیا۔ خاموشی سے اپنے دفتر سے قرض  لے کر تمام اخراجات اٹھاتے رہے ۔ مستقل محنت سے اب ان کی صحت بھی خراب رہنے لگی تھی ۔ انوری خالہ نے بھی ہار نہ مانی اور سلائی کرکے اس معاشی پریشانی کا مقابلہ کیا ۔ چار سال اسی تگ و دو میں گزر گئے اور ساجد نے یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری بھی امتیازی نمبروں سے حاصل کرلی ۔

            اسی چار سالہ دور میں نظیر صاحب کتنے قرضے میں جکڑے گئے اور انوری خالہ کی کتنی ہی راتیں سلائی مشین پر کپڑے سیتے گزر گئیں پر انہوں نے جو خواب اپنے بیٹے کے دلکش مستقبل کے لیے سجائے تھے ان کے سامنے ان مصائب اور دشواریوں کی کوئی اہمیت نہ تھی ، وہ اپنے بیٹے کو زندگی کے ہر میدا ن میں آگے ہی بڑھتا دیکھنا چاہتے تھے۔

ساجد کے زیادہ تر کلاس فیلوز ماسٹرز کرنے کے بعد آگے ایم فل اور پی ایچ ڈی وغیرہ کے لیے باہر جا رہے تھے ۔ ساجد نے بھی آسٹریلیا کی یونیورسٹی میں درخواست دی اور خوش قسمتی سے اس کا انتخاب ہو گیا ۔ نظیر صاحب اور انوری خالہ نے بیٹے کی خواہش کو افضل رکھا اور خوشی سے اسے اجازت دے دی ۔ حالانکہ ان کی صحت اب کافی خراب ہوچکی تھی اور عمر کے اس حصے میں اکلوتی اولادکو یوں ہزاروں میل دور پردیس بھیجنے کو ان کا دل تو نہ چاہتا تھا ، پر وہ اپنے بیٹے کے تابناک مستقبل میں کوئی رخنہ بھی نہیں ڈالنا چاہتے تھے ۔ مسئلہ صرفٖ مالی اخرا جات کا تھا ۔ آسٹریلیا جانے اور داخلے کے لیے بہت بڑی رقم کی ضرورت تھی ۔ بہت سوچنے کے بعد بالآخر نظیر صاحب نے اس مسئلے کے حل کے لیے  اپنے دفتر میں ریٹائر منٹ کی درخواست دے دی ، تاکہ وہ اپنے بیناولنٹ فنڈ سے ساجد کی اس خواہش کو بھی پورا کردیں۔

            جلد ہی ان کی درخواست منظور ہوگئی ۔ ساجد نے ہمیشہ اپنی ہر خواہش کو پورا ہوتے دیکھا تھا ۔ وہ بے انتہاء خوش تھا کہ جلد ہی وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بہترین ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزارے گا۔ اس نے ایک دن بھی ضائع کیے بغیر تمام ضروری کاغذات مکمل کیے اور ٹکٹ لے کر آسٹریلیا چلا گیا ۔ دن مہینے اور سال یونہی گزرتے گئے ساجد نے پڑھائی کے ساتھ نوکری بھی شروع کردی اور والدین کو اچھی خاصی معقول رقم بھی بجھوانے لگا۔ پر اس رقم سے ان دونوں کی زندگی میں نہ ختم ہونے والا خالی پن اور اداسی کو تو وہ دور نہ کرسکتا تھا ، جو کہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔

            ایک بار جو ساجد گیا وہ لوٹ کر پاکستان آنے کے لیے وقت نہ نکال پایا ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کے فوراً بعد اسے شاندار نوکری مل گئی اور اس نے وہیں پر کسی مسلمان گھرانے کی لڑکی سے شادی کرلی ۔ ماں باپ “اسکائپ”  پر اپنے بیٹے بہو کو دیکھ کر ہی دل بہلاتے تھے اور دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد تو “اسکائپ”  پر بھی ساجد اور اس کی بیوی کو کئی دن بعد ہی موقع ملتا تھا بات کرنے کا ۔

            ساجد بڑی پوسٹ پر تھا وہ اگر کوشش کرتا تو شاید والدین کو وہاں بلوا سکتا تھا ۔ مگر نجانے باہر کے ملکوں میں جانے والوں کے گھر چھوٹے ہوتے ہیں یا دل ، والدین کو اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے انہیں دور دور ہی سے بہلاتے ہیں اور بڑی بڑی رقمیں بھیج کر اپنی دانست میں والدین کا حق ادا کر دیتے ہیں ۔

            تنہائی اور خالی پن سے لڑتے لڑتے آخر کار ایک دن “نظیر صاحب ” اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ مگر ساجد ان کی میت کو کاندھا دینے نہ آسکا کیونکہ اہم اکانفرنس میں شرکت کے لیے وہ امریکہ میں مصروف تھا ۔ آج ان کے انتقال کے تقریباً چار سال بعد بالآ خر انوری خالہ بھی اپنی دائمی منزل کی طرف روانہ ہو گئیں ۔ کس قدر دکھ کی بات ہے جو والدین اپنی اولاد کے مستقبل کی خاطر تمام خوشیاں تمام راحتیں قربان کر دیتے ہیں انہی والدین کے لیے اولاد کے پاس فرصت کے چند لمحات نہیں ہوتے ۔ دنیا کی کامیابیاں ہی ان کی زندگی کا مقصد و محور بن جاتی ہیں  اور کامیابی کے آسمان کو چھونے کے لیے وہ بوڑھی راہ تکتی نگاہوں کو فراموش کردیتے ہیں ۔

            باقر صاحب خیالوں کے گہرے بھنور میں کھوئے ہوئے تھے ۔ اتنے میں مسجدمیں انوری خالہ کی نماز جنازہ کا اعلان ہوا اور باقر صاحب دکھی دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ مسجد کی جانب چل دیے۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں