تحفظ کا احساس میرا حجاب

حجاب۔۔حجاب امت مسلمہ کا شعار جو مسلم خواتین کو فخر عطا کرتا ہے۔۔۔۔جب عورت اپنا پردہ اتار پھینکتی ہے تو اس سپاہی کی مانند ہو جاتی ہے جو میدان جنگ میں اپنی زرہ اتار پھینکے۔۔۔

”تحفظ کا احساس ہے میرا حجاب“ کے عنوان سے جماعت اسلامی حلقہ خواتین ضلع ناظم آباد وسطی کے شعبہ نشرواشاعت کے تحت ایک پروگرام ترتیب دیا گیا ۔

یہ ۲۰ ستمبر کی ایک گرم شام تھی لیکن لوگوں کی آمد دیدنی تھی، حاضری بھی بھرپور تھی ، ہر عمر کی خواتین نے اس پروگرام میں شرکت کی اور حجاب سے مضبوط تعلق کا ثبوت دیا ۔ لوگوں کی آمد کے ساتھ ہی پروگرام کا آغاز کردیا گیا ۔ پروگرام کی ابتدا تلاوت قرآن پاک سے ہوئی ۔ ام ہانی صاحبہ نے سورۃ نور سے حجاب سے متعلق آیات کی تلاوت کی۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد انہی آیات کا ترجمہ پیش کیا ۔حمد باری تعالی عبیرہ عامر اور نعت رسول مقبول یسری عامر نے پیش کی۔حجاب کے عنوان سے تحریریں اور شاعری بھی شامل پروگرام تھیں۔ شہلا خضر نے اپنی تحریر ”حجاب میں تحفظ ہے“ حاضرین کے سامنے پڑھی ۔”ہم بیٹیاں ہم بیٹیاں “کے عنوان سےحجاب پر ترانہ تحریم طہہ کی طرف سے پیش کیا گیا۔ پروگرام کی معلن نائلہ صدیقی وقت کو بڑی خوبصورتی سے سنبھالتے ہوئے پروگرام کو آگے بڑھاتی رہیں ۔

اگلا سیشن مذاکرے کا تھا، مذاکرےکو کنڈکٹ کروانے کیلئے عثمان پبلک اسکول کی پرنسپل ہاجرہ منصورکو بلایا گیا۔ مذاکرے کے شرکا میں ماہر نفسیات اور کراچی نفسیاتی ہسپتال کی ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر مہ جبیں اختر ، ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہما نصیر کنسلٹنٹ اینڈ جنرل فزیشن، ٹیچر ہمدرد پبلک اسکول نغمانہ حفیظ ، جیو ٹی وی سنسر بورڈ کی سینئر رکن شیما صدیقی اور جامعہ کراچی کی طالبہ مومنہ عقیل شامل تھیں۔

ہاجرہ منصور نے تمام مہمانوں کو مذاکرہ میں خوش آمدید کہا۔ جہاں تمام مہمان تشریف فرما تھے وہیں دیواروں پر مختلف بینر اور پوسٹ کارڈ آویزاں تھے….

hijab is my right my pride my choice

I cover my hair not my brain

حجاب میں لپٹی عورت جیسے سیپ میں موتی۔۔۔۔بادل میں چاند۔۔۔۔پھل میں بیج۔۔۔زمین میں کونپل۔۔۔

مذاکرہ کا پہلا سوال ہما نصیر صاحبہ سے کیاگیا ، کیا حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا کہ وہ ڈاؤ میڈیکل میں مردوں کے ساتھ کام کرتی رہیں لیکن حجاب کے دائرے میں رہ کر۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرد اور عورت کے درمیان بات چیت حیا کے دائرے میں ہونی چاہیے، چاہے مرد مریض ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کےلیے ضروری ہےکہ ہمارے اپنے اندرحیا موجود ہو۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عورت اپنے دائرے میں رہ کر ہر شعبے میں ترقی کرسکتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کی شکرگزار ہیں کہ وہ برائی کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔

کیا واقعی پردہ و حجاب عورت کی ضرورت ہے؟ اس سوال کے جواب میں مہ جبیں اختر نے کہا میری پیدائش و پرورش امریکہ میں ہوئی۔میں نے وقت کے ساتھ ساتھ حجاب کو adopt کیا۔ امریکہ میں کم عمر بچیوں کو sexual abuse کیاجاتا ہے۔جب لڑکے اور لڑکیوں کی کلاسز الگ کی گئیں تو اس کے رزلٹ اچھے آئے۔ جب کالج میں لڑکے لڑکیوں کا گروپ بنا تو والد صاحب نے سختی سےکہا کہ تین چار فٹ دور رہ کر بات کرنا، غیر ضروری گفتگو نہ کرنا ، اسی لیے میں محفوظ رہی۔حجاب سے مجھے پروٹیکشن ملی۔ دراصل حیا وحجاب ہی وہ چابی ہے جس کے ذریعے گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ حجاب کے ذریعے عورت دوسرے کے گھروں کا تحفظ کرتی ہے۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہاجرہ منصور نے کہا کہ مہ جبیں صاحبہ نے بہت اچھے آئیڈیاز دیے ہیں کہ جس سے محسوس ہوا حجاب معاشرے کی بقا کی ضرورت ہے، معاشرے میں عدم استحکام، گھرٹوٹ رہےہیں اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ عورت بے پردہ ہوتی ہے۔

اگلا سوال تھا کہ دو گز کا ٹکڑا کیا واقعی میرے لئے تحفظ کا ضامن ہے اور عزت و وقار کا باعث ہے؟اس کے جواب میں نعمانہ حفیظ صاحبہ نے بتایا کہ چھوٹی بچیاں ماؤں اور ٹیچرز کو کاپی کرتی ہیں۔بچوں کی نفسیات پر ٹیچر کے فیشن اور لباس کا کافی اثر ہوتا ہے۔جو مائیں ورکنگ وومن ہوتی ہیں وہ بچوں کو مستقل وقت نہیں دے پاتی اور ساتھ سوشل میڈیا کی موجودگی ،اس طرح ٹیچر کی ذمےداری دہری ہوجاتی ہے ۔ نئی نسل کو حجاب کیلئے زور نہ دیں بلکہ انہیں سمجھائیں اور ان کے دل میں حجاب کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کریں ۔ اگر دل سے قبول کرینگی تو اچھے سے نبھائیں گی ۔

ایک اور سوال کے کیا واقعی تحفظ کا احساس میرا حجاب ہے ؟اس کے جواب میں کراچی یونیورسٹی کی طالبہ مومنہ عقیل نے کہا ، جب میں یونیورسٹی جانے کیلئے بس میں سوار ہوئی حالانکہ میں باحجاب تھی اور عبایا پہنا ہوا تھا۔مگر پھر بھی آدمی مجھے گھور رہے تھے، جیسے بغیر عبایا والی لڑکیوں کو گھورتے تھے حالانکہ میں پہلے بھی اسکول و کالج جاتی رہی ہوں لیکن اس کا احساس پہلی بار مجھے یونیورسٹی جاتے ہوئےہوا۔ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کو بھی حیا سکھانے کی ضرورت ہے ۔اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر ہمانصیر نے کہا کہ ماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کو بھی حیا سکھائیں۔ نغمانہ حفیظ نے کہا کہ بیٹوں کے حوالے سے اصل ذمےداری باپ کی ہے اور ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بیٹوں کی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالیں اور نہ ہی باپ سے کوئی بات چھپائیں۔بات کو سمیٹتے ہوئے ہاجرہ منصور نے کہا اسلام میں مرد کو قوام کہا گیا ہے اور مرد ہی اپنے اہل وعیال کی حیا کا محافظ ہے ۔مومنہ عقیل نے کہا کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو حجاب سے محبت کرنا سکھائیں اور اپنے بیٹوں کو باحجاب عورت کی عزت کرنا سکھائیں ۔

مذاکرہ ابھی جاری تھا کہ درمیان میں نظم ”قرآن کا پیغام “ ایمان احمد نے پیش کی۔ اس کے بعد شبانہ ضیا نے اپنی نظم ”زمانے کی نگاہوں سے دیتا ہے تحفظ ۔۔۔۔ رسوا مجھے حجاب ہونے نہیں دیتا“ پیش کی۔

پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے نائلہ صدیقی نے عالمی یوم حجاب کا پس منظر پیش کیا ۔مروہ الشربینی کا واقعہ حاضرین کے سامنے رکھا کہ کس طرح ایک غیرمسلم مذہبی جنونی نے بھری عدالت میں مروہ الشربینی کا قتل کیا جب کہ عدالت نے مروہ الشربینی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

مائیک پھر سے ہاجرہ منصور کے ہاتھ میں تھا۔اب کی بار یہ سوال شیما صدیقی صاحبہ سے کیا گیا کہ کیا آپ کا حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا؟ اس کے جواب میں شیما صدیقی صاحبہ نے کہا کہ میں۱۳، ۱۴ سال سے ورکنگ وومن کے طور کام کررہی ہوں ۔میں نے روزنامہ جنگ میں کام کیا ، فی الحال جیو نیوز میں کام کررہی ہوں۔میرا کام فیلڈ پر ہے۔ معاشرے کی سچی کہانیوں پر ویڈیوز بنانا۔ میرے ساتھ اور بھی خواتین کام کرتی ہیں جنہوں نے بہت اعتماد کے ساتھ حجاب کو اپنایا ہوا ہے۔میں نے بھی حجاب کو اپنا کر اپنے اندر اعتماد کا احساس پایا ، میں نے ہر طرح کا کام کیا لیکن میرا حجاب کہیں بھی میرے کام میں رکاوٹ نہیں بنا۔ میں لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے اپنے بال کور کیے ہیں دماغ نہیں، بلکہ سچ کہوں تو کمفرٹ زون مجھے حجاب ہی سے ملا ۔

مذاکرے کے آخر میں ہاجرہ منصور نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا ، ساتھ ہی عشرت زاہد نائب کراچی حریم ادب نے مذاکرے کے تمام شرکا کو تحائف دیئے۔

پروگرام اپنے آخری مراحل میں تھا ۔ مجھ ناچیز نے بھی اپنی چھوٹی سی کاوش سامعین کے گوش گزار کی۔

پروین رئیس صاحبہ نے حجاب پر اپنی نظم پڑھی۔

آخر میں نائلہ صدیقی نے ضلع ناظم آباد وسطی کی ناظمہ مسرت جنید صاحبہ کو خطاب کی دعوت دی۔ مسرت جنید صاحبہ نے کہا کہ ہمیں حیا کے کلچر کا عام کرنا ہے اوراس کےلیے پہلی درسگاه ماں کی گود ہے۔اللہ تعالی نے مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا ہے لیکن اللہ تعالی نے مردوں کےمقابلے میں عورتوں کو ایک حکم زائد دیا ہے کہ وہ نگاہوں اور شرمگاہوں کے ساتھ ساتھ اپنی زینت کو بھی چھپائیں اور اس کے اظہار کیلئے محرم کی فہرست دے دی ہے ۔مسرت جنید نے مزید کہا کہ یہ حجاب ڈے کشمیری بہنوں کے نام کیا گیا ہے۔حجاب مسلم عورت کی پہچان ہے اور ایک اعلی اخلاقی معاشرے کی تشکیل کیلئے حجاب مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔

آخر میں ضلع ناظم آباد وسطی کی ناظمہ نے امت کی بیٹیوں اور کشمیری مسلمانوں کیلئے دعا کروائی .

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں