بد اخلاقی ،دہرا معیار اور دھرنا سیاست

شاید یہ ایک فطری عمل ہو کہ جذباتی لوگ اپنے ہر عمل اور بات کے دفاع کے لئے ہر حد تک چلے جاتے ہیں۔ہو سکتا ہے، ان پر ‘انا’  غالب آ جاتی ہو۔لوگ اپنے فیصلوں کو درست تسلیم کروانے کے لیے مخالفین کی ایسی داستانیں نکالتے ہیں، جسے شاید کوئی افسانوی لکھاری بھی نہ لکھ سکے۔مگر انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔اپنی غلطی کی بنا پر ہی آج عرش سے فرش پر ہے۔ہم اپنی غفلتوں کو درست ثابت کرنے کے لئے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ، ہمارا دہرا معیار کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔وقت اور جدت کے ساتھ جہاں رسم رواج بدلے، وہیں سیاسی دکاندار بھی جدت اختیار کرگئے۔ پہلے جو روٹی کپڑا اور مکان پر گاہک حاصل کیے جاتے تھے۔ اب وہی گاہک چند افسانوی دعوؤں ،تبدیلی اور انقلاب کے نام پر حاصل ہورہے ہیں۔مفادات کی خاطر وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔بداخلاقی میں بھی جدت آگئی ہے۔سوشل میڈیا اس کا محور ہے۔

دہرا معیار نہ صرف سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہے، بلکہ عوام کی بھی عادت بن چکا ہے۔جو کام ہمارے لئے جائز ہو نہ جانے وہ دوسروں کے لئے کیسے ناجائز ہو جاتا ہے؟ اپنے دہرے معیار کے دفاع کے لئے بے منطق دلیلیں بنانابھی کوئی ہم سے سیکھے۔ بات مارچ و دھرنا سیاست کی ہوتو یہ سلسلہ بھی پرانا ہی ہے۔مگر دھرنوں کو بام عروج تک پہنچانے کا کریڈٹ پاکستان میں شیخ السلام طاہر القادری اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے۔دھرنے انتخابی نظام کی خامیوں اورانتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے شروع ہو کر  حکومتی خاتمے کے نظریہ تک پہنچ جاتے ہیں۔گزشتہ حکومت کے مطابق 126دن تک جاری رہنے والے اس دھرنے کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوا ۔جس کے باعث پاکستان کو شدید معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 27اکتوبر کو آزادی مارچ اور31اکتوبر کو اسلام آباد دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔اسی وجہ سے ایک بار پھر دھرنوں پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔اسی بحث میں مذہبی کارڈ کے استعمال کی بھی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔یہ سلسلہ بھی پرانا نہیں۔ماضی میں مذہب کا سہارا بہت سی سیاسی جماعتیں لے چکی ہیں۔موجودہ حکومت اور اس کے حامی جمعیت کو مذہبی لبادہ اوڑھ کر سیاست کرنے کے طعنے دے رہی ہے۔جب کہ خود حکومت نے گزشتہ چند دنوں سے برقعوں کی تقسیم، علماء سے ملاقاتیں ،لنگر خانوں کے قیام جیسے اقدامات سے مذہبی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔

            ایک سوشل میڈیا صارف کے مطابق خود ریاست مدینہ کا نعرہ استعمال کر کے سیاست کرنے والے دوسروں کو مذہبی کارڈ کے استعمال سے کیسے روک سکتے ہیں۔مدارس کے بچوں کو دھرنے میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی پر جمعیت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔حکومت کے مطابق وہ مدرسے کے بچوں کو دھرنے کے لئے ہر گز استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

            ایک دوسرے سوشل میڈیا صارف کے مطابق اگر مذہبی جماعتیں ساتھ دیں توشیخ السلام،نہ دیں تو غدار۔مدارس کے بچے طاہر القادری کے ہوں تو انقلاب، فضل الرحمان کے ہوں تو ظلم۔

ماضی میں جب موجودہ برسر اقتدار جماعت نے دھرنا دیا تو دیگر جماعتوں کے ساتھ مولانا نے بھی دھرنوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔یہاں تک کہ مولانا نے دھرنے کو’ مجرا‘سے تشبیہ دی۔دہرے معیار کا اندازہ لگائیے ،جو جماعتیں اور عوام پہلے دھرنوں کے خلاف تھے ،وہ اب حامی ہیں اور جوپہلے حامی تھے، وہ اب مخالف ہیں۔

تحریک انصاف کے نزدیک ملکی صورتحال کسی دھرنے کی متحمل نہیں اور وقت بھی مناسب نہیں۔ماضی میں یہی بات گزشتہ حکومت کرتی تھی مگر تب تحریک انصاف کے نزدیک حکومت کا جانا ہی ملک کے حق میں تھا۔یہی دعوہ اب مولانا کرتے ہیں کہ حکومت کے جانے کے دن آگئے ہیں۔بد اخلاقی کا محاذ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے سنبھال رکھا ہے۔ایک سوشل میڈیا صارف نے دھرنے میں شامل ہونے والے نامعلوم شخص کی دختر بارے آشنا سے ملنے کی من گھڑت منصوبہ بندی تک شیئر کردی۔یہی نہیں بلکہ جعلی ہدایت نامہ بھی جاری کیا گیا ،جس میں شق نمبر چھ میں لواطت جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا۔جسے شیئر کرنے میں ہمارے وزیر اور اہم رہنما بھی پیش پیش رہے۔اسی طرح کی بداخلاقی کا مظاہرہ ماضی کے دھرنوں پر بھی ہوتا رہا۔پی ٹی آئی کے دھرنے میں مخالفین کی طرف سے بہت سی ملاقاتیں و ملاپ جیسی من گھڑت کہانیاں بھی سوشل میڈیا کی زینت رہ چکی ہیں۔حکومت کے ایک حامی کے مطابق دھرنے پر خرچ ہونی والی کثیر رقم جمیعت کو ملک مخالف ایجنسیاں فراہم کر رہی ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ ،ماضی کے دھرنوں میں رقم کون فراہم کر تا تھا؟ ماضی میں اگر حکومتی لاٹھی چارج برا عمل تھا ،تو کیا اب یہ عمل مناسب ہوگا؟اگر حکومت یہودیوں کی قائم کردہ ہے، تو اپوزیشن بھی ہندؤں کی خیرخواہ ہو سکتی ہے۔؟

دھرنا سیاست سے ہمیں کیا حاصل ہوا؟ اخلاقی تنزلی،معاشی نقصان اور افراتفری۔جب جس کا دل چاہتا ہے چند افراد اکٹھے کر کے ملکی شاہراہیں بند کردیتا ہے۔ایسے دھرنے ہمیشہ ملک کو تنزلی کی طرف ہی دھکیلتے ہیں، جس میں چند لوگوں کے مفادات جڑے ہوں ۔جس کے پیچھے اقتدار کی منصوبہ بندی ہو۔دھرنوں کا یہ سلسلہ نہ تھما تو حکومتیں کیسے چلیں گی؟ ملکی امور کیسے انجام پائیں گے؟ یا پھر پس پردہ قوتیں ہی با اختیار جب کہ ملکی معیشت زوال پذیر رہیں گی ۔ریاست مسئلہ کشمیر اور افغانستان جیسے معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ کنٹرول لائن پر گولہ باری جاری ہے۔ کیا ہماری ریاست اتنی سکت رکھتی ہے کہ، ایک اور دھرنا برداشت کر لے؟

مگر اقتدار کے سواری نہیں سمجھ سکتے ۔ملکی نقصان ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔کچھ نوجوان انجانے میں جذبات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔مگر زیادہ تر طبقہ مفادات کی خاطر دہرے معیار کو پروان چڑھاتا ہے۔چاہے دولت کا مفاد ہو یا شہرت کا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ، انتخابی نظام کو تبدیل کرتے۔ایسا نظام ترتیب دیتے جس سے غریب ،مڈل کلاس، پڑھے لکھے ،شرفاء اور قابل انسان بھی سیاست کا حصہ بن سکتے۔مگر ایسا کیوں چاہیں گے؟سب کے مفاد آڑے آجاتے ہیں۔آخر کب تک ہم جاگیردارانہ انتخابی نظام رائج رکھیں گے؟ کب تک مذہب کی آڑ میں مفاد ات کو پروان چڑھائیں گے ؟کب تک اقتدار صرف امراء،اور باثر لوگوں کا ہی حق رہے گا؟ اور کب تک یہ لوگ دھاندلی کا بہانہ کر کے ملکی تنزلی کا باعث بنتے رہیں گے؟

جواب چھوڑ دیں