حقیقت

مجھے اس سے بے پناہ محبت تھی۔
جب میں اس سے ملا تو پہلی ہی نظر میں اس کا ہو گیا۔ پھر میں نے کتنی ہی راتیں  اس کے پیار بھری آغوش میں گذار دیں۔ مجھے خبر نہیں ، وقت کیسے گزرتا رہا، میں کب سویا اور کب میں نے آنکھیں کھولیں۔ مجھے کچھ بھی پتہ نہیں۔ میں تو بس اس کے پیار میں کھویا ہوا تھا۔پھر ایک دن اچانک وہ موت کے ویرانے میں کھو گئی۔
یہ سب کیسے ہوا مجھ کو کچھ یاد نہیں، صرف اتنا یاد ہے کہ ایک شام جب وہ بازار سے آئی تو بری طرح بھیگی ہوئی تھی۔ اگلے دن اس کو کھانسی شروع ہو گئی۔ لگ بھگ وہ ایک ہفتہ بستر پر پڑی کھانستی رہی۔ ڈاکٹر آتے اور دوائیں دے جاتے۔ دوائیں آتی رہیں اور نرسیں اسے پینے کے لئے مجبور کرتی رہیں۔ اس کے ہاتھ گرم تھے، اس کی پیشانی اس طرح تپ رہی تھی  جیسے آگ پر رکھا ہوا توا ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی چمک پیدا ہو گئی تھی۔ میں اس کے پاس بیٹھا اس سے باتیں کرتا رہتا۔ وہ باتیں کیا تھیں، مجھے یاد نہیں۔ میں سب کچھ بھول چکا ہوں۔
اور پھر جب نرس نے ایک سرد آہ بھری تو میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ میں چپ تھا۔ پھر ایک پادری آیا اور دیر تک مرنے والی کی باتیں کرتا رہا۔ میری آنکھوں میں سمندر کی لہروں کی طرح آنسو اٹھتے رہے اور میں خاموش بیٹھا ساری باتیں سنتا رہا۔
اس کو قبر کھود کر دفن کر دیا گیا، دوسرے ہی دن میں لمبے سفر کے لئے نکل پڑا۔
کل واپس آنے پر جب میں اپنے کمرے میں گیا تو چاروں طرف کچھ عجیب سا ماحول تھا۔ میرے دل میں آیا کہ کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دوں۔ کمرے میں اور زیادہ دیر تک رہنا میرے لئے نا ممکن تھا اور دوسرے  ہی لمحہ میں باہر تھا۔ تب میرے قدم بے ارادہ ہی قبرستان کی طرف چل پڑے۔ سامنے ہی اس کی قبر تھی جس پر ایک بڑا سا پتھر نصب تھا اور اس پر کندہ تھا:
’’ اپنی بھر پور جوانی میں اپنے شوہر کو تنہا چھوڑ کر چلی گئی ‘‘
میں کئی گھنٹے وہاں بیٹھا رہا۔ آخر میں نے دیکھا کہ رات کا اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ میں اٹھا اور دیر تک قبرستان میں گھومتا رہا۔ وہاں نئی پرانی،  ٹوٹی پھوٹی قبریں تھیں۔ وہ مردوں کی بستی تھی۔ وہاں بہت طویل خاموشی اور گہرا سناٹا تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میں قبرستان کے سب سے پرانے حصہ میں آ گیا ہوں۔ وہاں صرف قبروں کے نشان ہی باقی تھے۔ ان کی سڑی گلی صلیبوں کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔
میں قبرستان میں گھومتا رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی قبر کہیں کھو گئی ہو۔ میں قبروں پر بیٹھ گیا، میرا دماغ چکرا رہا تھا۔مجھے بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ لگا جیسے قبر کا پتھر ہل رہا ہو۔ میں بت بنا دیکھتا رہا۔ اسی لمحہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ اس میں سے باہر نکلا۔ وہ قبر کے پتھر پہ تحریر پڑھنے لگا وہ عبارت تھی :
’’ جیک نے گرجا کا پادری بن کر اپنی زندگی بڑی تہذیب سے گذاری۔ اس کو انسانوں سے محبت تھی اور خدا اس پر مہر بان تھا۔ وہ خدا کا حکم پا کر پچاس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔‘‘
تبھی ہڈیوں کے ڈھانچہ نے جھک کر نوکیلے پتھر کا ٹکڑا اٹھایا اور پتھر کی وہ عبارت مٹانے لگا۔ پھر اس نے ایک ہڈی اٹھا کر اس پتھر پر لکھنا شروع کیا :
’’ جیک فریب اور دغا بازی سے بھری پچاس سال کی عمر میں مر گیا۔ وہ پادری تھا اور گرجا میں آنے والی لڑکیوں کی زندگی سے کھیلا کرتا تھا۔ پادری بننے کے لئے اس نے دو لوگوں کا خون کیا تھا اور آخر میں ……‘‘
وہ جملہ پورا کر ہی رہا تھا کہ میں نے اپنی پشت پر آہٹ سنی تو فوراً ہی مڑ کر دیکھا۔ تمام مردے اپنی اپنی قبروں سے نکل کر قبر کے پتھروں پر لکھ رہے تھے۔ تلاش کرنے پر مجھ کو اپنی بیوی کی قبر مل گئی۔ میں نے سوچا ضرور اس نے بھی قبر کے پتھر پر کچھ لکھا ہو گا۔ میں نے دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا:
ایک روز بارش ہو رہی تھی۔ میں اپنے شوہر کو دھوکہ دے کر اپنے چاہنے والے سے ملنے گئی۔ راستہ میں سردی لگ گئی اور بیمار ہونے سے میری موت ہو گئی۔‘‘
صبح میری آنکھ کھلی تو میں اس کے بستر پر سویا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے لوگوں نے مجھ کو اس کی قبر پر سے بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر گھر پہنچایا ہو گا۔

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں