امریکہ امن چاہتاہے ؟

امریکہ کس کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتاہے ،کس کے ساتھ سخت رویہ اختیارکرتاہے اور کس کس کولالی پاپ دیتا ہے یہ امریکہ کی پالیسی اوراختیارہے. ہمیں تویہ سوچنااورفیصلہ کرناہے کہ چین،ترکی،ملائشیا،سعودی عرب اوردیگر ممالک پربھروسہ کرنے کے بجائے ہم خودکیاکرسکتے ہیں،ہرملک کی اپنی پالیسی،مفادات اور ضروریات کے علاوہ چند مجبوریاں بھی ہوتی ہیں لہذا حکومت دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے خودپرتوجہ دیں.امریکہ،برطانیہ اوراقوام متحدہ پاکستان کے ساتھ بھارت کوبھی لالی پاپ ہی دے سکتے ہیں جب کہ بھارت خودکوامریکہ سمجھنے کی سنگین غلطی کررہاہے.بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کودبانے کیلئے جووسائل استعمال کررہاہے وہ اس کے  ذاتی ہیں ناکہ امریکہ کے،پاکستان اوربھارت ملکی وسائل اپنے عوام کی فلاح وبہبودکی بجائے جنگی سازسامان خریدنے پرخرچ کرتے ہیں جس کا فائدہ امریکہ کو ہے.کیاہم اپنے ماضی کوفراموش کرسکتے ہیں جس میں انگریزوں نے ہندو اورمسلمانوں کی تفریق کے بغیرہمیں غلام بنائے رکھا.بس فرق اتنا تھا کہ ہندوؤں نے انگریزکی زیادہ چمچہ گیری کی جس کے باعث انگریز ہندوؤں کوزیادہ پسندکرتے ہیں،امریکہ اور بھارت فطری طورپراسلام مخالف نظریات کے حامل ممالک ہیں.یہاں پریشانی یہ نہیں کہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں،فکر اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک کے آپسی تعلقات کمزورکیوں ہیں؟ جب غیرمسلم مسلمانوں کودہشتگردکہتے ہیں تووہ کسی خاص مسلم ملک اور مسلک کودہشتگردنہیں کہتے بلکہ بلاتفریق تمام مسلمانوں کودہشتگردقراردیتے ہیں، اس کے باوجودمسلم ممالک کی قیادتیں آپسی معاملات ٹھیک کرنے پرتوجہ نہیں دے رہیں، یہی اصل فکرکی بات ہے.ہم امریکہ بلکہ پوری دنیاکو نہ صرف تنازعہ کشمیر کے حل کے لئےسنجیدہ کرداراداکرنے کا کہہ رہے ہیں بلکہ باربارمطالبہ بھی کر رہے ہیں جب کہ امریکی صدر بھارتی وزیراعظم کوثالثی قبول کرنے یاکم ازکم کشمیرمیں انسانی حقوق کی بحالی پرمجبورکرنے کی بجائے مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرنہ صرف مسلمانوں کو دہشتگردکہتاہے بلکہ اسلامی دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بھارت کو اپنا اتحادی بھی کہتاہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ محض چند گھنٹے بعدہی امریکی صدر وزیراعظم پاکستان کے ساتھ بیٹھ کرایک بارپھر مسئلہ کشمیرپرثالثی کی پیشکش کرتاہے.اب کوئی امریکی صدرکوبتائےکہ  پاکستان نے ثالثی کی پہلی پیشکش نہ صرف قبول کی بلکہ اسے خوش آئند قراردیاتھا.امریکی صدر نئے سرے سے ثالثی کی پیشکش کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیرحل کرنے کی طرف توجہ دیں توزیادہ بہترہوگا.گزشتہ دنوں امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران کو نہ صرف دہشت گردوں کا سب سے بڑا اسپانسر قراردیا بلکہ شام اور یمن میں دہشت گردی کا ذمہ دار بھی اسے ٹھہرایا.ڈونلڈ ٹرمپ کاکہنا تھا کہ امریکا نے ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لئے معاہدہ توڑا،سعودی عرب پر حملے کے بعد ہم نے ایران پر بڑی پابندیاں لگائیں،رویہ بہتر بنانے تک ایران پر ایسی پابندیاں لگتی رہیں گی،امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ حکمرانوں کا مستقبل محب وطن ہونے میں ہے ،اچھا حاکم اپنے عوام کا سوچتا ہےاور اس کے لیے سب کچھ اس کا اپنا ملک ہوتا ہے.ہم مستقبل میں کسی تنازعہ میں نہیں الجھنا چاہتے پر اپنے مفادات کا تحفظ ضرورکریں گےاور میں امریکی مفادات کو تحفظ دینے میں دیر نہیں لگاؤں گا‘‘.امریکی صدر کے خطاب میں پاکستان اور بھارت حکمرانوں کیلئے ایک خاص پیغام تھا کہ تم لڑتے رہو،مرتے رہوں ہم اپنے ملک کے وفادار،اپنے عوام کے خیرخواہ اورملکی مفادات کے محافظ ہیں. تم جو باربارہماری قدم بوسی کیلئے بیتاب ہوتے ہو یہ ہمارے سپرپاورہونے کا ثبوت ہے .تم اپنے مسائل میں نہ صرف الجھے رہوبلکہ اپنے تمام تروسائل جنگ کی آگ میں جلاکرراکھ کرتے رہو اسی صورت  ہماری سپرپاوری قائم رہے گی.وزیراعظم پاکستان نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ اسلام دونہیں ایک ہے.اسلام کی غلط تشریح یعنی اسلام کودہشتگردی کے ساتھ جوڑناانتہائی خطرناک ہوگا،اسلام وہ ہے جوہمیں رسول اللہ ﷺ نے عنایت فرمایاہے،عمران خان نے ایک بارپھردہرایاکہ پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کرسنگین غلطی کی.بالکل درست کہا، نائن الیون کے بعد ہمیں امریکہ کااتحادی بننے کی بجائے غیرجانبداررہناچاہئے تھا ، ہمیں آج بھی امریکہ اور طالبان مذاکرات میں محتاط کردار ادا کرنا چاہیے،ماضی کے تجربات کومدنظررکھاجائے توآسانی سے سمجھاجاسکتاہے کہ طالبان امریکہ پر اورامریکہ طالبان پرکسی صورت اعتبارنہیں کرتے .ہم نے نائن الیون کے بعدافغان جنگ میں امریکہ کاساتھ دے کربہت نقصان اُٹھایا لہٰذآئندہ ہمیں  کسی ایسی جنگ کاحصہ نہیں بننا چاہئے .

جواب چھوڑ دیں