ذہنی صحت کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں

                دنیا بھر میں دس اکتوبرکوذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے تحت منائے جانے والے اس دن کے مقاصد یہ ہیں کہ ذہنی صحت وذہنی مریضوں کے علاج اور ذہنی بیماریوں سے بچاؤ کا شعور پیداکیا جائے۔ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے ذہنی صحت کے عالمی دن کو پہلی بار 1992 ء میں منایا گیا تھا اس کے بعد سے اب تک دس اکتوبر کو دنیا بھر میں اس دن کی مناسبت سے ذہنی صحت کی آگاہی کے حوالے سے تقریبات کی جاتی ہیں،جس کا مقصد افراد میں ذہنی صحت کو اجاگر کرنا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی طرف سے دنیا بھر میں ذہنی صحت کے حوالے مختلف اوقات میں سامنے آنے والی رپورٹس کافی تشویش ناک ہیں اوران کے اعدادوشمار ہوش ربا ہیں۔ 2011 کی رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت نے بتایا تھا کہ ہر چار میں سے ایک شخص ذہنی صحت کی خرابی ، مایوسی اور دیگر دماغی امراض میں مبتلاء ہے .اسی طرح دنیا میں دس سے بیس فیصد نوجوان ذہنی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ ذہنی تناؤ عموماً 20سے 40سال کی عمر میں ہونے کے امکانات ہوتے ہیں، لیکن اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ اس بات پر متفق ہیں کہ بدلتی عالمی صورت حال نے ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے. مردوں کی نسبت خواتین ذہنی امراض کا زیادہ شکار ہورہی ہیں ، اسی طرح ہر  چوتھے خاندان کا کوئی نا کوئی فرد ذہنی معذور ہورہاہے۔ عالمی دنیا میں یہ بات وثوق سے کہی جارہی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہاتو دنیا کو ذہنی صحت کے بحران سے گزرنا ہوگا۔

                پاکستان سمیت عالمی سطح پر غربت میں اضافے کے باعث ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ملک میں غربت،عدم تحفظ، تعلیم کی کمی ،بے روزگاری ، مہنگائی، بجلی و گیس کے بڑھتے دام اور توانائی کی کمی ، حکومت کی طرف سے عوام پرغیرضروری ٹیکسوں کی صورت ڈالا جانے والا بوجھ ذہنی انتشار اور مایوسی پھیلانے کا سبب بن رہا ہے، گزرے دس برسوں کے دوران حکومتی اقدامات سے ذہنی مریضوں میں سو فیصداضافہ ہوا ہے ۔ ذہنی صحت انسانی جسم کے لیے لازمی ہے اوردماغ خدا تعالٰی نے انسان کو ودیعت کیاہے۔یہ خودکار طریقے سے کام نہیں کرتابلکہ اس کی بناوٹ میں ہزاروں کروڑوں حساس خلیوں کی مدد شامل ہے۔لہذا انسانی سوچ و فکر کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ ذہنی آسودگی کے لیے کیا تراکیب بروئے کار لائی جاسکتی ہیں جن سے ذہنی صحت پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔

                ذہنی صحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسی سے انسان کے پورے وجود کا نظام چلتا ہے۔راحت و سکون کا دارومدار ذہنی صحت پر ہے،اگر کسی وجہ سے ذہنی بے آرامی کی کیفیت ہوتو اس کا مضر اثر پورے جسم پر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے اعصابی، نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔دنیا بھر میں ہر سال 8 لاکھ افراد ذہنی بیماری کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔پاکستان میں 15 لاکھ افراد ذہنی امراض کے مسائل کا شکار ہیں اور اس سب کے باوجود صحت کا شعبہ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے تباہ حال ہے۔دنیا بھر میں ذہنی مریضوں کے علاج معالجے پر بہت کم رقم خرچ کی جاتی ہے، پاکستان میں بجٹ کاصرف دو فیصد ذہنی مریضوں کے علاج پر صرف ہوتا ہے ۔

                دنیا بھر کی طرح پاکستانی آبادی کا 20 فیصد حصہ ذہنی امراض میں مبتلا ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 90 فیصدخود کشی کے واقعات کی وجہ ذہنی امراض ہیں۔بہت سے لوگ ذہنی صحت کی بگڑتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بجائے ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے کے اپنا علاج خود تلاش کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ذہنی صحت کے حوالے سے ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، انسانی معاشرے میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہم ذہنی مریض کی دیکھ بال میں کوتاہی نہ برتیں،دیکھا جاتا ہے کہ ذہنی مریض افراد کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے اور ان سے لاتعلقی اختیار کرلی جاتی ہے۔ ہم انسانوں پر اسلامی احکامات کی رو سے بیمار شخص کی تیمارداری کرنے اور اس کا خیال رکھنے کا حکم ہے اور اس پر اللہ پاک کی طرف سے بے شمار انعامات کا وعدہ ہے۔

جواب چھوڑ دیں