سیاست گھرگھر کی

“فریحہ کو سویاں کھلائیں امی؟”

فریحہ کے ابو نے میری ساس سے پوچھا-

میں کچن میں ان کے لیے چائے بنانے جارہی تھی جب یہ جملے میرے کانوں سے ٹکرائے.

“خیریت ہے اتنی چھوٹی سی بچی کو سویاں”.

میں نے پلٹ کرکہا.  “میں اس کا سیری لیک بنالیتی ہوں انتظار کریں صرف ایک منٹ”.

یہ کہہ کر میں فوراً کچن میں گئی چائے بنانے  کے لیے پہلے سے ہی چولہے پہ رکھے دودھ سے تھوڑا سا نیم گرم دودھ شیشے کی پیالی میں الگ کیا اور تیزی سے کمرے کی طرف بڑھی جہاں فریحہ کی دادی اماں, پھپھو, چاچواور اس کے والد بیٹھے تھے. مجھے امید تھی کہ سویاں کھلانے والی بات صرف مذاق ہوگی لیکن چونکہ فریحہ کافی دیر سے سو رہی تھی تو اسے یقیناً  بھوک لگی ہوگی اسی سوچ نے میرے ہاتھوں اور پھر قدموں میں تیزی پیدا کردی.

مگر کمرے میں داخل ہوتے ہی میرا دل غم سے بھر گیا. چچی یعنی فریحہ کی دادی اماں فریحہ کو ہاتھ سے میش کرکے سویاں کھلا رہی تھیں. فریحہ صرف چار ماہ اور بیس دن کی ہے.

فریحہ جیسے ہی چار ماہ کی ہوئی میرے سسرالیوں کا اصرار حد سے بڑھنے لگا لہذا ناچاہتے ہوئے بھی مجھے اسے سیری لیک لگانا پڑا.

فریحہ  کی پری میچور برتھ تھی جس کے سبب چارماہ کی میری چھوٹی گڑیا ابھی صرف ایک ماہ کی دکھتی تھی. جب ہم اپنے ضلع کے بہترین ڈاکٹر کے پاس اس کے طبی معائنے کے لیے گئے تو انہوں نے سختی سے ریکور یا کھلا دودھ لگانے سے منع کیا جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم بہت ہی کم اسے ریکور یا کھلا دودھ دیتے ہیں تو انہوں نے تاکیدی انداز میں کہا کہ “کوشش کریں کم کم بھی نہ دینا پڑے-“

یہ سب جاننے کے بعد بھی میرے سسرالی بضد تھے کہ چار ماہ پورے ہونے پر اسے کیلا اور سیری لیک لگا دو. جلد صحت یاب ہوجائے گی.

جلد بازی انسان کی فطرت ہے وہ ہمیشہ جلد ملنے والے فائدوں پہ ہی توجہ مرکوز کرتا ہےاور یہی جلدبازی بعض اوقات بہت بڑے نقصان کا باعث بنتی ہے-

سیری لیک مل نہیں رہاتھا میری کوشش تھی کے جلدی سے سیری لیک مل جائے تاکہ میری بچی پہ ہونے والا یہ تجربہ ختم ہو. سیری لیک امی کے گھر تھا کل فریحہ کی خالہ نے اسے بنا کے کھلایا تھا. میں بھاگ کرگئی اور سیری لیک لے آئی امی کا گھر صرف 4,5 قدم کے فاصلے پہ تھا.

جب میں واپس آئی تو چچی چمچ سے فریحہ کو سویاں کھلا رہی تھیں اور میرے شوہر سمیت سبھی گھر کے افراد اسے دلچسبی سے دیکھ رہے تھے. “یہ دیکھو شمائل!  میری بیٹی کتنے شوق سے سویاں کھا رہی ہے” چچی نے مجھے دیکھ کر کہا.

میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو اپنے شوہر کی طرف رخ کرکے انتہائی غصے میں بولی.

“ایک تو صبح سے ننگی پڑی ہیں سویاں اور دوسرا وہ موٹی اور گاڑھی ہیں. آپ کیسے باپ ہیں کچھ بھی کھلوا دیتے ہیں.اگر خدانخواستہ کچھ پھنس جائے اس کے گلے میں تو؟”

یہ کہہ کر میں پلٹی کچن میں  چائے بناتے ہوئے خوب روئی. مجھے لگا کہ میری بچی کا جیسے تماشہ لگایا جارہا تھا. اپنے تجربات و خوشی کے لیے اس کی تکلیف کو بھلا دیا گیا ہے.

کیا اسے پیار کہتے ہیں؟ پیار تو خیال رکھنےکا دوسرا نام ہے. اور خیال یہ ہے کہ کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے.  اللہ تعالی بھی تو انسان پہ اسکی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے. پھر میری بیٹی پر اسکی وسعت سے زیادہ بوجھ کیوں؟ یہ لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ خدانخواستہ اس کے گلے میں پھنس جائے یا نگلنے کی کوشش میں اس کی سانس کی نالی میں چلا جائے تو کون  ذمے دار ہوگا؟

کیا اس کے والد یا میں اس کی ماں بھی اس کی تکلیف کو اس شدت سے محسوس کرسکیں گے جتنی شدت سے وہ خود ؟

کیا یہ سوچ ان کے ذہن کے کسی خانے میں بھی نہیں ابھرتی؟

  ایک بچہ جسے بتدریج پینے سے نگلنا اور نگلنے سے چبانا سیکھنا ہے. آپ اس سے ایک ہی جست میں سب کچھ سیکھنے کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟ کیسے آپ فطرت کے خلاف کوئی عمل کروا سکتے ہیں ایک معصوم سے بچے سے؟

یہ پہلی بار کی بات نہیں. چچی اب تک اسے انگور کارس, قلفی والی آئس کریم, نمکین چاول, تلا ہوا انڈہ….بہت کچھ چکھا اور کھلا چکی تھیں.

میں ہر بار چپکے سے آیت الکرسی اور بسم اللہ الذی لا یضر کا دم کردیتی یہاں تک کہ خوراک کا ذرہ فریحہ یا تو نگل دیتی یا باہر اگل دیتی.  ان لمحات کے دوران میرا دل دعا گو رہتا کہ یااللہ میں چچی کو ٹوک نہیں سکتی کیونکہ وہ مجھ سے بڑی ہیں اور پھر یہ رشتے اتنے نازک ہیں کہ انہیں نہایت احتیاط اور حکمت سے برتنا ہوتا ہے.

مگر یااللہ میری بیٹی کی حفاظت فرما. دعاؤں کے ساتھ ساتھ میری نگاہیں فریحہ کے چہرے پہ بھی مرکوز رہتیں. صرف اس کے چہرے کے تسلی بخش تاثرات میرے دل کو سکون دیتے.

میں نے حکمت کو کئی بار اپنایا بھی ہربار کسی بھی نئے تجربے پہ اپنی فکر کا اظہار کرتی کہ شاید میری تشویش کا اظہار انہیں اپنے ارادے سے باز رکھے مگر ناکامی ہربار میرا منہ چڑاتی.

ہمارے خاندان میں بڑوں کو کسی بات پہ ٹوکنا یا انہیں غلط کہنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے.اور جسارت کرکے ایسا کچھ کربھی لیاجائے تو ایک طرف اپنے آپ کو صحیح  ثابت کرنے کے لیے اپنے ضمیر سے جنگ چھڑجاتی ہے دلائل و خیالات کا ایسا تانتا بندھتا ہےکہ نماز تک پڑھنا محال ہوجاتا ہے تو دوسرا ایک ایک فرد کی لعن طعن الگ برداشت کرنا پڑتی ہے.

یہ اندرونی کشمکش یونہی جاری تھے کہ فریحہ سیری لیک پہ چڑ گئی اور کھانے سے انکاری ہوگی. میں نے اس کے والد سے کہا  کہ یہ اپنی خالہ سے مزے لے لے کے کھاتی ہے لہذا انہوں نے سیری لیک  میری چھوٹی نند کو تھمایا اور فریحہ کو مجھے پکڑا دیا کہ میں اسے اسکی خالہ کے سپرد کردوں.

میں فریحہ کو لے کر امی کے گھرآئی تو وہاں میرے بھائی, بہنیں امی سب بیٹھے تھے. میرے چہرے کا بگڑا زوایہ سب کے چہروں پہ سوالیہ نشان لے آیا. میں خاموش رہی کہ مجھے بھائی کے سامنے ایسی کوئی بات نہیں کہنی تھی. بھائی کے جانے کے بعد پورا قصہ امی کے گوش گذار کیا.

 وہ میری امی ہی کیا کہ جو میری کسی بات پر متفق ہوجائیں. امی کی یہی عادت مجھے  بہت  اچھی بھی لگتی ہے کہ وہ سسرالی معاملات میں میری راہنمائی کرتی ہیں جب بھی میں غصے میں ان کے پاس جاتی وہ مجھے سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کرتیں اور سسرال واپسی پہ میں ایسے ہلکی پھلکی ہوجاتی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں. ایسی مائیں آج کے دور میں کمیاب ہیں ورنہ اکثر مائیں اپنی بیٹیوں کی بے جا طرفداری کرکے ان کے گھر برباد کردیتی ہیں گھر برباد نہ بھی ہوں تو سسرال کی طرف سے دل میلےضرور ہوجاتے ہیں.

فریحہ سیری لیک کھا کر سوگئی اس کے اٹھنے پہ میں میں نے فریحہ کے ابو کو کال کرکے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟

انہوں نے پانچ منٹ میں گھر لوٹنے کا کہا اور میں اپنی بچی کو لے کر گھر چلی آئی فریحہ کے ابو آئے. کچھ دیر تو ہم فریحہ سے متعلق بات کرتے رہے پھر تھوڑی دیر پہلے کے واقعے پہ بات کرنے لگے انہیں بالکل بھی اچھا نہیں لگا سب کے سامنے میرا اتنا غصے سے بولنا. میں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اگر پہلی بار میرے منع کرنے پہ اسے مزید سویاں نہ کھلائی جاتیں تو میں خاموش رہتی.

  “سوچو کہ امی کو کتنا برا لگا ہوگا”. وہ بولے.

مجھے احساس ہے اس بات کا لیکن مجھے بتائیں میں کیا کروں؟ اگر اس کے گلے میں کچھ پھنس جاتا تو؟ میں  نے کہا.

 اب سے پہلے کئی بار ایسا ہوچکا ہے مگر میں نے آج تک کسی سے تذکرہ نہیں کیا فریحہ کو چیسٹ انفیکشن تک ہوگیا مگر میں نہیں بولی.

” جو بات بری  لگے بس میرے کان میں ڈال  دیا کرو میں اپنی طریقے سے سمجھا دوں گا.” وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے.

چچی کی دل آزاری کرنے  کا احساس تو مجھے بھی تھا گو کہ میرے مخاطب فریحہ کے ابو تھے لیکن کھلا تو چچی رہی تھیں.

 لیکن اگر میں معذرت کر لوں چچی سے اور چچی پھر سے فریحہ کو کچھ کھلانے لگیں تو پھر؟…….میری معذرت تو دلیل ہوگی کہ کلی طور پہ میں ہی غلط تھی. ایسی سوچیں  پھر سے میرے ذہن  کو الجھانے لگیں اب میں لاکھ کوشش کرلیتی تو ایسے خیالات پہ قابو پانا میرے بس میں نہ تھا. فریحہ کے ابو سے بات کرنے کا صرف اتنا فائدہ ہوا کہ ان کا موڈ بہتر ہوگیا تھا.

 رات کو فریحہ کو ادویات دینے کے لیے میرے شوہر نے مجھے بلایا.  میرے گھر والوں کے ساتھ پھپھو بھی ٹی وی لاونج میں بیٹھی تھیں. اچانک سے کسی نے کہا کہ فریحہ کو شیرخورمہ کھلائیں.

میں نے نرمی سے کہا نہیں شیرخورمہ ٹھوس غذا ہے اور اسے ابھی نیم ٹھوس دینی ہے.

 “چپ رہو تم ایسے ہی کرتی رہی تو پال لی تم نے بیٹی.” پھپھو نے ہمیشہ کی طرح مجھے ڈانٹ کر کہا. پھپھو کھبی اس بات کا خیال نہیں رکھتی تھیں کہ آس پاس کتنے لوگ ہیں یا کوئی بھی بات کسی کو کتنی بری لگ سکتی ہے.

 “اس کی مت سنو تم کھلاو اسے”. پھپھو نے میری ساس سے کہا.

آتے ہی روٹی سالن تو کھانا نہیں شروع کردیتے بچے آہستہ آہستہ ہی سیکھتے ہیں نا.

آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ اللہ تعالی نے بھی دو سال بچے کو دودھ پلانے کا حکم دیا ہے.  پتہ نہیں ڈاکٹرز کو کیا سوجھتی ہے کہ سیری لیک کا مشورہ دے ڈالتے ہیں. میں نے جذبات پہ قابو پاتے ہوئے سادہ لہجے میں کہا.

“پھر تو کچھ بھی نہ کھلاو اسے. ” چچی نے غصے میں کہا.

“اگر یہی دودھ اس کے لیے کافی ہوتا تو نہ لگاتی اسے کچھ.” میں نے کہا.  اب پھپھو اور چچی دونوں غصے میں بھری بیٹھی تھیں.

میں کمرے سے نکل کر باہر آگئی. اس بار تو میں دلائل سے بات کررہی تھی مگر پھر بھی……

ابھی کچھ دنوں پہلے میری نند کی گھر آمد ہوئی تو  اکبر علی (میری نند کے  بیٹے) سے متعلق ان کے سسرالیوں کی بداحتیاطی کی مذمت پورا گھر تاکیداً کررہا تھا.  اور میری نند مجھے بے حد اصرار کے ساتھ یہ بآور کرانے پہ تلی تھیں کہ کوئی مجھ سے زیادہ اکبر علی کا خیال رکھ ہی نہیں سکتا چاہے جتنا پیار کرے. اور میری چچی بھی پرزور تائید کے ساتھ کہتیں کہ ماں سے زیادہ پیار کوئی کر ہی نہیں سکتا اور نہ ہی بچے کا فائدہ سمجھ سکتا ہے. میری نند نے ہفتہ بھر کے دوران یہ گردان خوب رٹی اور رٹوائی تھی نتیجتأ گھر بھر میں ماں اور بچے کے درمیان رکاوٹ بننے والے ہر شخص کی خوب خوب  مذمت کی جارہی تھی. لیکن آج….کیا آج  میرے اور فریحہ کے درمیان رشتہ بدلا تھا؟ یا خیال رکھنے والی ماں کی تشریح بدلی تھی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں