کاش ہم سمجھ پاتے

ضلع قصور ایک بار پھربچوں کے اغواء ،جنسی تشدد،قتل جیسی گھناؤنی وارداتوں کی لپیٹ میں آچکاہے اور یہ سلسلہ ہے کہ رکنے کے بجائے بڑھتاہی جارہاہے،سانحہ قصور کے بعد سانحہ چونیاں رونما ہونے پرپورے ضلع قصور میں خوف و ہراس اور بے یقینی کی فضاء اب تک بدستور موجود ہے،ہر شخص پریشان اور خوف کی کیفیت سے گزر رہاہے، ہردم بچوں کا ہی خیال،ذراسا بچہ باہر کیا نکلا، مختلف طرح کے اندیشے اور وسوسے والدین کو گھیر لیتے ہیں اور وہ ہروقت اپنے بچوں بارے فکرمند اور اُن کی سلامتی سے متعلق سوچتے رہتے ہیں.بچوں کو اکیلے سکول بھیجنے کے بعد ایک انجانا سا خوف اور ڈرستاتا رہتا ہے کہ نجانے بچہ کس حال میں ہے،اِس ساری صورتحال نے والدین کا دن کاچین اور رات کا سکون چھین لیا ہے،وہ سارا وقت بچوں کی فکر میں گزار دیتے ہیں اور دل ہے کہ اُسے چین اور قرار آتاہی نہیں، بیشتر والدین کا کہنا ہے کہ’’سانحہ زینب کے بعد سانحہ چونیاں ’’ننھے معصوم بچوں سے زیادتی‘‘کا المناک واقعہ ،معصوم بچوں کی تصاویر ،لاشیں،باقیات اور بچی کچھی ہڈیوں کا منظر آنکھوں میں آنے پر اُن کا سکون وچین کہیں کھو سا جاتاہے اوردل کو ایک بے چینی سی لگ جاتی ہے ،ذہن و خیال میں ایک سوچ اُمڈ آتی ہے کہ ہمارے معصوم بچوں کا اب کیا بنے گا؟اُن کا بچپن اور لڑکپن کیسے سکھی رہے گا؟اور سب سے بڑھ کر اِن کو کیسے محفوظ بنائیں؟ ان سب سوچوں کے باعث یکدم زندگی کی ساری خوشیاں اور رعنائیاں ماند پڑ گئی ہیں ،اب تو بچوں کے حوالے سے ہرطرف خوف ہی خوف محسوس ہوتاہے،آخر ہم جائیں تو جائیں کدھر ،کوئی مسیحا نظر نہیں آتا ،محافظ ویسے ہی بات نہیں سنتے،چائلڈ پروٹیکشن اداروں کی کارگردگی صرف کاغذوں اور فائلوں کی حد تک محدود ہے،حکمرانوں کو اپنے چونچلوں سے ہی فرصت نہیں، کریں تو کریں کیا،جب کہ معاشرے میں ہر طرف جسموں کے بھوکے،کمینہ خصلت’’ بھیڑیانما انسان‘‘دندناتے پھر رہے ہیں،جنہیں کسی مصوم ننھی کلی کی پرواہ ہے نہ کسی مسکراتے پھول سے کوئی غرض،جن کاکام صرف اور صرف نوچنا اور کاٹنا ہی رہ گیا ہے،انہوں نے ساری پولیس کو چکرایا ہوا ہے،افسران پر افسران معطل ہورہے ہیں مگر مسئلہ ہے کہ حل ہی نہیں ہو پا رہا،اِس ضلع میں تعینات اکثر پولیس اہلکار و افسران قصور کی ‘‘جرائم کہانی’’ کی پاداش میں معطلی،چارج شیٹ اور ہٹائے جانے کی سزائیں بھگت رہے ہیں مگر معاملہ اب بھی جوں کا توں ہے،سُدھرا کچھ بھی نہیں، بہتری ذراسی بھی نہیں آئی ،چین تھوڑا سابھی نہیں ملا نہ ہی قرار آیا ۔پولیس کی جانب سے ایک واقعے پر کنٹرول پایا جاتا ہے تو تھوڑے عرصے بعد دوسرا سانحہ رونما ہوجاتاہے، ہونہار پولیس آفیسر زاہد نوازمروت آتا ہے، ایک کے بعد دوسرا مجرم پکڑ لیتا ہے،مگر کیا کریں کہ اِن کے جاتے ہی کوئی اور مجرم سر اُٹھالیتا ہے،الغرض یہ کہ ضلع قصور کا کوئی پرسان حال نہیں،معصوم بچے ایک بار پھر زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں،معصوم بچوں کے چہریں سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں اوروالدین التجاء بھری نظروں سے انتظامیہ اور حکومت کی جانب لاچارگی و بے بسی سے دیکھ رہے ہیں اور ضلع میں جنسی جرائم کے حوالے سے مکمل بہتری کے خواہاں ہیں،ہر سو ،ہر فردکی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ ضلع قصور کے کم سن ، ننھے،معصوم بچے بچیوں کو سفاک ،درندہ صفت بھیڑیا نماانسانوں سے کون بچائے گا؟ اور یہ کہ اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ننھی زینب کے معاملے میں جنسی تشددو قتل کے مجرم عمران کی پھانسی کے بعد 4 معصوم بچوں علی حسنین ،سلمان اکرم ،محمد عمران اور محمد فیضان کے جنسی تشدد وقتل کے مجرم سہیل شہزاد کے پکڑے جانے پر اب اور کوئی درندہ صفت جنسی بھیڑیا کسی اور معصوم پھول کونوچنے ،کاٹنے نہیں آئے گا،اور یہ کہ مجرم سہیل شہزاد کے پکڑے جانے کے بعدضلع قصور کس حد تک محفوظ ہوچکا ہے ؟اِس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب ہے تو بتائیے ،ورنہ ضلع قصور کے حوالے سے حکام کی طرف سے خوشخبریاں اور مبارکبادیں دینے کا یہ وقت نہیں ہے بلکہ یہ ضلع کے لیے کچھ بہتر اور اچھا کردینے کا وقت ہےاور اس حوالے سے بہتر،موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ قصور اور اِس کے گردونواح میں ایسا واقعہ  نہ ہو،جو ملک وقوم کی بدنامی اورسر شرم سے جھکنے کاسبب بنے،قوموں کی اُٹھان میں ہی ملک کی بقاء ہوتی ہے ،بحیثیت  پولیس ،ادارے،ایک فرد کے ،کاش ہم سمجھ پاتے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں