بچے دو ہی اچھے

ہمارے سابق چیف جسٹس  جناب ثاقب نثارصاحب بہت سارے کام ایسے کر گئے جو ان کے کرنے کے نہیں تھے تو کوئی بات نہیں بعض اوقات انسان فی سبیل اللہ بھی کام کرتاہے  چاہے  اصل کرنے والے کام چھوٹ جائیں ِ، ویسے فی سبیل اللہ کام کرنے میں حرج نہیں اگر تو فرائض نہ چھوٹ رہے ہوں۔ وہ کہتے تھے کہ بس دو ہی کام کرونگا اور کر کے رہوں گا ، ڈیم بنانا اور ملک کا قرضہ اتارنا لیکن شاید وہ بھول گئے کہ وہ اپنے بڑوں کے نقش قدم سے کیسے ہٹیں گے کیونکہ ہمارے ملک کے سب بڑے جب ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں تو پرائے دیس سدھار جاتے ہیں جبکہ وہ دیس ان کے لیے پرایا نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے ہی اس کے شہری بن جاتے ہیں جبکہ پرائے دیس والے ریٹائرڈ ہو کر بھی اپنے ہی ملک کے لئے ایک اچھے شہری بن کر اپنے ملک کی خدمت کرتے ہیں۔ خیر جناب ہمارے ملک کی قسمت۔

خیر سے سابق چیف جسٹس از خود نوٹس  لینے میں بھی مہارت رکھتے تھے ، ہسپتالوں کے دورے ہوٹلوں کے رومز کی چھا ن بین کرنا پھر یہ الگ بات ہے کہ انہی کے دور میں نومولود کی وفات کی تعداد زیادہ رہی اور ہوٹلوں کے جن کمروں سے انہوں نے شراب کی بوتلیں پکڑیں اس میں شہد اتر آیا۔ایک اور کارنامہ جس کو وہ مکمل نہ کر سکے وہ تھا خاندانی منصوبہ بندی کہ بچے دو ہی اچھے۔اس کارنامہ میں اس وقت تک کپتانی حکومت بھی پیش پیش تھی ، اسی سلسلے میں اسلام آباد میں ایک بہت بڑا سیمینار رکھا گیا اس کی اہمیت کا اندازا اس سے کریں کہ اس پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے اور نہ صرف چیف جسٹس بلکہ وزیراعظم اور ملک کے مشہور عالم دین کو بھی بلایا گیا، دھواں دھار تقریروں میں صرف ایک ہی بیانیہ تھا۔۔۔۔۔ وسائل کم ہیں ختم ہو جائیں گے  اگر اب بھی نا سوچا۔۔۔۔۔۔ ہر آنے والا تیسرا بچہ ملک کا سارا اناج کھا جائے گا۔۔۔۔۔۔ ڈیم کا سارا پانی پی جائے گا ۔ مگر جناب عوام نے اس بیانیے کو بالکل ایسے ہی ہوا ؤں میں اڑا دیا جس طرح اداروں نے عدالتی احکامات کو اڑایا۔۔۔۔ اے کاش کے اس سیمینارمیں کراچی کی  سگ برادری؛موجودہوتی اور ان کے کان میں کچھ آواز جاتی وہ اس کو ایسے لیتے پلے دو ہی اچھے،کاش کہ چیف جسٹس صاحب اس کا بھی کوئی  از خود نوٹس لیتے ۔۔۔کراچی  میں دن بدن  کتوں کی آبادی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت کراچی میں  سگ برادری کی کل آبادی تقریبا اٹھارا لاکھ  ہے  اب  آپ خود اندازہ لگائیں کہ اتنی بڑی آبادی کو رہنے کے لیئے جگہ اور کھانے کے لیے خوراک بھی چاہیے۔جہاں تک  رہائش کاتعلق ہے  تو جناب سگ برادری نے شہر کے مختلف علاقوں میں اپنے اپنے مسکن بنا رکھے ہیں ، لیاری ہائی وے ، سیوک  سینٹر اور  تقریبا ہر محلے کی ہر گلی میں سگ برادری کا ایک خاندان تو ضرور ہی رہائش پذیر ہے۔اس وقت تک  تقریبا تیس ہزار سے زیادہ کتےکے کاٹے کیس سامنے آچکے ہیں مگر ہماری بد قسمتی کہ جس تیزی سے کتوں کی آبادی بڑھی اس تیزی سے ہماری انتظامیہ  کتے کے کاٹے کے ویکسی نیشن کا انتظام نہ کرسکی۔ ہم اپنے ملک میں تو کوئی بھی ایسا  کام نہیں کرنا چاہتے جس سے نچلے درجے تک کے وزیر کو اس سے کوئی فائدہ نہ ،اسی لئے دوائیاں  بھارت سے منگواتے ہیں تاکہ ہر طرح کا وزیر اور مشیر کمیشن سے فیضیاب ہو سکے لیکن سنا ہے کہ بھارت میں بھی اس ویکسی نیشن کی کمی ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے بھی دینے سے انکار کردیا۔

دیکھا جائے تو دنیا کا کوئی بھی ملک اور شہر مسائل سے مبرا نہیں ہے ،بیماریاں ،آسمانی آفات  اور بہت کچھ مگر فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کے ادارے اور انکے ذمہ داران ان مسائل کا سدباب تلاش کرتے ہیں اور ہر آن ان مسائل سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور ہمارے ملک میں بس ایک ہی دست سوال: ہاں جناب میرا حصہ کتنا ہوگا؟:۔ کچھ عرصے پہلے  اخبار کے ذریعے کسی نے انتظامیہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ سگ برادری کی خاندانی منصوبہ بندی کی جائے ان کی ایک نسل کو چھوڑ کر اگلی دو نسلوں کو بانجھ کردیا جائے تو شاید اس سے بھی ان کی آبادی کچھ کم ہو سکتی ہے۔

آہ اے کاش اتر جائے تیرے دل میں میرے بات

حصہ

جواب چھوڑ دیں