عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان

معاشرے میں جس طرف نگاہ دوڑائی جائے ہر ایک خود غرضی کا خول چڑھائے مشینی طرز زندگی گزارتا نظر آتا ہے۔ آج کا انسان معاشرتی ادب و آداب سے یکسر ناواقف دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی خوب صورتی میانہ روی، تحمل مزاجی، رواداری اور عدل و انصاف کی فراہمی میں ہے۔ اگر معاشرے میں ان چیزوں کا فقدان ہوگا تو شدت پسندی، جارحانہ پن، غصہ، عدم برداشت اور لاقانونیت وجود میں آئیں گے۔
عدم برداشت ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ آئے روز اخبار میں اس طرح کی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ استاد نے شاگرد کو زد و کوب کیا تو کہیں شاگرد نے استاد کو قتل کردیا، کہیں گھریلو ملازمین پر تشدد جاری ہے تو کہیں بنت حوا ظلم و ستم کی نذر ہورہی ہے۔ کہیں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں تو کہیں سیاسی جماعتوں کے نمائندے ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے میں مصروف ہیں۔ عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ آزمائش کے وقت بارگاہ الٰہی میں صبر و شکرکرنے کے بجائے ہم اس کے سامنے بھی شکووں کی طویل فہرست لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔ الغرض کہیں خالق سے شکوہ کناں ہیں تو کہیں مخلوق سے تعلقات کشید کیے بیٹھے ہیں۔ ہم یہ تک بھول چکے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، آج انسان کا خون پانی سے بھی ارزاں ہے اور ان تمام برائیوں کی وجہ اخلاقیات اور اسلامی اقدار و روایات سے منہ موڑلینا ہے۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ آج کل معاشرے کے 90 فیصد مسائل کی جڑ عدم رواداری ہے۔ صبر و تحمل، ملنساری، خندہ پیشانی جیسے اوصاف ہمارے درمیان سے رخصت ہوچکے ہیں۔ آج اگر کوئی ہمیں ایک بات کہے تو ہم اسے چار باتیں سناتے ہیں، پتھر کا جواب اینٹ سے نہ دینے کو شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ذرا سی بات پر ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ حالاں کہ تو ہم تو اس نبیﷺ کی امت ہیں جنہوں نے طائف کی گلیوں میں سنگریزوں سے لہولہان ہوکر بھی بد دعا کے لیے دست دراز نہ کیے۔ ہم تو ان کے امتی ہیں جنہوں نے اپنے جان سے عزیز چچا جان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف کردیا، جنہوں نے غالب ہوکر بھی دشمن کو امان دی۔ ہم تو ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے گردن پر رکھی تلوار فقط اس لیے اٹھالی کہ مبادا یہ قتل میرے غصے کے سبب نہ ہوجائے۔ ہم تو اس ریاست کے شہری ہیں جس کی بنیاد اسلام اور دستور قرآن ہے۔ پھر آخر ہمارا رویہ ایسا کیوں؟ ہم کیوں مذہب، سیاست، مسلک، رنگ، نسل اور لسان کو بنیاد بنا کر عدم رواداری کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم کیوں خود ہی گواہ، وکیل اور منصف بنے ہوئے ہیں؟
یہ عدم برداشت ہی ہے جس کی وجہ سے آج وطن عزیز پاکستان میں جرائم کی بھرمار ہے، معاشرے میں انتشار ہے، بدعنوانی، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ہم انفرادی و اجتماعی طور پر عدم برداشت کا شکار ہیں۔ چاہے وہ ہماری ذاتی زندگی ہو یا معاشرتی کوئی پہلو، ہماری نظر میں ہم، ہمارا نظریہ، ہمارا عقیدہ، ہماری رائے درست ہے۔ بصورت دیگر ہم شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تہذیب کی تمام حدوود لانگ جاتے ہیں اور اگلے بندے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔
ہم نے لوگوں کی رائے، ان کے نظریات کا احترام تک کرنا چھوڑدیا ہے۔ ہم دوسروں پر اپنی مرضی، اپنے عقائد، اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ اگر خالق کائنات کو یہ اختیار کسی کو دینا ہوتا تو وہ ہر انسان کو فہم و فراست اور عقل و شعور سے نہ نوازتا۔ غور و تدبر کی دعوت نہ دیتا۔ اس مالک کل نے جو تمام اختیارات رکھتا ہے اس نے جب انسان کو صحیح و غلط چننے، پرکھنے اور برتنے کا اختیار دیا ہے، نسخہ کیمیا تھما کر بھی اس میں تدبر کرنے کو کہا۔ کائنات کے رمز تلاشنے کی دعوت دی، اسے انسان پر مسلط نہ کیا بلکہ اسے سمجھنے اور سمجھ کر صحیح و غلط کا فرق معلوم کرنے کی دعوت فکر دی اور غلط راہ چن لینے کے بعد بھی توبہ کا راستہ دکھایا۔ تو ہم انسان ہوکر یہ خواہش کیوں کرتے ہیں کہ ہم کسی پر اپنے نظریات کو مسلط کردیں۔ وہ دیکھے تو ہماری آنکھوں سے اور سوچے تو ہمارے مطابق اور اختلاف رائے کی صورت میں جج جیوری جلاد بن کر اس سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیں۔
عدم برداشت ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جس کا حل ناگزیر ہے اگر اس کا حل فوری طور پر نہ نکالا گیا تو یہ نسل نو کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور نہ جانے کتنی زندگیوں کی تباہی کا سبب بنے گا۔ اس کے حل کے لیے ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حل تلاش کرنے سے قبل عدم برداشت پیدا ہونے کی وجوہات تلاش کرنا ضروری ہے کے علاج سے قبل بیماری اور بیماری کی وجوہات کا تشخیص کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ عدم برداشت اچانک جنم نہیں لیتا بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جیسے ہم کسی کے بنیادی حقوق ان سے چھین لیں، کسی کے حق پر ہونے کے باوجود اسے انصاف فراہم نہ کیا جائے۔ کسی شخص پر زبردستی اپنی حاکمیت مسلط کردی جائے۔ کسی کو بے جا سختیوں اورپابندیوں میں رکھا جائے تو نتیجتاً وہ شخص ان تمام عوامل کے رد عمل کے طور پر عدم برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اگر ہم معاشرتی و اجتماعی سطح پر اس کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کے اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔
اگر ہم اپنے روز مرہ کے معمولات میں چند تبدیلیاں کرلیں اپنے گھر والوں کو وقت دیں، دوسروں کو سنیں۔ کسی کے طعنہ و تشنیع کا جواب فقط ایک مسکراہٹ کی صورت میں دیں۔ اپنے مزاج، اپنے معمولات اور بول چال میں نرمی، منکسر المزاجی اور صبر کو اپنائیں۔ دوسروں کی رائے کا احترام کریں، بحث، بے جا تنقید اور جارحانہ رویے اختیار کرنے کے بجائے فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔ اگر کسی کو قائل کرنا ہے تو رعب کے بجائے دلائل کا سہارا لیں۔ ریاستی قوانین کی پابندی کریں، سیرت النبیﷺ اور سیرت صحابہ کا مطالعہ کریں۔ ہر بات کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو جانچیں اور اس کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کریں تو یقیناً ہماری سوچ، رویے اور نظریات میں ہمیں واضح تبدیلی محسوس ہوگی۔ اگرچہ کہ اس سارے عمل میں وقت درکار ہے کوئی بھی تبدیلی آن واحد میں نہیں آجایا کرتی اس کے لیے صبر اور مستقل مزاجی شرط ہے لیکن نتائج یقینی ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں