نقدی شاور

ہم دونوں بیٹے کو الوداع کہنے ائرپورٹ پر موجود تھے، بورڈنگ کروا کر وہ امیگریشن کی جانب بڑھا تو ایک جانب ڈیسک پر ایک اہلکار نے اسے روک لیا، ہم اس کی مدد کو لپکے، قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ نقدی کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، میں نے بتایا کہ اس کے پاس صرف ستر ریال ہیں۔ وہ سن کر حیران ہوا:
”ستر ریال یا ستر ہزارریال؟“
”صرف ستر ریال، چیک کروا دوں“، ہم نے یقین دلانے کو کہا۔
”او کے، رہنے دیں“: اہلکار نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری زبان ہی کا یقین کر لیا اور بیٹے کو جانے کا اشارہ کیا۔ہم نے ایک مرتبہ پھر بیٹے کا ماتھا چوما اور اسے دعائیں دے کر رخصت کیا، جاتے جاتے متعلقہ ڈیسک پر ایک مرتبہ پھر نظر دوڑائی تو جلی حروف میں ڈیسک کی دیوار پر ”غسل الاموال“ لکھا ہوا تھا۔
اوہ، اب میں سمجھی کہ وہ تو نقدی کو غسل دینے کے لئے پوچھ رہا تھا، لیکن کیوں؟ جس طرح مسافر نہا دھو کر سفر کرتے ہیں، شاید اسی طرح نوٹوں پر لگے گند کی صفائی کر کے بھیجا جاتا ہے، (لیکن نوٹوں پر کون سا گند لگا ہوتا ہے، ہمارے دل نے اس خیال کو اپنے اندر جگہ دینے سے انکار کر دیا)۔
چند ماہ بعد پاکستان جاتے ہوئے ہمیں بھی اسی ڈیسک پر روک کر ”ریالات“ کے بارے میں پوچھا گیا، مگر اس مرتبہ ہمارے پرس میں بھی فقط چند سو ریال کے بارے میں زبانی کلامی دعوے پر ہی آگے بھیج دیا گیا، بس ایک بات تو ہمیں سمجھ آ گئی تھی کہ نقدی شاور یعنی ”غسل الاموال“ کے لئے بھاری نقدی کا وجود ضروری ہے، ورنہ چھوٹی موٹی نقدی کو غسل تو درکنار منہ دھلائے بغیر ہی بھیج دیا جاتا ہے۔ اب حال یہ تھا کہ ہر سفر میں ہم اس ڈیسک کو دیکھ کر حسرت سے آگے گزر جاتے، اور زبان ِ حال سے یہی کہتے: ”دیکھو، اس مرتبہ پھر تمہارے صابن، شیمپو اور پانی کی بچت کروا کر جا رہے ہیں، اپنے تھوڑے سے میلے کچیلے اورجراثیم زدہ نوٹ لیکر“۔
اب کی بار صاحب نے ہمیں یہ کہہ کر حیران کم اور خوش زیادہ کر دیا کہ سوچ رہا ہوں رقم آپ کے ہاتھ ہی بھجوا دوں۔ ہمارے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، کیونکہ رقم بھاری تھی، اب اہلکار کو معلوم ہو جائے گا، ہم بھی صرف جہاز کا ٹکٹ ہی لیکر سوار نہیں ہوتے، ”ریالات“ بھی ہیں پرس میں۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم نے چشم ِ تصور میں ”برائیڈل شاور“ اور ”بے بی شاور“ کے مناظر لانے کی کوشش کی، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا ذہن ایسے مناظر کی بھی حقیقی تصویر کشی نہ کر سکا، کیونکہ مابعد الذکر شاورز کا بھی ہم تک زبانی حال ہی پہنچا تھا ہم نے کبھی اس میں شرکت نہ کی تھی، بس اتنا معلوم تھا کہ بڑی قابل ِ ذکر شاورز ہیں، شادی اور ولادت سے پہلے کی تقریبات تو انواع و اکرام کے کھانوں اور دلفریب تحائف سے بھرپور ہوتی ہیں۔
ہمارے میاں صاحب نے ہمیں بنک سے نئے نئے نوٹوں کے انبار (ہماری نظر میں تو وہ انبار ہی تھے) لا کر دیے تو ہم انہیں گن کر ایک سفید بڑے کاغذ میں لپیٹا اور پھر ایک زپ والے پنسل کیس (پاؤچ) میں ڈال کر بڑی حفاظت سے پرس کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔ ائرپورٹ پر پہنچ کر سامان ٹرالی میں ڈالا اور برق رفتاری سے کاؤنٹر پر جا پہنچے۔ صاحب جتنی دیر میں گاڑی پارک کر کے ائرپورٹ کے دروازے تک پہنچے ہم بورڈنگ کروا چکے تھے، اور یہ بھی پہلی مرتبہ ہی ہوا تھا کہ سیکیورٹی اہل کار نے انہیں بلا ٹکٹ اندر داخل ہونے سے روک دیا، ہمیں دیکھ کر انہوں نے ہاتھ ہلایا، اور ہم باہر ان سے رخصت ہونے چل دیے، وہ بولے امیگریشن سے فارغ ہو کر فون کر دیجئے گا، ہم نے کہا، ابھی تو ”غسل الاموال“ (نقدی شاور) کا ڈیسک بھی پار کرنا ہے، وہ جلدی سے بولے، اگر اس نے روکا تو۔۔
ہم ان کے اضافی جملے سے پہلے ہی دستی سامان لیکر آگے بڑھے، خواتین کاداخلی راستہ سب سے پہلے تھا، ہم نے جونہی اسے پار کیا، صاحب کی پریشان نگاہوں نے ہمارا تعاقب کیا، ایک بنگالی پورٹر نے بھی توجہ دلائی، ”اماں، ادھر جاؤ“، مگر ہم نے غسل الاموال کے ڈیسک پر پہنچ کر ہی دم لیا، اہلکار جو ہماری ہر بار کی کسمپرسی کا عادی ہو چکا تھا ہمیں دیکھ کر حیران ہوا، یا ہمیں ہی حیران لگا، ہم نے فصیح عربی میں اسے ڈیسک پر آنے کا مدعا بیان کیا، تو اس نے حیرت سے پوچھا: ”کم ریالات؟“۔
ہم نے کمال سرشاری سے بتایا: ”اربعون الف ریال“۔(چالیس ہزار ریال)
اس کے رویے میں نرمی کی جگہ ایک دم سختی آگئی، اس نے پھر تصدیق چاہی: ”چالیس ہزار ریال یا اس سے زیادہ؟“
چالیس ہزار: ہم ممنائے۔
یقین سے بتاؤ چالیس ہزار یا اس سے زیادہ؟
چالیس ہزار۔ ہم نے چاہا کہ پرس کی دوسری جیب میں پڑے اڑھائی سو ریال کا بھی اضافہ کر دیں، کہیں وہ اضافہ ہی بلائے جان نہ بن جائے، مگر اس کا دوسرا تابڑ توڑ سوال جواب کا منتظر تھا:
”فقط ریالات او ذھب“ (یعنی محترمہ کے پاس صرف ریال ہی ہیں یا سونا بھی اڑا کر لے جا رہی ہیں)۔
فقط ریالات۔ ہماری نگاہ ایک دم انگلیوں کی جانب اٹھی جن میں سونے کی انگوٹھیاں جگمگا رہی تھی، وہ شاید بن کہے ہمارا مدعا سمجھ گیا تھا، بولا: ”غیر ذلک“، یعنی اس کے علاوہ سونا۔ ہمارے انکار پر اس نے ایک مرتبہ پھر تنبہہ کی: ”تاکدی اربعین الف ریال فقط“۔
دوبارہ سوچ لو، صرف چالیس ہزار ریال ہی ہیں نا۔
ہم نے رندھی ہوئی آواز میں کہا، بس اتنے ہی ہیں چاہے تو گن لو، آج تو تم نے ہمیں روکا بھی نہ تھا، ہم خود آئے ہیں چل کر، کہ تمہارے نظام کے مطابق اس رقم کو لے کر جائیں۔
اہلکار نے اشارہ کیا اور ہم اس کے پیچھے دستی سامان لئے چلنے لگے، اتنی دیر میں میاں صاحب بھی آنکھ بچا کر اندر آگئے تھے، وہ پریشانی سے پوچھ رہے تھے، کہاں لے جا رہے ہیں آپ کو؟ بس ذرا تفتیش کریں گے رقم کی، اب تو ”نقدی شاور“ جیسا سہانا نام ہمارے لبوں پر بھی نہ آ رہا تھا۔
وہ کئی راستوں سے ہوتا ہوا اندر لے گیا، میاں صاحب پھر باہر رہ گئے، اور ہم اپنے دستی سامان سمیت خاتون تفتیش کار کے پاس پہنچ گئے، اندر پہنچے تو وہ فون کال ریسیو کر رہی تھی، باہر سے اسے ہمارے بارے میں ہدایات دی گئی تھیں، اس نے کمال بے پروائی سے پوچھا: ”النقود“(نقدی ہے)، ہم نے اثبات میں سر ہلایا، اور پرس میں سے نوٹوں والا پاؤچ اس کے حوالے کر دیا، اس نے اس کے کپڑے یعنی پرت اتارنے شروع کئے، ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا، اور لیں جی نئے نکور نوٹوں کے غسل کا اہتمام شروع ہو گیا، اس نے زبان سے انگلی کو تر کیا اور کچھ نوٹ اٹھا کر انگوٹھے اور انگلی سے رگڑ کر گننے شروع کئے، ہر کچھ نوٹوں کی گنتی کے بعد کاغذ پر کچھ لکھ کر دوسری جانب ڈھیری لگاتی گئی، ہم نے اس کے کاغذ کی لکھائی اور نوٹوں کی تعداد کی مطابقت کی کوشش کی، مگر ہر بار ہی ہمارا حساب کچھ مختلف دکھائی دیا، اسی دوران دو مرتبہ میاں صاحب کا فون آ چکا تھا، اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے، وہ ”غسل الاموال کی وجہ سے“۔ہم نے سادہ سا جواب دیا۔
”کیا؟؟“ وہ رقم گن رہی ہیں۔ ہم نے انہیں تسلی دی۔
رقم گننے کے بعد خاتون نے تسلی دلائی، فکر کی کوئی بات نہیں، پورے چالیس ہزار ہی ہیں، اس کی حد ساٹھ ہزار ہے۔ ہم نے ٹھنڈی سانس لی۔ اب اس نے ہمیں کھڑا کیا، اور حساس سیکیورٹی آلے سے ہمارا ”غسل“ شروع ہوا، یعنی ہمارا وجود بھی اس ”نقدی شاور“ کا حصّہ ہے، اوپر نیچے دائیں بائیں، ایڑیاں، کندھے گردن، سر، کمر ہر جانب جانے کونسی ”ریز“ کے ذریعے تفتیش کی گئی، اور ایک جانب ہو جانے کا اشارہ ہوا، اب اگلا مرحلہ ہمارے سامان کے ”غسل“ کا تھا۔ ہمارے پرس کی ساری جیبوں کے سامان کو باہر نکالا گیا، جوس کی بوتل کو ہلا کر دیکھا گیا، شکر ہے کیک کو کھود کر نہیں دیکھا، لیپ ٹاپ باہر نکال اس کو کھول کر دیکھا، دستی بیگ کو ہلا جلا کر، بلکہ اس کی ٹرالی والی زپ بھی کھول کر چیک کی، اس دوران پھر میاں صاحب کا فون آ چکا تھا، اور ہم انہیں تسلی دے چکے تھے، کہ ابھی آخری بیگ کا ”غسل“ مکمل ہو رہا ہے۔
خاتون تفتیش کار نے سب کے غسل کے بعد بڑے اطمینان سے ہماری جانب دیکھا، اور باہر اہلکار کو فون کر دیا، ”غسل مکمل ہو چکا ہے، خاتون کو باہر بھیج رہی ہوں، رقم اتنی ہی ہے جو اس نے بیان کی تھی۔
ہم باہر نکلے، تو ہمارا سامان ایک مرتبہ پھر تفتیشی مشین سے گزارا گیا، ہمیں باہر نکلتا دیکھ کر میاں صاحب بھی آگئے، انکا پہلا سوال یہی تھا، کہ ہم خود ہی اس ڈیسک پر کیوں گئے، قانون کے مطابق چیکنگ کروانے۔ ہمیں خود بھی اپنے الفاظ پر حیرت ہوئی، ہم تو ”نقدی شاور“ کے لئے گئے تھے، اپنی دیرینہ حسرت پوری کرنے، اور میاں صاحب کا تبصرہ تھا: آ بیل مجھے مار۔
کاؤنٹر سے اندر جاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر نقدی شاور ڈیسک یعنی غسل الاموال کے مقام کو دیکھا، اور آہ بھری، کم نقدی والے بس دامن جھاڑ کر چھوٹتے چلے جا رہے تھے، بالکل اسی طرح جیسے میدان ِ حشر میں غریب اور مسکین تھوڑا سا حساب دے کر فارغ اور جائیں گے اور امراء پانچ سو سال تک کھڑے رہیں گے۔
امیگریشن کے بعد ہمارا رخ ائر پورٹ مسجد سے ملحق ”غسل خانے“ کی جانب تھا، غسل تو ہو چکا تھا، اب وضو کر کے شکرانہ کے نوافل پڑھنے تھے۔
جان بچی سو لاکھوں پائے۔(لاکھوں ریالات)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں