مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

مولانا سید ابوالاعلیٰ جیسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ شاید مولانا کو دیکھ کر ہی علامہ محمد اقبالؒ نے کہا تھا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مجھ جیسا فرد جو اپنے ہی متعلق ہی اچھی طرح واقف نہ ہو وہ مولانا جیسی کسی بھی شخصیت کے متعلق جاننے کا کیا دعویٰ کر سکتا ہے۔ بہت چاہا کہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت کے لئے چند سطور تحریر کروں لیکن عملی کم مائیگی مانع رہی۔ ایک دو بار قلم بھی اٹھایا اور چند سطور لکھنے میں کامیاب بھی ہو گیا لیکن جب ان کو درستگی کیلئے دوبارہ پڑھا تو درست کرتے کرتے ساری تحریر ہی کو بدلنا پڑگیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ نہ تو میری معلومات ہی کافی ہیں اور نہ ہی میری سوچ وہاں تک پہنچ پائی ہے کہ میں اپنی تحریر کو آپ کی شخصیت کے پاسنگ کا بھی بنا سکوں لیکن دل نے ایک تہیہ کیا ہوا تھا کہ ایک دن ایسا ضرور کرکے رہوں گا۔ عزم اپنی جگہ لیکن غم روز گار ہر غم پر حاوی ہو جایا کرتا ہے اور یہی کچھ میرے ساتھ ہوا۔ میں اس رب کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے حلال رزق کا ایسا موقع فراہم کیا کہ ۳۳ برس تک مجھے سکھ ہی سکھ ملے اگر کوئی دکھ ملا تو وہ یہ ملا کہ مجھے ایسا ماحول کبھی نہ مل سکا جہاں میں اللہ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کو اجاگر کر سکوں، کچھ لکھ سکوں اور بھرپور انداز میں کتابوں کا مطالعہ کر سکوں۔ لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ گوکہ مکمل منقطع تو نہیں ہوا لیکن اتنا بھی نہ مل سکا جس میں مجھے مکمل یکسوئی حاصل ہو سکتی۔ کبھی کبھی کسی موضوع پر لکھ بھی لیا لیکن جس کو تحقیق کہتے ہیں ایسا کام کبھی نہ ہو سکاالبتہ اشعار ضرور موضوع ہوتے رہے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
مطالعے کے فقدان نے کبھی اس بات کی اجازت ہی نہیں دی کہ مولانا پر کوئی مناسب تحریر موزوں ہو سکے۔ اب نیٹ پر اچھا خاصہ مواد دیکھ کر اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ اس ناگفتہ بہ حالات میں بھی لوگ دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور پڑھنے اور معلومات کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ایک وہ فرد جو اپنی زندگی کے ایک بہت بڑے حصے میں کچھ مطالعہ نہ کر سکا، اس کو بھی یہ موقع نصیب ہوا کہ وہ اپنی معلومات میں کماحقہ‘ اضافہ کر سکے۔ میں بھی اسی جدید دور کے فراہم کردہ موقع سے فائدہ اٹھا کر مولانا کے سلسلے میں کچھ معلومات اکھٹی کرنے میں کامیاب ہوا ہوں اور اب مجھے یہ لگتا ہے کہ مولانا کے متعلق میں لوگوں تک کچھ حقائق پہنچانے میں کامیاب ضرور ہو جاؤنگا۔
ابتدائی زندگی:
سید ابوالاعلٰی مودودی 25ستمبر 1903 ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مولانا ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد میں آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔
1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔ اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دارالعلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔
بطور صحافی:
کیونکہ سید مودودی لکھنے کی خداداد قابلیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے اور اسی کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میں اخبار “مدینہ” بجنور (اتر پردیش)، “تاج” جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا روزنامہ “الجمعیت” دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک حق گو، بیباک اومجاہد انسان تھے اسے لئے وہ اس بات کو گوارہ نہ کر سکے کہ وہ کسی ایسے گروہ یا جماعت کاساتھ دیں جو کسی ایسی جماعت کے لئے ہمدردیاں رکھتی ہو جس کا دین دھرم ہی بتوں کی پوجاپاٹ ہو۔ جب آپ نے یہ دیکھا کہ مسلمانوں کی یہ جماعت کانگریس سے اشتراک کرنے کیلئے تیار ہو رہی ہے تو یہ مولانا کی طبعیت کو گوارہ نہیں ہوا اس لئے کہ ایک جانب کانگریس میں ہندو غالب تھے اور دوسری جانب وہ فرنگیوں کے زیر تسلط تھی اور انہی کی پالیسیوں پر عمل پیرا تھی۔ چنانچہ 1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار”الجمعیت“ کی ادارت چھوڑ دی۔
پہلی تصنیف:
جس زمانے میں سید مودودی”الجمعیت“ کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی توہین کی جس پر کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دین اسلام پر حملے کرنے لگے اور علانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ شاید یہ تمنا اس لمحہ کی گئی جب قبولیت کا وقت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تمنا کو فوراً قبول فرمایا اورمونا پر خصوصی نظر کرم کی۔ آپ نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 24 برس تھی۔اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
”اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے“۔
یہ کتاب جس کس کے بھی زیر مطالعہ رہی اس کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی کہ وہ کتب کے مصنف کو ضرور دیکھے چنانچہ دور دور سے لوگ اپنے دل میں اس خواہش کو لئے آپ کے پاس آتے لیکن جب اپنے سامنے ایک نوجوان کو بیٹھا دیکھتے تو حیران رہ جاتے اس لئے کہ یہ کتاب اتنی مدلل اور تحقیق شدہ تھی کہ ہر فرد یہ خیال کرتا تھا کہ اس کا مصنف کوئی کہنہ مشق لکھا ری ہوگا۔ کسی کی گمان میں بھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ ایک نو عمر بھی کسی مشاق قلم کار کی طرح اتنی گہرائی کے ساتھ کوئی کتاب لکھ سکتا ہے۔
ترجمان القرآن:
لکھنے والے کا ہاتھ رک جائے اور اس کی سوچ کے پر کٹ جائیں یہ بات کسی طور ممکن نہیں چنانچہ ”الجمعیت“ کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ جہاں اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں اور 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ”ترجمان القرآن” جاری کیا۔ 1935ء میں آپ نے “پردہ” کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ “تنقیحات” اور”تفہیمات” کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔
اسلامی قومیت:
1938ء میں کانگریس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان اور خود علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ مل گئی۔ کانگریس کے اس نظریہ کو “متحدہ قومیت” یا “ایک قومی نظریہ” کانام دیا جاتا تھا۔ سید مودودی نے اس نظریے کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں “مسئلہ قومیت” اور ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش” حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئی۔ مولانا مودودی صاحب پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ اپنے ایک کتابچے میں لکھتے ہیں کہ:۔ ”پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی۔“ حالانکہ ان کی تحریروں کو اگر کاٹ چھانٹ کر پیش کرنے کے بجائے مکمل سیاق و سباق کے ساتھ اور پورے جملے کو پڑھا جائے تو اصل صورتحال واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ چونکہ تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ اس تصور کو پیش کرنے، اسے نکھارنے اور فروغ دینے میں سید مودودی کی تحریرات کا حصہ تھا، اسے اس شخص کی زبان سے سنیے جو محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کا دست ِ راست تھا۔۔۔یعنی آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکریٹری، اس کی مجلس ِ عمل Committee of Actionاور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری ظفر احمد انصاری لکھتے ہیں۔ ”اس موضوع پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ”مسئلہ قومیت“ کے عنوان سے ایک سلسلہ ءِ مضامین لکھا جو اپنے دلائل کی محکم ہونے، زور ِ استدلال اور زور ِ بیان کے باعث مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا اور جس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں ہوگیا۔ اس اہم بحث کی ضرب متحدہ قومیت کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا احساس بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔ قومیت کے مسئلہ پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اس کی ضرب کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے پورے موقف پر پڑتی تھی۔ ہندوؤں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی جدا گانہ قومیت کا احساس کسی طرح ختم کرکے ان کے ملی وجود کی جڑیں کھوکھلی کردی جائیں۔ خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے تاکہ عوام کانگریس کے کھیل کو سمجھ سکیں اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں“۔

مسلم لیگی رہنما مزید لکھتے ہیں۔ ”دراصل پاکستان کی قرار داد سے پہلے ہی مختلف گوشوں سے ”حکومت الہٰیہ“، ”مسلم ہندوستان“ اور ”خلافت ربانی“ وغیرہ کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ علامہ اقبال نے ایک ”مسلم ہندوستان“ کا تصور پیش کیا تھا۔۔۔ مودودی صاحب کے لٹریچر نے حکومت الہٰیہ کی آواز بلند کی تھی۔ چوہدری فضل حق نے اسلامی حکومت کا نعرہ بلند کیا تھا۔ مولانا آزاد سبحانی نے خلافتِ ربانی کا تصور پیش کیا تھا۔ جگہ جگہ سے اس آواز کا اٹھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اپنے مخصوص طرز فکر کی حکومت قائم کرنے کی ضرورت پوری شدت سے محسوس کررہے تھے اور حالات کے تقاضے کے طور پر ان کے عزائمِ خفتہ ابھر کر سامنے آرہے تھے“۔
علامہ اقبال اور سید مودودی:
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سید مودودی کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے۔ بقول میاں محمد شفیع (مدیر ہفت روزہ اقدام)، علامہ موصوف ”ترجمان القرآن“ کے اْن مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے۔ اْن (مضامین) ہی سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو حیدرآباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی اور اسی دعوت پر مولانا 1938ء میں پنجاب آئے۔ میاں محمد شفیع صاحب اپنے ہفت روزہ اقدام میں لکھتے ہیں کہ ”مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تو درحقیقت نیشنلسٹ مسلمانوں کی ضد تھے اور میں یہاں پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ ”مودودی ان کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے“۔ جہاں علامہ اقبال بالکل واضح طور سے آزاد (مولانا آزاد) اور مدنی (مولانا حسین احمد مدنی) کے نقاد تھے وہاں وہ مولانا کا ”ترجمان القرآن“ جستہ جستہ مقامات سے پڑھواکر سننے کے عادی تھے۔ اور اس امر کے متعلق تو میں سو فیصدی ذمہ داری سے بات کہہ سکتا ہوں علامہ نے مولانا مودودی کو ایک خط کے ذریعے حیدرآباد دکن کے بجائے پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی دعوت دی تھی۔ بلکہ وہ خط انہوں نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا“۔
شریف الدین پیرزادہ کی گواہی:
اس وقت کے مارشل لا حکومت کے قائم کردہ دستوری کمیشن کے مشیر اور کمپنی لا کمیشن کے صدر سید شریف الدین پیرزادہ اپنی کتاب ”ارتقائے پاکستان of Pakistan Evolution میں لکھتے ہیں۔ ”مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کے ایک سلسلہ مضامین کے ذریعے جو 1938ء اور 1939ء کے درمیان شائع ہوئے، کانگریس کے چہرے سے نقاب اتاری اور مسلمانوں کو متنبہ کیا۔ موصوف نے برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا، کانگریس کی لادینیت کی قلعی کھولی اور یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کے مخصوص حالات میں اس کے لئے جمہوریت ناموزوں ہے۔ اس لئے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک ووٹ اور ہندوؤں کو چار ووٹ ملیں گے۔ انہوں نے ہندوؤں کے قومی استعمار کی بھی مذمت کی اور اس رائے کا اظہار کیا کہ محض مخلوط انتخاب یا اسمبلیوں میں کچھ زیادہ نمائندگی Weightage اور ملازمتوں میں ایک شرح کا تعین مسلمان قوم کے سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو تجویز انہوں نے پیش کی اس میں تین متبادل صورتوں کی نشاندہی کی گئی تھی“۔ ان صورتوں میں آخری صورت ہندوستان کی تقسیم کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سید شریف الدین پیرزادہ ارتقائے پاکستان میں جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ ”وہ تجاویز اور مشورے جو سر عبداللہ ہارون، ڈاکٹر لطیف، سرسکندر حیات، ”ایک پنجابی“، سید ظفرالحسن، ڈاکٹر قادری، مولانا مودودی، چودھری خلیق الزمان وغیرہ نے دیئے، وہ ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی سڑک کے سنگہائے میل ہیں“.
یہاں اس بات کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ اسلام کا سہی معنوں میں جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر تقسیم ہند سے قبل اس بات کا خطرہ موجود تھا اور وہ درست تھا کہ اگر ووٹنگ ہوگی تو مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو ووٹ چار گناہ سے بھی زیادہ ہونگے اسی طرح اس بات کا خطرہ ”مسلمان“ ریاست میں بھی ہر وقت موجود رہے گا۔ عام طور پر معاشرہ اچھے، نیک اور صالح لوگوں کی کمی کا شکار رہتا ہی ہے۔ ایک مسلم ریاست میں بھی ضروری نہیں کہ ایک بہت واضح اکثریت نیک اور صالح لوگوں پر ہی مشتمل ہو۔ کم ایمان والے یا اسلام کے متعلق کم علمی کا شکار لوگ کسی بھی قسم کے بہکائے میں آسکتے ہیں اور جمہوریت کی صورت میں وہ کسی بھی قسم کے بہکائے یا دناؤ کا شکار ہوکر کوئی بھی رائے قائم کر کے ایک اسلامی مملکت کو غیر اسلامی افراد کے حوالے کر سکتے ہیں اس لئے جمہوریت کو اسلا م سے قریب تصور کرنا میرے نزدیک ایک بہت بڑی بھول ہے۔ یہ بات بھی بہت غور کرنے کی ہے اسلام کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہے اور ”خلیفہ“ اللہ کا نائب ہوتا ہے اور اللہ کے آگے جوابدہ جبکہ جمہوریت میں حاکم اعلیٰ ”عوام“ ہوتے ہیں اور سربراہ مملکت عوام کے آگے جوابدہ ہوتا ہے۔ یہ ایک واضح فرق ہے اور اسی لئے جمہوریت کا کوئی تعلق اسلام سے بنتا ہی نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے علما اس فریب کا شکار ہو چکے ہیں کہ جمہوریت اور اسلام میں (نعوذباللہ) چولی دامن کاسا ساتھ ہے ہم جتنی جلد اس فریب سے باہر نکل آئیں اتنا ہی پاکستان اور اسلام کیلئے اچھا ہے۔
ریفرنڈم میں پاکستان کی حمایت:
صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا اور لوگوں کو اس موقع پر آمادہ کرنے کے لئے کہا ”اگرمیں صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لئے کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ہورہی ہے تو لامحالہ ہر اس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہئے“ اس تاریخی موقع پر آئندہ کے نظام کے بارے میں مولانا نے لکھا ”وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا جیسا کہ وعدہ کیا جارہا ہے تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے، اور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کررہے ہیں“۔
مولانا اس حد تو استصواب رائے کے حق میں تھے کہ ایسی تمام ریاستیں یا علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اس استصواب رائے کے نتیجے میں ایک مملکت کی شکل اختیار کر سکتی ہیں تو استصواب رائے میں شریک ہو جانا چاہیے لیکن شرط یہ ہے کہ آزاد ہوجانے کی صورت میں اسلام کا نفاذ ہو بصورت دیگر ہمیں وہاں اسلامی نظام کیلئے اسی طرح جدوجہد جاری رکھنا ہو گی جس طرح اب (تقسیم سے قبل) جاری رکھی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ مولانا نے اس بات کا خدشہ بہت پہلے ظاہر کر دیا تھا کہ اگر جدوجہد کی صورت میں کوئی مسلمانوں کی مملکت وجود میں آبھی گئی تو وہ ”مسلمان کافر“ حکومت کے علاوہ اور کچھ نہ ہو گی اور یہ بات اتنی غلط بھی ثابت نہیں ہوئی۔ ۰۷ سال سے صورت حال ایک ایک پاکستانی کے سامنے ہے اور پاکستان کا ایک ایک شہری اس بات کا گواہ ہے۔
مسلم لیگ علماء کمیٹی کی رکنیت:
قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران مسلم قومیت پر سید مودودی کے مضامین مسلم لیگ کے حلقوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے رہے۔ بعد ازاں مسلم لیگ یو پی نے اسلامی نظام مملکت کا خاکہ تیار کرنے کے لئے علماء کی ایک کمیٹی بنائی تو مولانا مودودی نے اس کی رکنیت قبول کرتے ہوئے اس کام میں پوری دلچسپی لی۔ اس کا مسودہ کمیٹی سے وابستہ ایک معاون تحقیق مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے Paper Working تیار کیا تھا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مولاناعبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں۔ ”غالبا 1940ء یا شاید اس سے بھی کچھ قبل جب مسلم لیگ کا طوطی ہندوستان میں بول رہا تھا۔ ارباب لیگ کو خیال پیدا ہوا کہ جس اسلامی حکومت (پاکستان) کے قیام کا مطالبہ شد و مد سے کیا جارہا ہے خود اس کا نظام نامہ یا قانون ِ اساسی بھی تو خالص اسلامی بنانا چاہئے۔ اس غرض سے یو پی کی صوبائی مسلم لیگ نے ایک چھوٹی سی مجلس ایسے ارکان کی مقرر کردی جو اس کے خیال میں شریعت کے ماہرین تھے کہ یہ مجلس ایسا نظام نامہ مرتب کرکے لیگ کے سامنے پیش کرے۔ اس مجلس ِ نظام ِ اسلامی کے چار ممبران کے نام تو اچھی طرح یاد ہیں۔ (1) مولانا سید سلیمان ندوی (2) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (3) مولانا آزاد سبحانی (4) عبدالماجد دریا بادی“۔
جماعت اسلامی کا قیام:
سید مودودی نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے۔ جو لوگ اس تجویز سے اتفاق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور “جماعت اسلامی” قائم کی گئی۔ جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں پورے ہندوستان میں سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودی کو جماعت کا امیر منتخب کیاگیا۔
پہلی قید:
تقسیم ہند کے بعد سید مودودی پاکستان آگئے۔ پاکستان میں قائد اعظم کے انتقال کے اگلے ہی ماہ یعنی اکتوبر 1948ء میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے پر آپ گرفتار ہو گئے۔ گرفتاری سے قبل جماعت کے اخبارات “کوثر”، جہان نو اور روزنامہ “تسنیم” بھی بند کردیے گئے۔ سید مودودی کو اسلامی نظام کا مطالبہ اٹھانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن الزام یہ دھرا گیا کہ وہ جہادِ کشمیر کے مخالف تھے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری سے قبل اس کا متن بھی مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا۔ انہیں 20 ماہ بعد 1950ء میں رہائی ملی۔
اپنی پہلی قید و بند کے دوران انہوں نے “مسئلہ ملکیت زمین” مرتب کی، “تفہیم القرآن” کامقدمہ لکھا، حدیث کی کتاب “ابو داؤد” کا انڈکس تیارکیا، کتاب “سود” اور “اسلام اور جدید معاشی نظریات” مکمل کیں۔
قادیانی مسئلہ:
1953ء میں سید مودودی نے “قادیانی مسئلہ” کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب تحریر کی جس پر انہیں گرفتار کرلیا گیا اور پھرفوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنادیا۔ سزائے موت سنانے کے خلاف ملک کے علاوہ عالم اسلام میں بھی شدید ردعمل ہوا۔ جن میں مصر کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے رہنما علامہ حسن الہضی بی، کابل سے علامہ نور المشائخ المجددی، فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی کے علاوہ الجزائر اور انڈونیشیا کے علماء نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے سید مودودی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جبکہ شام کے دار الحکومت دمشق میں ان کی سزائے موت کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ بالآخر حکومت نے سزائے موت کو 14 سال سزائے قید میں تبدیل کردیا۔ تاہم وہ مزید دوسال اور گیارہ ماہ تک زندان میں رہے اور بالآخر عدالتِ عالیہ کے ایک حکم کے تحت رہا ہوئے۔

فتنہ انکار حدیث:
1958ء میں مارشل لا کے نفاذ کی سخت مخالفت کرنے کے بعد اس وقت کے صدر ایوب خان نے سید مودودی کی کتاب “ضبط ولادت” کو ضبط کرلیا اور ایوبی دور میں ہی فتنہ انکار حدیث نے سر اٹھایا اور حکومتی سر پرستی میں ایسا طبقہ سامنے آیا جس کا کہنا تھا کہ اسلام میں حدیث کی کوئی حیثیت نہیں حتیٰ کہ مغربی پاکستان کی عدالت کے ایک جج نے حدیث کے بارے میں شک ظاہر کرتے ہوئے اسے سند ماننے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر سید مودودی نے اسلام میں حدیث کی بنیادی حیثیت کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے دونوں کو اسلامی قانون کا سرچشمہ قرار دیا۔ انہوں نے فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف اپنے رسالے “ترجمان القرآن” کا “منصب رسالت نمبر” بھی شائع کیا۔
یہ تھا وہ پاکستان جس کیلئے مسلمان ہند نے ایسی ایسی قربانیاں پیش کیں جس کی کوئی مثال تاریخ اسلام میں موجود نہیں جبکہ قربانیاں دینے والے اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ جن جن علاقوں میں پاکستان بننا ہے وہ ان کے علاقے نہیں۔ پاکستان بننے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں مسلمانان ہند نے محض اس لئے ہجرت کرنا اور موجودہ پاکستان آنا پسند کیا کہ انھیں اسلام اور اسلامی نظام سے پیار تھا اور اس جرم کی سزا انھیں آج تک مل رہی ہے اس کے باوجود وہ اس پاکستان سے پیار کرتے ہیں اس لئے کہ وہ اللہ سے پیار کرتے ہیں لیکن اس خطر کے لوگ گزشتہ ستر برس سے غدار ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ تاریخ کا ایسا المیہ ہے جس کو تاریخ ہمیشہ سیاہ ترین حرفوں سے لکھے گی اور اس کو جتنا مٹانے کی کوشش کی جائے گی اس کی سیاہی کم ہونے کی بجائے اور گہری ہوتی جائے گی۔
قاتلانہ حملہ:
مارشل لا اٹھنے کے بعد اکتوبر 1963ء میں سید مودودی نے جماعت اسلامی کا سالانہ جلسہ لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایوب خاں کی حکومت نے اس کو روکنے کی پوری پوری کوشش کی اور منٹو پارک کی بجائے بھاٹی دروازے کے باہر تنگ جگہ میں جلسہ کرنے کی اجازت دی۔ بعد ازاں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا گیا۔ 25 اکتوبر کو جلسہ شروع ہوا۔ سید مودودی نے تقریر شروع ہی کی تھی جلسہ گاہ میں موجود نامعلوم افراد نے فائرنگ شروع کی جس سے جماعت اسلامی کا ایک کارکن جاں بحق ہوگیا تاہم مودودی بچ گئے۔
جماعت پر پابندی:
ایوب خاں نے 6 جنوری 1964ء کو جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔ سید مودودی اور جماعت اسلامی کے 65 رہنماؤں کو گرفتار کر کے قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس قید کا دورانیہ 9 ماہ رہا جس کے بعد انہیں عدالیہ عظمیٰ کے فیصلے پر رہا کردیا گیا۔
دوبارہ گرفتاری:
1967ء میں عید کے چاند کے مسئلے پر شریعت کا مسئلہ بتانے کے جرم میں سید مودودی کو پھر گرفتار کرلیا اور دو ماہ تک بنوں جیل میں رکھا گیا۔
یومِ شوکت اسلام:
مشرقی پاکستان کے اشتراکی رہنما مولانا بھاشانی نے یکم جون 1970ء کو پورے ملک میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اعلان کیا تب سید مودودی نے اسلام کی عظمت و شوکت کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے پورے ملک میں “یومِ شوکتِ اسلام” منانے کا اعلان کیا۔ اور 31 مئی 1970ء کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شوکتِ اسلام مظاہرہ ہوا اور سینکڑوں جلوس نکالے گئے۔
سقوط ڈھاکہ:
جب مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی تو بھارت نے باغیوں کی مدد کے لیے مشرقی پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کردیا۔ اس وقت سید مودودی اور جماعت اسلامی نے ملک بچانے کے لیے بھارتی فوجوں، ہندوؤں اور سوشلسٹوں کامقابلہ کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں لیکن ملک نہ بچ سکا اور بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا۔ فوج نے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور تقریباًً ایک لاکھ پاکستانی فوجی اور شہری بھارت کی قید میں چلے گئے۔ بالآخر 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
امارت سے علیحدگی:
سید مودودی مسلسل خرابی صحت کی بنا پر 4 نومبر 1972ء کو جماعت اسلامی کی امارت سے علیحدہ ہوگئے۔ وہ 26 اگست 1941ء کو امیر جماعت مقرر ہوئے تھے اور قیدو بند کے وقفہ کے علاوہ 31 سال 2 ماہ اور8 دن تک جماعت کی امارت پر فائز رہے۔
تفہیم القرآن:
امارت سے علیحدگی کے بعد انہوں نے تمام تر توجہ تصنیف و تالیف کے کام خصوصاً تفہیم القرآن کی طباعت اور توسیع اشاعت پر مرکوز کردی۔ چودہویں صدی ہجری میں اس عظیم کتاب کی تالیف نے اس صدی کو یادگار بنا دیا، اس عظیم علمی خدمت کو مسلمانوں کی تاریخِ علم و ادب کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ اس کتاب نے لوگوں کی زندگیوں کے رخ بدل دیے، یہ وہاں تک پہنچی جہاں تک سید مودودی کی دیگر تصانیف نہ پہنچ سکتی تھیں۔اس نے جدید طبقے کو بھی مسخر کیا اور قدیم طبقے نے بھی اقامت دین کا سبق اس کتاب سے سیکھا ہے۔
بیرونی سفر:
1956ء سے 1974ء تک کے عرصے میں آپ نے دنیا کے مختلف حصوں کا سفر کیا۔ اپنے متعدد دوروں کے دوران انہوں نے قاہرہ، دمشق، عمان، مکہ، مدینہ، جدہ، کویت، رباط، استنبول، لندن، نیویارک، ٹورنٹو کے علاوہ کئی بین الاقوامی مراکز میں لیکچر دیے۔ انہی سالوں میں آپ نے 10عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ 1959ء اور 1960ء میں قرآن پاک میں مذکور مقامات کی جغرافیائی کیفیت کا مشاہدہ کرنے کیلئے سعودی عرب، اردن، (بشمول یروشلم) شام اور مصر کا تفصیلی مطالعاتی دورہ کیا۔ انہیں مدینہ یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں مدعو کیا گیا۔ آپ 1962ء سے اس جامعہ کے قیام تک اس کی اکیڈمک کونسل کے رکن تھے۔ آپ رابطہ عالم اسلامی کی فاؤنڈیشن کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ اور اکیڈمی آف ریسرچ آن اسلامک لا مدینہ کے بھی رکن تھے۔ آپ کی تصانیف کا عربی، انگریزی، فارسی، ترکی، بنگالی، جرمن، فرانسیسی، ہندی، جاپانی، سواحلی، تامل، تیلگو سمیت 22 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ جبکہ مدینہ یونیورسٹی، ریاض، سوڈان، مصر اور دیگر کئی ممالک میں سید مودودی کی کتابیں نصاب تعلیم کا حصہ ہیں۔
انتقال:
1979ء میں سید مودودی کے گردے اور قلب میں تکلیف ہوئی جس کے علاج کے لیے آپ ریاستہائے متحدہ امریکا گئے جہاں ان کے صاحبزادے بطور معالج برسر روزگار تھے۔ آپ کے چند آپریشن بھی ہوئے مگر 22 ستمبر 1979ء کو 76 برس کی عمر آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کاپہلا جنازہ بفیلو، ریاست نیویارک میں پڑھا گیا اور پھرآپ کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا اور لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آپ کا جنازہ قطر یونیورسٹی کے وائس چانسلر، سابق صدر اخوان المسلمون شام علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھایا۔
نوٹ:۔ مولاناؒ سے متعلق بیشتر معلومات نیٹ سے حاصل کی گئی ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں