پہلا قطرہ

اسکےہاتھ سےپوسٹنگ لیٹر لیتےہوے مینیجر نے ایک لمحہ اسے حیرت سے دیکھا پھر بیٹھنےکااشارہ کیا۔وہ خاموشی سے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔مینیجرنے لیٹر پڑھ کردفتری کارواٸی کی اور جوائننگ  لیٹر سائن کرواکے آفس سیکریٹری کو دیدیا کہ فائل میں لگادے۔اور شائستہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوا ” مس اب آپ ایزی ہوجائیں۔ آپ کا سیٹنگ ارینجمنٹ وغیرہ ہوتارہیگا“

”تھینک یو سر میں ایزی ہوں“

”یہ چادر وغیرہ اتار لیں گرمی ہے، اب تو آپ سیکشن میں ہی ہیں“مینیجر جاوید خان نے”ایزی” کی وضاحت کی۔

”نو پرابلم سر اٹس اوکے“اس نے بےنیازی مگرشائستگی سے انکی پیشکش کاجواب دیا۔

انہوں نےالجھےہوۓانداز سےاسکی عجیب وغریب بڑی ساری چادرکو دیکھا جس میں صرف اسکی آنکھیں اورہاتھوں کی انگلیاں نظر آرہی تھیں!!!!

تب آفس سیکریٹری اسمإ جوکہ اس کوپہلے سے جانتی تھی مسکراکرمزےسےبولی ”سر یہ چادرنہیں اتارینگی“

مینیجرکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں”کیا مطلب۔۔؟ یعنی ۔۔۔ یعنی کہ ۔۔۔۔ سارا دن۔۔۔؟“ وہ بوکھلا گئے!!! انکی بوکھلاہٹ پہ اسما ٕ کی ہنسی چھوٹ گئی۔مگرجاوید خان صاحب بہت مہذب اور عورتوں کی عزت کرنے والے انسان تھے۔حالانکہ ان کے مشاغل کے بارے میں لوگ اچھی راۓنہیں رکھتے تھے وہ ایلیٹ کلاس کے فرد تھے مگر انھوں ہمیشہ بہت عزت اور سپورٹ اسے دی۔

وہ اسما ٕ کے پاس بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک صاحب آۓاوراسمإ سے کچھ گفتگو کرنے لگے مگر زیادہ تردھیان اسکا جائزہ لینے پرتھا پھرواپس چلےگۓ۔اور ساتھ ہی اسکی جواٸننگ کی خبر ہال میں پہنچ گٸ۔ اسکےبعد ایک اور۔۔۔ پھر ایک اور۔۔۔پھرتو تانتاہی بندھ گیا لوگ اسے دیکھنےکوامنڈ پڑے!!!!

یوں تو مینیجرکے سیکریٹری آفس میں لوگوں کا آنا جانا رہتاہی تھاکیونکہ اس سے باہر ایک بڑاہال تھا جس میں تقریباً پچاس کے قریب لوگ بیٹھتے تھے۔ یہ ریونیو اکاونٹنگ کا مرکزی آفس تھاجس میں مختلف شعبوں کےچھوٹے چھوٹےیونٹس بنے ہوے تھے۔ جنمیں دوچیمبرز اسسٹنٹ مینیجرز کے بھی تھے۔ یہ تھا پی آٸ اے کا کارگو ریونیو ڈیپارٹمنٹ،،،،

اس چھوٹے سے ڈیپارٹ نے تو کجا پورےپی آٸ اے ہی نے کھبی ایسا” نمونہ ایمپلاٸ“ نہیں دیکھا تھا پی آٸ اے کی خواتین فیشن پرستی میں اپنی مثال آپ تھیں۔ وہاں اس عجوبے کی موجودگی ۔۔۔ ناقابلِ یقین تھی۔لوگ مختلف بہانوں سے اسکی ”زیارت“ کو آرہے تھے بہانہ کام کا بھی ہوتااور اسما ٕ سےگپ شپ کابھی کیونکہ وہ یونین ورکر بھی تھی اسلۓ اسکا حلقہٕ احباب بھی وسیع تھا۔لوگ نٸ لڑکی کے بارے فوراً ہی نہ صرف معلومات چاہتے تھے بلکہ ملاقات بھی۔۔۔ کبھی آنکھوں کے اشاروں سے اسما ٕ سےدریافت ہوتی کبھی کوٸ جراتمند ڈاٸرکٹ ڈاٸلنگ کی کوشش کرتا مگر اسکا رویہ بڑاحوصلہ شکن تھا جوکہ ایک بڑی ناگوار بات تھی۔ ایک تو یہ خوفناک چادرجسمیں وہ انتہاٸ ”جاہل“ اور ”پینڈو“لگ رہی تھی ۔ اورحلیےکی رُو سے اسکوآفس کے ماحول میں کنفیوز بلکہ اس صورتحال میں توبالکل ہی پزل ہوجانا چاہیے تھا!!!!

لیکن اسکاکانفیڈنس تھاکہ شاٸستگی کے ساتھ بےنیازی پورے حلیے پر حاوی تھی۔ دراصل وہ تو اس صورتحال کے لیے ذہنی طورپر تیار ہوکرآٸ تھی!!!! آفس کی نوکری وہ اپنی مرضی سے چھوڑ چکی تھی اور گھریلو زندگی گزارنا چاہتی تھی مگر شوہر کی وفات کے بعدخود اورتین بچوں کی کفالت نے اسے ایکبار پھردفتری ملازمت پہ مجبور کردیا تھا۔۔۔۔ اسے تو ایک گونہ لطف آرہا تھا لوگوں کی بےبسی پر۔۔۔لنچ ٹاٸم میں اسما ٕ کے ساتھ کینٹین گٸ تو لیڈیز کی حیرت کا نظارا ہوا۔ جنکے رنگ برنگے مشوروں پر بھی وہ سَر ہی دھنتی رہی مگرٹس سے مس نہ ہونےکی تو قسم ہی کھاکر آٸ تھی ۔بس اپنے پروردگار سے استقامت اورسہولت و عافیت کی دعاٸیں کرتی رہی۔آگےبڑے بڑے مرحلے آنے والے تھے۔ عورتوں نے اسے بڑی اونچ نیچ سمجھاٸ کہ اکثر لاٸیٹ چلی جاتی ہے تو سانس بھی لینا مشکل ہوجاتا ہے۔اسکے لیے شروع ہی سے ایسی چال چلو کہ بعد میں کوٸ ہنس نہ سکے۔ایک بڑا دوپٹہ سرسے اوڑھ لو صرف چہرہ کھلا رہے تاکہ سانس لینے میں آسانی ہو وغیرہ وغیرہ۔

خیرپہلادن گزرا تو دوسرابھی اس سےآسان نہیں بلکہ مشکل ہی تھا کیونکہ وہ جدھر سے گزرتی لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتی کبھی عربی طرز کاعبایا پہنے توناواقف لوگ اسے کوٸ مسافر سمجھتے جو شایدٹکٹ کا ریفنڈ لینے آٸ ہوگی۔(اس زمانے میں ہیڈآفس میں ہی ٹکٹ کاریفنڈ مل جایا کرتا تھا) اور لوگوں کے پاس کسی عورت کو ڈسکس کرنے کے لیےتو ویسے ہی بےتحاشا ٹاٸم ہوتاہے۔پھرانکی تمام ڈسکشن اس تک بڑی مستعدی سےپہنچاٸ جاتی ایک دن اسنےقیصرسے سناکہ نیچےوالے ہال کا ظفر کہہ رہاتھاکہ اس لڑکی کی شکل کیسی ہے۔(اگرچہ وہ تین بچونکی ماں تھی مگرکوٸ دیکھ کر یقین نہیں کرسکتا تھا کہ اسکی شادی تک ہوٸ ہے چہ جاٸیکہ بچے۔۔۔)” میں نے کہا اسکے ہاتھ تو نظر آتے ہیں نا بس سمجھ لو منہ بھی ایسا ہی ہے“۔کہنے لگا کہ” یار تم لوگ کسی کام کی نہیں ہو ایک زراسا برقع تک نہیں اتروا سکیں اسکا۔“

اور اسدن تو اسےرونا ہی آگیا جب مسز خان نےبتایا کے زبیر صاحب کہہ رہے تھے کہ ”ابھی تونیانیا گھر سے قدم نکالا ہے نا ذرا پی آٸ اے کی ہوا تو لگنے دو۔۔۔ اگر تین مہینے میں یہ برقع ورقع سب اتر کے ھاتھ میں نا آجاۓ نام بدل دینا!!!“ ”یا اللہ کیامیں لوگوں صدقہ خیرات پر پڑی رہتی؟ یہ اپنےپاٶں پہ کھڑےہونے اپنے بچوں کی پررش کا عزم کرنےکی راہ کتنی کٹھن ہے۔

ایک دن قیصر اپنے مخصوص متکبر لہجے میں اسکے سامنے اسما ٕ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی ”اسمإ تمنے بتایا نہیں تھا انکو پہلے سے کہ آفس میں کس طرح کے کپڑے پہنے جاتے ہیں؟“ اسما ٕ اسکی سسرالی رشتہ دار بھی تھی۔اسنے کہا ”ارے میں کیابتاونگی بھابی کو خودمجھ سےزیادہ پتہ ہے“

”پھر بھی یہ ماسیوں والے حلیے میں آجاتی ہے؟؟“قیصر حقارت سےبولی

اسنے ایک نظر غور سے قیصر کی طرف دیکھااور سوال کیا ” اسکو آفس کہتے ہیں ؟“”پھر کیا نہیں؟“وہاں موجود پانچ چھ لیڈیز نے تقریباً ایک ساتھ ہی کہا

”میں توایسے آفس میں جاب کرچکی ہوں جسکااس کھچاڑا آفس کےلوگوں نےکبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا جہاں فلموں اور ڈرامونکی شوٹنگ کی جاتی ہے۔ میں حبیب بنک پلازہ میں جاب کرچکی ہوں اور مجھے آفس ڈیکورم کا بہت اچھی طرح بتا ہے۔مینے بہت سوچ سمجھ کر یہ گیٹ اپ اختیارکیاہے۔ کیا خرابی ہے میرے کپڑوں میں؟“ اسکی آواز خودبخود تھوڑی سی بلند ہوگٸ تھی۔ حبیب پلازہ کانام سن کرسبکی آنکھیں پھیل گٸیں اور سب خاموش ہوگٸیں۔

ایک دن لیڈیز روم میں نماز پڑھنے کے بعدوہ اپنا میچنگ کادوپٹہ تہہ کررہی تھی کپڑے وہ بہترین پہن کرآتی کیونکہ تھے ہی وہی اور کلف استری وغیرہ کا بھی پورا پورا اہتمام کرتی دراصل وہ لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ پردہ کرنے والے بھی اچھا پہننا اوڑھنا جانتے ہیں اور اس میں آزاد بھی ہیں خواتین اسکے ذوق اور نفاست کی قاٸل ہوتی جارہی تھیں۔تواس دن جب دوپٹہ بیگ میں رکھ کر وہ برقع اوڑھنے لگی توایک صاحبہ بولیں” اتنے اچھے کپڑے پہن کر آنے کا فاٸدہ ہی کیا جب نظرنہ آٸیں کسی کو“اور لوگوں نے بھی ہاں میں ہاں ملادی ”ہاٸیں!!!! تمھیں کسنے بتایامیرے کپڑوں کی اچھاٸ کا۔۔۔؟؟؟“

اس نےحیرت سےخوب آنکھیں پھاڑ کر پوچھا ” لو بھلا میں خود نہیں دیکھتی کیا“

”مگر ابھی تو تم کہہ رہی تھیں کہ کوٸ نہیں دیکھتا “ اسنےمسکرا کرمعنی خیزنگاہوں سے سب کو دیکھا سب لاجواب تھیں۔ اب دوسرا وار اسکا تھا”تو کیا تم لوگ صرف مردوں ہی کے دیکھنے کو دیکھنا سمجھتی ہو؟“اب لیڈیز روم میں سبکو سانپ سونگھ گیا۔آج انھیں احساس ہوا کہ اس میں توچٹکی لینے کا بھی دم ہے۔ اسکو حقیر سمجھنا غلطی ہوگی۔

مردوں سے تو زیادہ عورتیں ہی اسکی دشمن تھیں جب مردکھلم کھلاسولہ سنگھار والی عورتوں کےاوپر طعن کستے کہ تم لوگ مردوں کو پھانسنے کے لیے بن ٹھن کہ آتی ہو وہ کہتیں کہ ہم شوہر والی ہیں شوہروں کی خوشی کے لیے سنورتےہیں تو وہ کہتے کہ یہاں کہاں تمھارے شوہر ۔۔یہاں تو ہم ہی ہیں۔۔۔ کبھی چھیڑا جاتا کہ گھر کیوں نا بیٹھتی تم لوگ؟ وہ کہتیں کہ ضرورت سے نوکری کرتے ہیں اسپرانھیں اسکی مثال دی جاتی کہ ضرورت سےنکلنے والیاں ایسی ہوتی ہیں ۔اس بات پروہ سب جل بھن کررہ جاتیں ۔ دراصل غیر مردوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے والی عورتوں کو بعض اوقات بہت زیادہ توہین آمیز چیزیں برداشت کرنی پڑتی تھیں ۔مگر برا ہو آزادی کا جسنے یہ دن دکھاۓ تھے۔۔۔پر اپنی غلطی کا احساس کرنے کےبجاۓ سب اس سے جلتی تھیں کہ اسکے ساتھ سب محتاط اورتمیز دار رہتے ہیں۔ حقیقت میں اسکے باپردہ اور خاموش رویے نے ایک رعب سا پیدا کردیا تھا لوگوں کے دلوں میں جو اللہ نےکہا ”تاکہ پہچان لی جاٸیں اور نہ ستاٸ جاٸیں“

اسمیں کوٸ شک نہ تھاکہ وہ ایک مشکل زندگی گزار رہی تھی کٸ سال تک لوگ اس انتظار میں رہے کہ اسکا خول اتر جاۓ مگر وہ پروردگارسے عافیت اور استقامت مانگتی اورپاتی رہی!!!!!!

کٸ سال اسی طرح گزرے کہ وہ راہ میں بچھےہوے کانٹے اپنی پلکوں سے چنتی رہی۔تب آہستہ آہستہ اسے محسوس ہواکہ اب لوگوں کی نگاہیں اسے دیکھ کر جھکنے لگی ہیں۔بڑی خوشگوار حیرت ہوٸ ۔ ایک دفعہ کہیں کسی عورت سےجہاز میں گپ شپ ہوٸ تویہ سنکرکہ وہ آفس میں بھی برقع ہی اوڑھے رہتی ہے عورت نے کہا کہ ہاں میرے میاں بتاتے ہیں کہ ایک عورت سارادن پورا پردہ کیے رہتی ہے اسکو کسی نے دیکھا نہیں ہے اچھا تو وہ آپ ہیں میرے میاں تعریف کر رہےتھے کہ گرمی ہو سردی مگر۔۔۔۔!!!!پردہ ہوتو ایسا۔۔اس کی آنکھوں میں شکر گزاری کے آنسو آگۓ۔”مولا دنیا اور آخرت میں سرخرو اور زمانے میں نیک نام رکھنا آمین“

اس دوران ایک دفعہ ایک اور لڑکی ویسی ہی باحجاب چادر میں اسی کے سیکشن میں آٸ اور اسکے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی اسنےسلام علیک کی نام پوچھا۔اس لڑکی نے بتایاکہ میں بھی آپکی طرح پردہ کرتی ہوں مگر مجھے کہاگیا تھا یہاں تو چہرہ کھولنا ہی پڑیگا اس لیے مینےمجبوراً کھولا ہے ۔”اب تو تمنےمجھےدیکھ لیا نا اب چاہو تو نقاب اوپر کرلو کوٸ کچھ کہے تو مجھے بتانا“اسنےٕ سرپرستانہ انداز سے کہا نورین نےفوراًہی چہرہ ڈھک لیا۔

ایکدن اسنےایک اور برقع والی کوایڈمن بلاک سے نکلتے دیکھالپک کر پاس گٸ انٹرویو لیا۔وہ کوٸ ایر ہوسٹس تھی جسنے فلاٸنگ سے ریٹاٸرمنٹ لیکرشیڈولنگ کے آفس میں پوسٹنگ کروالی تھی۔بہت زیادہ تعداد میں ایر ہوسٹسز برقع اوڑھ کرگراٶنڈہو رہی تھیں۔عام لڑکیاں بھی کبھی منگنی کبھی شادی کبھی عمرے اور حج کے بہانوں سےپردہ کرتی جارہی تھیں۔ اسے یاد آتاکہ نیلوفر فاطمی جوکہ ایک معمر اور حسین مینیجرفیسیلیٹیشن تھیں اور جنکا آفس لیڈیز ٹاٸیلیٹ کے برابر ہی میں تھا۔اسکوبڑی دلچسپی سے دیکھا کرتیں۔ایکدن واشروم سے نکل کر اسنے ہاتھ دھوۓ اور ڈراٸر کے نیچے کرتے ہوۓ ان پہ نگاہ پڑی تو وہ کہنے لگیں”میں تو یہ ایک دوپٹہ بھی باھر اتار کر جاتی ہوں کہ گیلا نہ ہو جاۓ اور تم اتنا بڑا برقع کیسے بچالیتی ہو؟“اسکےبادامی رنگ کے برقع پر اگر ایک قطرہ بھی لگتا تو نمایاں نظرآتا۔” تمکو دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ میں بھی ایسا ہی پہن لوں۔“”پھر سوچنا کیا بسم اللہ کیجۓ“ اسنے خوش ہوکر محبت سے کہا ” اب انسٹھ سال کی عمر میں؟ ابتو لوگ کہینگے کہ نوسو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی“ ایک ٹھنڈا سانس نہ چاھتے ہوۓ بھی انسے نکل ہی گیا۔

وقت کاپہیہ گھومتارہا۔ پردہ کرنے والیوں کی تعداد بڑھتی رہی ۔آج وہ اپنی ریٹاٸرمنٹ کے کٸ ماہ بعد آفس گٸ کسی کام سےفون کرنا تھا ایک کیبن میں فون تھاوہ بڑھی” ایکسکیوزمی فون کرلوں“”آف کورس“ لڑکی نے گھوم کراسے دیکھا ”ارے میڈم آپ؟“ تو وہ بھی حیران ہوگٸ ”ارے ارم تمنے بھی عبایا لےلیا؟ “اسکا رواں رواں خوشی سے جھوم اٹھا۔!!!!!!

سب سے ملتے باتیں کرتے پتہ ہی نہ چلا کہ شام ہوگٸ جس آفس میں عورتیں اسے خونخوار نگاہوں سے گھورتی تھیں وہیں آج دورسے دیکھ کر لپکی آرہی تھیں۔ جو نٸ تھیں وہ تعارف لے رہی تھیں ہاں ہم نے آپ کا کافی ذکر سناہے آفس میں۔ باہر نکلے تو برقع ، عبایا،اسکارف ہی کی بہارتھی ہر طرف!!!!چوتھاٸ صدی میں یہ فصل تیار ہوٸ تھی۔

سینکڑوں پردے دارخوتین میں

کھلے سر اور بےحجاب لوگوں کی گنتی پندرہ بیس سے آگے نہ بڑھ پارہی تھی۔اسکی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آگۓ ۔۔۔ پروردگار تیری کاٸنات میں تیرا حکم چلتا ہے تو جب اور جہاں کا چاہے نظام بدل دے بےشک اس ادارے کے ماحول کو بدلنا تیرا ہی کام تھا تونے اس ناچیز گناہ گار کو بارش کا پہلا قطرہ بننے کی سعادت عطافرمادی۔وہ جو اس نوکری کوخداکی طرف سے اپنے لیے سزا سمجھتی تھی آج اپنے نصیبوں پر نازاں وشکرگزار تھی۔یہ تھی پی آی ای کی پہلی برقع پوش خاتون طاہرہ فاروقی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں