دروغ بر گردنِ راوی

کہتے ہیں تاریخ کی صحت کا اندازہ کتاب کی ضخامت سے نہیں راوی کے سکہ بند ہونے سے لگایا جا تا ہے اور اچھا راوی وہ ہوتا ہے جو”سکے“ لے کر تاریخ قلم بند کرے۔اس لئے کہ اگر تاریخ کو تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو تاریخ رقم کرنے کے لئے بھی ”رقم“کی ضرورت پڑتی ہے،مشہور روایت ہے کہ جب اکبر، شہزادہ سلیم کی محبت کے جرم کی پاداش میں انارکلی کو اس کی کلیوں کی سی خوبصورتی سمیت دیوار میں چنوا رہا تھا تو سلیم کسی چناؤ کی تشہیری مہم یا میدان کارزار میں نہیں تھا بلکہ کسی بائی کے کوٹھے پر وقت گزاری فرما رہا تھا جب اس بابت شہزادہ سلیم سے دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے کہ بخدا تاریخ گواہ ہے ہم نے ایسا نہیں کیا مگر یاد رہے کہ تاریخ بھی اس کے باپ نے ہی رقم کروائی تھی۔ جس طرح”راوی“گھنجلدار بجھارت کی طرح بل کھاتا ہوا بہہ رہا ہے اسی طرح راوی بھی تاریخ کے حالات وواقعات کو آپس میں ایسے الجھائے رکھتا ہے کہ تاریخ کی ”تاریخ“کا سرا محال ہو جاتا ہے۔
آپ نے ضرور سن رکھا ہوگا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اس کا عملاً تجربہ تب ہوا جب میں نے تاریخ کے استاد جو میرے بھی استاد رہ چکے تھے سے پوچھا کہ سر میرا بیٹا تاریخ میں کیسا ہے تو انہوں نے بس اتنا ہی کہا کہ ”بس یوں سمجھو تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے“اس دن سے مجھے آسکر وائلڈ کے اس قول کو سند عطا کرنا پڑی کہ تاریخ کو re writeکرنا چاہئے،لیکن تاریخ کو re write کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مورخ right ہو،اور قوموں کے rites کو پہچانتا بھی ہو۔اکثر بادشاہوں نے تاریخ ”رقم“دے کر رقم کروائی ہے وگرنہ دروغ بر گردنِ راوی کی بجائے بر گردنِ شہزادے اور بادشاہ ہوتا۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بادشاہوں نے اتنی توجہ تاریخ مرتب کروانے میں نہیں دی جتنی شادیوں اور جنگی چالوں پر۔حیرت یہ ہے کہ شادیاں اور جنگیں ساتھ ساتھ ہی چلتی رہیں،کسی علاقے کو فتح کیا تو شادی،کوئی دوشیزہ پسند آگئی تو شادی،کبھی کبھار تو کچھ نہ بھی ہوتا تو سوچ لیتے کہ چلو کچھ نہ کرنے سے تو بہتر ہے کہ ایک اور شادی کر لی جائے۔کچھ بادشاہ تو جنگی فتوحات کم اور شادیاں زیادہ کرتے رہے ہیں اگر ان سے پوچھ لیا جاتا کہ آپ کی خدمات کیا ہیں توفخر سے بتاتے کہ”بے بہا“شادیاں،ظاہر ہے ایسی شادیوں کا نتیجہ بھی تو بے تحاشہ بچے ہی ہونا تھا نا۔
چونکہ میرا تعلق اس مضمون سے خاص ہے کہ میں عرصہ بیس سال سے پاکستان کی تاریخ بطور مضمون پڑھا رہا ہوں تو مجھے تاریخ پر خصوصی توجہ دینا پڑتی ہے خاص کر جب بچے مجھ سے یہ پوچھیں کہ ”سر آج کیا تاریخ ہے“۔ایک بار کسی بچے نے مجھ سے کلاس میں پوچھا کہ سر تاریخ کا کیا فائدہ ہے تو میں جھٹ بولا آپ کو ہو نہ ہو مجھے ہر ماہ اسی کی تنخواہ ملتی ہے۔یعنی تاریخ والے کا مستقبل کبھی تاریک نہیں ہوتا۔کتب التواریخ میں اکثر املا کی غلطی سے واسطہ رہتا ہے وہ اس لئے کہ جب رقم دے کر تاریخ رقم کروائی جائے گی تو پھر تاریخ کی کتابوں پر”نذر ثانی“شدہ ایڈیشن ہی لکھا ملے گا۔
علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ”تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے“جھلا، تھا،نہیں جانتا تھا کہ جس قوم کے پاس حافظہ ہی نہیں وہ تاریخ کے حافظ کیسے ہوسکتے ہیں۔حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ہماری تاریخ بھی تاریک ہوتی جا رہی ہے۔ایک بار کلاس میں پڑھاتے ہوئے میں نے کہہ دیا کہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے،ایک بچہ رونی صورت لے کر کھڑا ہوگیا کہ سر ”اب ہمیں ایک اور سبق بھی پڑھنا پڑے گا“۔برصغیر میں سب سے زیادہ مغل حکمرانوں کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے،کچھ طالب علم تو ا ن کی ہسٹری پڑھتے پڑھتے ہسٹریائی کیفیت میں بھی چلے جاتے ہیں۔جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغلوں نے صرف دو ہی کام کئے ایک ہسٹری لکھواتے رہے اور دوسرا شادیاں رچاتے رہے۔موجودہ دور میں جب مغل اپنا شجرہ نسب مغل حکمرانوں سے ملاتے ہیں تو ان کی وجاہت و شباہت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اگر مغل ایسے ہی تھے تو پھر اصل مغلوں کا تو بیڑہ ہی غرق ہوگا،ہو سکتا ہے کہ اگر اصل میں مغل حکمران انہیں دیکھ لیں تو انارکلی کی طرح انہیں بھی دیوار وں میں چنوا دیں۔
سیاسی جلسہ کے دوران ایک سیاسی لیڈر رات گئے تک پرجوش انداز خطابت میں فرمارہے تھے کہ بخدا میری سیاسی تاریخ گواہ ہے،کہ اتنے میں ایک بڑے بزرگ اٹھے اور فرمایا کہ سرآپ کے پیچھے لگے ہوئے کیلنڈر کی تاریخ کی طرح آپ کی تاریخ بھی بدل چکی ہے ہو سکے تو کسی نئی پارٹی سے سمجھوتہ کر کے نئی تاریخ رقم کروالیں وگرنہ مخالف پارٹی ”رقم“لگا کر نئی تاریخ رقم کروا لے گی۔ہماری تاریخ اور جمہوریت میں کوئی خاص فرق نہیں کلاس میں استاد محترم پوچھ رہے تھے کہ غزنوی نے سومنات پر کتنے حملے کئے،سترہ یا بیس،کثرت رائے سے طے پایا کہ بیس حملے کئے تھے اسے کہتے ہیں تاریخ کا دھارا بدل دینا۔میری دیوار پر لگا کلاک بھی مجھے اشارہ دے رہا ہے کہ تاریخ بدلنے والی ہے پوری قوم کی طرح آپ بھی قلم کاغذ ایک طرف رکھیں اور لمبی تان کر سو جائیں مبادا قوم بیدار نہ ہوجائے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

1 تبصرہ

  1. Aw, this was a really nice post. Taking the time and actual effort
    to make a great article… but what can I say… I put things off a lot and never
    seem to get anything done.

جواب چھوڑ دیں