مولانا کیسے بچ گئے۔۔؟

ہمارے ملک میں ایک بہت ہی  قابل تعریف و فخر یہ  چیز  نہ جانے کیوں ہر طبقے کے لئے ڈراؤنی بنتی جارہی ہے۔ دھوکا  دو ، عوام کو لالی پاپ دے دو کوئی مسئلہ نہیں  ، یو ٹرن تو رہا ،اگر ڈبل یو ٹرن بھی لے لو تو بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، جھوٹ بولو اور دبا کر بولو تو یہ سیاست ہے، اور جھوٹ دھوکا  جمع ہو جائے تو یہ اس  دور کی سیاست کا بادشاہ ہے، جو آدمی جتنی صفائی سے کسی کو دائیاں دکھا کہ بائیاں لگا سکتا ہے اس کے چرچے ہی چرچے ہیں۔ کوئی ڈاکو ہے تو کوئی چور  ، سود کے بازار گرم ہیں لیکن زبانیں تالو سے چپکی ہیں، شراب کے خلاف غیر مسلم آواز اٹھا رہا ہے لیکن  یہاں کا نام نہاد مسلمان اس آواز کو دبانے کی سر توڑ کوشش کرتا  نظر آتا ہے، بے حیائی و جنسی تشدد کے آئے روز دل دھلا دینے والے واقعات  سننے کو ملتے ہیں، بس مذمت کر لو کافی ہے کیونکہ  سب چلتا ہے۔ سوائے اس کے کہ  کوئی مذہب کی  بات  نہ کرے، اور نہ ہی مذہبی حلیہ اپنائے،   کوئی دین  کی بات نہ کرے، کوئی اسلام کی بات نہ کرے، کہ  جب تم مذہب  یا مذہب کے کسی حکم کی بات کرتے ہو تو یہ ہمارے سینے  میں خنجر مارنے سے  بڑھ کر ہے، کبھی اسے مذہبی سیاست کا عنوان دے کر نا جانے کیوں  لوگ اس بات کا سرعام اقرار کر رہے ہیں کہ ہم مذہبی سیاست کو نہیں مانتے۔ کوئی مولوی ٹائپ اگر سیاست میں آتا ہے تو  سارا منظر کچھ اس طرح کا لگتا ہے جیسے گیدڑ وں کی مجلس میں شیر کی انٹری ہو،   اور اس کے بعد کوئی  گیدڑ قریب بھٹک نہیں سکتا، اور دور رہ  کر بھی اس کی دہشت کو دماغ سے جھٹک نہیں سکتا ۔ بس کچھ ایسے ہی مناظر آج کل بھی کہیں نہ کہیں نظر آرہے ہیں۔  اسی ہلچل میں ہماری نظر ایک ایسے انسان پر بھی پڑتی ہےجس کے متعلق  اکثر   کا  گمان  تھا اور ہے بھی  کہ یہ شخص  صلحا کا لباس زیب تن کر کے بہت سی کرپشن بھی کر چکا ہے، مذہب کا نام لے کر بد مذہبی پھیلا رہا ہے،  بہت سی جائیدادوں پر بھی قبضے جما چکا ہے، اور جس وزارت پر براجمان تھا اس کے بھی خوب مزے لوٹے،  اور  مذہب کارڈ دکھا کر کچھ نہ کچھ ووٹ بھی معصوم لوگوں سے  ہتھیا لیے۔  لیکن آج   انصاف و تبدیلی کے اس دور دورے میں  میری آنکھیں ایک برس سے  ترس  رہیں  ہیں نا جانے کب وہ شخص جو پارلیمینٹ کا حصہ بھی نہیں، اور دوسروں کی بنسبت  اس پر شکنجہ کسنا بھی کوئی مشکل نہیں، اور الزمات کی تار بھی اتنی طویل کہ نہ  کوئی صحافی اس تار کو ٹوٹنے دیتا ہے اور نہ ہی کوئی  سیاسی، لیکن اس کے باوجود وہ   پورے ملک میں دندناتا  پھر رہا ہے، جہاں چاہتا ہے جلسہ بھی کر لیتا ہے اور  بڑوں بڑوں   کی ایسی درگت بناتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بھی اسی کے دامن کو جاہ پناہ تصور کرتے نظر آتے ہیں۔  لیکن اس کے باوجود اس شخص کی زبان کو لگام دینے کی کسی میں  جراءت  نہیں ،  وہ جب بھی کوئی اعلان کرتا ہے تو   نہ جانے کیوں ہر طبقہ میں کھلبلی مچا دیتا ہے۔ میں خود کو ٹالتا رہا اور یہ امید لگا  کر انتظار کرنے لگا کہ  چلو آج نہیں تو کل اس کے  تمام جرائم میں اسے سزا ملے گی اور وہ بے نقاب ہو جائے گا۔ لیکن اتنے طویل انتظار کے بعد بھی  اس کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر نہیں آیا،  اور اگر اہل حلم و دانش کی عقل مستعار لے کر اگر اس بات سے اتفاق  کیا جائے   تو شاید یہ بات غلط نہ ہوگی کہ  آج  اگر بے خوف اور دلیرانہ  بات کرتا کوئی نظر آتا ہے تو  ان میں سر فہرست آپ کے ذہن میں اسی شخص کا حلیہ  آئے گا ۔  لیکن اس کے باوجود ہمارے صحافی اور اینکر پرسن جو ہر معاملہ کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہیں،  نا جانے کیوں  اس منظر سے چشم پوشی کرتے نظر  آتے ہیں کہ ملک میں جہاں اتنی پکڑ دھکڑ ہو رہی  ہے، کرپشن کا صفایا ہو رہا،  لیکن اس شخص کے قریب کوئی بھٹک بھی  نہیں سکتا، حالانکہ وہ شخص حکومت کا سب سے سخت حریف  بھی ہے اور الزامات بھی سلاخوں کے پیچھے جانے والوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ رات کو کسی نیوز چینل پر  جہاں  کسی بھی مسئلہ پر ایک گھنٹہ کا پروگرام ہوتا ہے بڑے بڑے نامور  تجزیہ کار اپنی آراء سے عوام کو مستفید کرتے ہیں۔ وہ اس معاملہ پر بحث کیوں نہیں کرتے  کہ آیا  وہ شخص جسے “مولانا” کے لقب سے عام طور پر یاد کیا جاتا ہے ،  اس پر لگائے گئے الزامات کی اصل وجہ کیا ہے، کیا وہ محض الزام ہیں یا ان کی کوئی حقیقت بھی ہے۔  اگر ہے تو کیا ہے اور اگر نہیں تو پھر یہ الزام کیا صرف مذہب کا نام لینے  کی وجہ سے لگائے گئے۔ اور اگر معاملہ ایسا ہی ہیکہ  کہ مذہب سے بہت چڑ ہے، تو یہ بات بھی  معلوم ہونا ضروری ہیکہ کہ  دھوکہ کی سیاست  کالعدم قرار دے کر ، اگر حقیقی سیاست کو دیکھا جائے تو وہ مذہب کا ایک حصہ ہے، لہذا سیاست کو مذہب سے یا مذہب کو سیات سے جدا قرار  دے کر جو سیاست کرنا چاہتے ہیں اور بڑے فخر سے خود کو جدی پشتی سیاستدان قرار دیتے ہیں  انہیں قائد کے اس فرمان کو بھی دیکھنا ہوگا  ” کہ میں سمجھتا ہوں اسلام میں مذہب اور سیاست الگ الگ نہیں، بلکہ سیاست مذہب کے تابع ہے” اور جو لوگ دین کو سیاست سے جدا مان کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سیاست کر رہے ہیں، تو حقیقت میں وہ چنگیزی میں مبتلا ہیں  بقول شاعر :

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں