دین سراسر اخلاق ہے

پچھلے دنوں ایک مشہور معروف ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں ایک رات اور شام گزارنے کا تجربہ ہوا۔یقین جانئے سوائے افسوس اور ہدایت کی دعا مانگنے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ کراچی میں اتنا کچرا کیوں ہے یہ بھی سمجھ آیا۔ آپ سوچتے ہونگے کیسے؟ تو اس کا جواب ہے۔ دین کی کمی گویا اخلاقیات کا فقدان۔ ذہنوں اور نیتوں کا فتور جو سراسر بگاڑ اور فساد کے سوا کچھ نہیں۔
وہاں چپڑاسی سے لیکر ڈاکٹرز اور بڑے ڈاکٹرز یہاں تک کہ پیرا میڈیکل اسٹاف کو بھی اخلاق سے عاری پایا۔ ہزاروں روپے لیکر مریضوں اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ وہ سست روی اور لا پرواہی کا برتا ؤ کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! بندہ نہ مرتا ہو تو اپنا اور دیگر متعلقہ افراد کا بلڈ پریشر بڑھا کر مزید مرض کو بڑھا کر بھی نہ درست ہو۔ رویے اتنے روکھے، ٹائمنگ اتنی آؤٹ، ڈاکٹرز کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ بیڈ بھی خالی ہیں یا نہیں؟ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی مریضوں کو اذیت دی جاتی ہے بلاوجہ رکوا کر بل بنائے جا تے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مریض کو کہتے ہیں کہ ابھی ڈرپ ختم ہوتی ہے تو آپکا ایک معمولی ٹیسٹ ہوگا اور پھر آپ کی چھٹی ہوجا ئے گی ذرا ڈا کٹر را ؤنڈ پر ہیں وہ دیکھ لیں۔ مریض بے چارہ انتظار میں ہوتا ہے کہ نئے نئے مریض آتے ہی رہتے ہیں ڈا کٹر صاحب کا را ؤنڈ گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے وہ آکر ہی نہیں دیتے یہاں تک کے دوبج جاتے ہیں انتہائی گزارش پر آکر کہتے ہیں آ پ کا ٹیسٹ ہوگا گھنٹے بعد رپورٹ آئے گی پھر بتائیں گے کسی کو صحیح بات کا علم ہی نہیں ہوتا سوچیں جن کے پاس گاڑی بھی ہو ڈرائیور بھی اسے گھر بھی جانا ہو گا اس کا بھی گھر بار ہو گا۔مریض کے گھر والے کس مشکل میں لمحہ لمحہ گزارتے ہیں اس کی کسی کو فکر نہیں ہوتی۔ان کی اس کوفت کا کوئی احساس نہیں ہوتا، ایک نہیں دو نہیں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اسی طرح ڈاؤ لیب کا حال ہے کہ الٹرا ساؤنڈ کروانے جائیں تو پتا چلا صبح سات بجے نمبر ملتے ہیں وہ بھی مخصوص اس کے بعد آنے والوں کو نمبر نہیں ملتے دور دور سے بھوکے پیاسے مریض آتے ہیں تو فرماتے ہیں نمبر بٹ چکے،کب کیسے؟نہیں معلوم پھر وہی لڑائی جھگڑا کہیں کوئی نظام نہیں احترام آدمیت نہیں چور مچائے شور والی بات ہے یہ سب خوف خدا نہ ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ ایک دوسرے کے درد کا احساس کریں۔ آسانی دیں صبرو تحمل کے ساتھ مریض اور مریض کے متعلقہ لوگوں کے ساتھ سلوک کریں تو کیا یہ ایک اچھے پڑھے لکھے شہری اور مسلمان کا شیوہ نہیں؟ ڈگریاں اور اخلاقیات الگ الگ نہیں، جو جتنا تعلیم یافتہ ہو اس کو اتنا ہی عاجز اور منکسر ہمدرد اور خیر خواہ ہونا چاہئے کہ آدھی بیماری صرف مریض کی شفقت سے ہی دور ہوجاتی ہے۔ تعلیم تو مہذب بنانے کیلئے دی جاتی ہے۔ یہ فرق تواب صرف پیسے سے وقتی اور عارضی ہوکر رہی گیا ہے۔ وہ تو بات بھی کرنا پسند نہیں کرتے۔ اتنے منظم طریقے سے اداکاری کرتے ہیں کہ کیا کہوں؟ وقت کی قدر ہر کسی کو ہونی چایئے مشہور و معروف ڈاکٹرز کا وقت اہم ہے اتنا ہی اہم مریض اور متعلقہ افراد کا ہے کیونکہ وہی اس کی زندگی کے قیمتی لمحات ہیں۔ اس کا زیاں گویا قیمی زندگی کا زیاں ہے۔ان وقتوں میں ہونے والی ہر اچھائی یا برائی کا آپ کو جواب دینا ہو گا اس کے لئے آپ کا ضمیر ہی کافی ہے۔آپ اگر ایسا نہیں کر رہے تو اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ایک مریض کو دیکھا جب بڑے ڈاکٹر نے چھوٹے ڈاکٹر سے پوچھا جو عین چھٹی کے وقت دوبارہ درد کی شکایت کر رہا تھا کہ آپ نے روزمرہ کی دوائیاں تینوں وقت لیں؟ اس نے کہا نہیں! بڑے ڈاکٹر نے چھوٹے ڈاکٹر سے کہا کہ ان کو معمول کی دوائیاں کیوں نہیں دی گئیں؟ اس لئے ان کا درد بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے فوراً اس کے متبادل انجکشن منگوا کر لگوانے کی ہدایت کی اور صبح تک رہنے کا مشورہ دے کر چلے گئے،انجکشن گھنٹے کے بعد آیا۔ بہرحال مریض کی تکلیف کم ہوگئی مگر روم نہ دے کر مزید اذیت اور ذہنی کوفت پہنچائی گئیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ کیا اس طرح کی حرکات انہیں زیب دیتی ہیں؟ جب ان پڑھے لکھے لوگوں کا یہ حال ہے تو عام عوام کی حا لتوں کا اللہ ہی حافظ ہے اس لئے ہم سب کو سب سے پہلے دین سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے کہ دین سراسر اخلاق ہے خیر خواہی ہے ورنہ ایک دوسرے پر ظلم ہے جبر ہے۔ دادا گیری ہے بے راہ روی ہے اور میں کبھی بھی نہ چاہوں گی کہ میرے وطن کے پڑھے لکھے یہ لوگ دین سے عاری، اخلاق سے عاری اور دنیا پر بھاری ہوں۔ اللہ انہیں ہدایت دے (آمین)

حصہ

1 تبصرہ

Leave a Reply to طاہرہ فاروقی