حسد

حسد ایک قدیم اخلاقی برائی ہے، یہ اس جذبے اور احساس کا نام ہے جس میں حاسد کسی شخص کی قوت، کسی خاص خوبی، ملکیت، یا غلبے کے زوال کا متمنی ہوتا ہے،  اور چاہتا کہ کہ وہ چیز اس سے چھن کر مجھے مل جائے، اور کبھی وہ کسی سے محض ان نعمتوں کی محرومی کا خواہش مند ہوتا ہے۔حسد میں دوسروں سے نعمتیں چھن جانے کی تمنا کا عنصر غالب ہوتا ہے۔

حسد کی تعریف:

”حسد“ میں حاسد اس امر کا متمنی ہوتا ہے کہ صاحبِ نعمت یا فضیلت کی یہ خوبی اس سے چھن کر اسے مل جائے، یا دونوں ہی اس سے محروم ہو جائیں۔ (یعنی اگر مجھے نہیں بھی ملتی تو دوسرے کے پاس بھی نہ رہے۔)

”غبط“ میں آدمی  کا جذبہ اس کے برعکس یہ ہوتا ہے کہ صاحبِ نعمت جیسی نعمت حاصل کرنے کی تمنا کرے لیکن وہ یہ نہ چاہے یہ نعمت اس  سے چھن جائے۔(لسان العرب، ابن منظور)

حسد کی بنیاد  حاسد کی دشمنی کا میلان ہے جو کینے اور غضب کے نتیجے میں محسود سے پیدا ہوتاہے۔

حسد دو طرح کا ہوتا ہے:

۱۔ حاسد دوسرے کی نعمت مال، علم،مرتبہ اور سلطنت کے زوال کی تمنا کرے اور یہ کہ وہ اسے حاصل ہو جائے۔

۲۔ دوسرے کی نعمت کے زوال کی تمنا کرے، چاہے اسے ملے یا نہ ملے، اور یہ بدترین حسد ہے۔

رشک اور حسد میں فرق:

رشک ایک مثبت جذبہ ہے جس میں حسد کا عنصر نہیں پایا جاتا، رشک کرنے والا یہ تمنا کرتا ہے کہ اسے  صاحب ِ فضیلت جیسی نعمتیں ملیں مگر وہ اس کو عطا  نعمتوں کے زوال کی خواہش نہیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

”لا حسد الّا فی اثنتین: رجل آتاہ اللہ مالاً  فسلّطہ علی ھلکتہ فی الحقّ، ورجل آتاہ اللہ الحکمۃ فھو یقضی بھا ویعلّمھا“ (رواہ بخاری)

(دو آدمیوں پر رشک ہونا چاہئے، ایک وہ جسے اللہ تعالی مال عطا کرے اور وہ اسے جائز جگہوں میں خرچ کرتا ہے، اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالی علم (وحکمت) کی دولت عطا کرے اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا اور تعلیم دیتا ہے۔)

حسد رزائلِ اخلاق میں سے ہے۔  یہ ایسی خصلت ہے جو مسلمان کے شایان ِ شان نہیں، کیونکہ وہ سب انسانوں کے لئے بھلائی چاہتا ہے، اور اپنے پر دوسروں کو فوقیت دیتا ہے، اسی وجہ سے وہ حاسد نہیں ہوتا، اور نہ حسد اس کی صفت ہے، وہ نیکی سے محبت کرتا ہے اور ایثار کی صفت اپناتا ہے،  اور اللہ کی اس تقسیم پر راضی رہتا ہے جو اس نے بندوں کے درمیان کر دی ہے، لہذا وہ نعمتیں پانے والوں سے دشمنی نہیں برتتا، نہ اس پر اس کا دم گھٹتا ہے، نہ کینہ پروری کرتا ہے۔

بنی آدم کا سب سے بڑا حاسد  ابلیس لعین ہے،  کیونکہ اللہ تعالی نے آدم کو زمین میں اپنا  نائب مقرر کر کے تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی اور جب فرشتوں کو آدمؑ کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا،اور اس پر پھٹکار پڑی اور جنت سے نکال دیا گیا،  یہی سبب ہے کہ ابلیس انسانوں سے حسد کا شکار ہوا اور وہ قیامت تک کوشاں ہے کہ انسانوں کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا کر اس مقام سے گرا دے۔

سلف صالحین میں سے کسی کا قول ہے کہ حسد پہلا گناہ ہے جس کی بنا پر آسمانوں پر اللہ کی پہلی نافرمانی کی گئی، اور زمین پر پہلا کبیرہ گناہ (قتل) بھی اسی کی بنا پر ہوا۔آسمان پر ابلیس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا اور زمین پر پہلا خون اسی بنا پر ہوا ہے کہ آدم کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی بنا پر قتل کر دیا۔ (نضرۃ النعیم، ج۰۱، ص۷۲۴۴)

قرآن کریم ان کا قصّہ بیان کرتا ہے:

(واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحقّ، اذ قرّبا قرباناً فتقبّل من احدھما ولم یتقبّل من الاخر، قال لاقتلنّک، قال انّما یتقبّل اللہ من المتقین) (المائدۃ: ۷۲)

(اور انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصّہ بھی بے کم و کاست سنا دو، جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا: ”میں تجھے مار ڈالوں گا“۔ اس نے جواب دیا: ”اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے“۔) قابیل حسد کی آگ میں اندھا ہو گیا، اور اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، یہ نہ دیکھا کہ بھائی کی قربانی قبول ہونے کا سبب تقوی ہے۔

برادران ِ یوسف کے دلوں میں بھی اسی حسد کی بیماری نے آگ لگائی تھی،  اور انہیں یوسفؑ کے قتل کرنے پر آمادہ کیا تھا:

(اذ قالوا لیوسف و اخوہ احبّ الی ابینا منّا ونحن عصبۃ۔ انّ ابانا لفی ضلال مبین ٭ اقتلوا یوسف او اطرحوہ ارضاً یخل لکم وجہ ابیکم وتکونوا من بعدہ قوماً صالحین) (یوسف: ۸۔۹)

(اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا: ”یہ یوسفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں، حالانکہ ہم ایک پورا جتھہ ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابّا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں۔ چلو یوسف کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو، تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد نیک بن رہنا“۔) اور پھر انہوں نے یوسفؑ اور انکے باپ  (حضرت یعقوبؑ)کے درمیان تفریق کی تدبیر مکمل کر لی، اور حاسدانہ کاروائی کر ڈالی۔

قرآن ِ کریم نے یہودیوں کے حسد کو کئی مقامات پر بیان کیا ہے، اور اس حسد کا سبب یہ تھا کہ امامت بنی اسرائیل سے چھین کر بنی اسماعیل کی جانب منتقل کر دی گئی تھی، اور اس انعام سے محرومی پر یہودی غیض و غضب کا شکار ہو کر حسد میں مبتلا ہو گئے تھے، ان کی کیفیت کو اس طرح بیان کیا گیا:

(ام یحسدون النّاس علی ما اتاھم اللہ من فضلہ، فقد اتینا ال ابراہیم  الکتاب والحکمۃ واتیناھم مّلکاً عظیماً) (النساء:۲۵)

(پھر کیا یہ دوسروں سے اس بنا پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہوکہ ہم نے اولادِ ابراہیمؑ کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا۔)

یہود اس بات کے حریص تھے کہ اہل ِ ایمان کسی طرح نعمت ِ ایمان سے محروم ہو کر کفر کی جانب پلٹ جائیں، ان کے حسد کو اللہ تعالی نے یوں بیان کیا:

(ودّ کثیر مّن اھل الکتاب لو یردّونکم مّن بعد ایمانکم کفّاراً، حسداً مّن عند انفسہم مّن بعد ما تبیّن لھم الحقّ،) (البقرۃ: ۹۰۱)

(اہل ِ کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیرکر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں، اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے۔)

اسی بنا پر قرآن کریم میں حاسدوں کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ میں آنے کی تلقین کی۔

(ومن شرّ حاسدٍ اذا حسد) (الفلق:۵)

(اور حاسد کے شرسے جب وہ حسد کرے۔)

یعنی حسد کی بنا پر کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، کیونکہ حاسد ہر وقت اپنے بھائی سے نعمت چھِن جانے کا متمنی ہوتا ہے، اور اسے جب بھی موقع ملے وہ اسے شر اور ضرر پہنچانے سے نہیں چوکتا۔

قرآن ِ کریم، منافقین کے حسد کا پردہ بھی چاک کرتا ہے:

(ان تمسسکم حسنۃ تسؤھم، وان تسبکم سیّءۃ یفرحوا بہا،) (آل عمران: ۰۲۱)

(تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔۔)

قرآن کریم میں حسد سے بچنے کی ایک عمومی تعلیم دی گئی ہے:

(ولا تتمنّوا ما فضّل اللہ بہ بعضکم علی بعض،) (النساء:۲۳)

(اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔)

اس آیت میں ایک بڑی اہم اخلاقی ہدایت دی گئی ہے، جسے اگر ملحوظ رکھا جائے تواجتماعی زندگی میں انسان کو بڑا امن نصیب ہو جائے۔ اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے اور ان میں بے شمار حیثیتوں میں فرق رکھے ہیں، کوئی خوب صورت ہے، اور کوئی بدصورت، کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز، کوئی سلیم الاعضاء ہے اور کوئی معذور، کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتیں زیادہ دی گئی ہیں اور کسی کو کم، کسی کو کوئی قوت دی اور کسی کو کوئی اور، کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا گیا اور کسی کو بدتر حالات میں۔ کسی کو زیادہ ذرائع دیے گئے اور کسی کو کم، یہی فرق و امتیاز عین مقتضائے حکمت ہے۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مصنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کرتا ہے، وہاں ایک نوعیت کا فساد برپا ہوتا ہے، اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں ایک دوسری نوعیت کا فساد برپا ہوتا ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت میں اپنے سے بڑھا ہوا دیکھے، بے چین ہو جائے، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت،  مزاحمت  اور کشاکش کی جڑ ہے، اسی  ذہنیت سے اللہ بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے، کہ جو فضل اللہ نے دوسروں کو دیا ہو اس کی تمنا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دعا مانگو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لئے مناسب سمجھے گا عطا فرما دے گا۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۷۴۳۔۸)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”انّ بدلاء امّتی لم یدخلوا الجنّۃ بکثرۃ صلاۃ ٍ ولا صومِِ ولا صدقۃٍِ، ولکن دخلوھا برحمۃ اللہ وسخاوۃ الانفس وسلامۃ الصدور“ (حدیث مرفوع، باب ترغیب، اولیاء ابن ابی الدنیا)

(میری امت کے ابدال زیادہ نماز، روزے اور صدقے کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہوں گے بلکہ اللہ کی رحمت، اپنے نفس کی سخاوت اور سینے کی صفائی کی وجہ سے داخل ہوں گے۔)

سنت میں حسد کے دلائل

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”ایاکم والظن؛  فانّ الظنّ اکذب الحدیث،  ولا تحسّسوا، ولا تجسّسوا، ولا تنافسوا، ولا تحاسدوا،  وکونوا عباد اللہ اخواناً“۔ (رواہ بخاری، ۴۶۰۶)

(گمان سے بچو، کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے، اور کھوج نہ لگاؤ، اور تجسس نہ کرو، اور باہم مقابلہ بازی نہ کرو، اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اے اللہ کے بندو، بھائی بھائی بن جاؤ۔)

ابن حبان نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”لا یجتمعان فی قلب عبد: الایمان والحسد“۔ (صحیح النسائی، ۹۰۱۳)

(بندے کے دل میں دو چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں: ایمان اور حسد۔)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”ایّاکم والحسد، فانّ الحسد یاکل الحسنات، کما  تاکل النّار الحطب“ (سنن ابی داؤد، ۹۳۰۵)

(حسد سے بچو، یہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”لا یزال النّاس بخیر ما لم یتحاسدوا۔“ (رواہ الطبرانی)

(لوگ خیر پر قائم رہیں گے جب تک وہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرنے لگیں۔)

حضرت زبیرؓ سے روایت ہے، کہ آپ ؐ نے فرمایا:

”دبّ الیکم داء  الامم قبلکم؛ الحسد والبغضاء،  والبغضاء ھی الھالکۃ، لا اقول تحلق الشعر، ولکن تحلق الدین“ (رواہ الترمذی)

(پہلی امتوں کی بیماری آہستہ آہستہ تمہاری طرف سرکتی آ رہی ہے، حسد اور بغض، اور بغض تو مونڈھنے والا مرض ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بال مونڈھنے والا ہے، بلکہ وہ دین کو مونڈھ دینے والا ہے۔

اصمعی کا قول ہے: حاسد ہمیشہ نقصان میں رہتا ہے، جبکہ محسود کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا، اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے، حاسد خود اپنا دشمن ہے، وہ ہمیشہ رنج و الم میں مبتلا رہتا ہے، حالانکہ جس سے حسد کر رہا ہے وہ مزے سے جی رہا ہے، وہ نعمت اسی کے پاس موجود ہے، مگر حاسد آگ میں جل رہا ہے، تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ آدمی ایسی مصیبت اپنے سر مول لے۔ (اسلام کی اخلاقی تعلیمات، ص۲۰۳)

حسد کے درجے:

حسد کے کئی درجے ہیں؛

۱۔ دوسروں کا زوالِ نعمت چاہنا، یہ بہت بری بیماری ہے، اور نہایت ناپسندیدہ حرکت بھی۔

۲۔ کسی کو نعمت ملی ہے تو اس کی آرزو کرنا، لیکن اس سے چھن جانے کی تمنا نہ کرنا۔

۳۔ جو نعمت ِ خاص کسی کو حاصل ہے اسی کی آرزو تو نہ کرنا مگر اس جیسی نعمت کی آرزو کرنا۔

۴۔ اگر اسے نعمت حاصل نہ بھی ہو تو دوسرے سے چھن جانے کی دعا نہ کرنا۔

مولانا سید سلیمان ندویؒ نے حسد کے سات اسباب بیان کئے ہیں:

۱۔ بغض و عداوت؛یہ دشمنی میں مبتلا شخص کا حسد ہے، اگر دشمن کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اسے خوشی ملتی ہے،  اور اسے بھلائی ملے تو وہ رنج کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ غصّے میں اپنی انگلیاں مروڑنے لگتے ہیں، کافروں کو مسلمانوں سے ایسا ہی حسد ہوتا ہے۔ (ان تمسسکم حسنۃ تسؤھم، وان تصبکم سیّءۃ یّفرحوا بھا۔۔) (آل عمران:۰۲۱)۔(تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔)

۲۔ ذاتی فخر کا خیال؛ یہ عموماً ہم عمروں اور ایک جگہ پر رہنے والوں یا کام کرنے والوں کا باہمی حسد ہے، ان میں سے اگر ایک آگے بڑھ جائے تو دوسروں کو یہ بات گراں گزرتی ہے،۔ (پروفیشنل جیلیسی بھی اسی کی ذیل میں آتی ہے۔)

۳۔ کسی شخص کو اپنے زیر ِ اثر رکھنے کی خواہش؛ مگر وہ کسی امتیاز کی بنا پر اس حلقے یا دائرے یا اثرسے باہر نکل جائے۔جیسے کفار قریش غلاموں اور کمزور مسلمانوں سے حسد کرتے تھے۔ اور کہتے تھے:  (اھؤلاء منّ اللہ علیھم من بیننا) (الانعام، ۳۵)

(کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے؟)

۴۔اپنی نظر میں کسی کو معمولی اور حقیر سمجھنا، اور اگر اسے کوئی شرف حاصل ہو جائے تو اس سے حسد کرنا؛ سرداران ِ قوم اسی بنا پر انبیاءؑ سے حسد کرتے تھے۔  (ء انزل علیہ الذکر من بیننا) (ص، ۸)

(کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھاجس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا؟)

ابوجہل نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم نے بنی عبد مناف سے ہر میدانِ شرف میں مقابلہ کیا، جنگ، باہم کھانا کھلانے، سواریاں بہم پہنچانے میں ان سے برابری کی، اور اب وہ کہتے ہیں:  ”منّا نبی یاتیہ الوحی من السماء“، ہم میں یہ نبی ہیں ان پر آسمان سے وحی آتی ہے۔ابو جہل کا حق سے انکار اسی حسد کا شاخسانہ تھا۔

۵۔ دو آدمیوں میں کوئی وجہ اشتراک ہو پھر ان میں سے کسی ایک کو  کامیابی مل جائے تو دوسرا حسد میں مبتلا ہوتا ہے؛ حضرت یوسف کے بھائیوں کا حسد اسی قسم کا تھا۔ ایک شوہر کی متعدد بیویوں میں بھی اسی قسم کا حسد ہوتا ہے۔

۶۔ جاہ پرستی اور ریاست طلبی؛  یہودیوں کو مسلمانوں سے اسی بنا پر حسد تھا۔

۷۔ خبث ِ باطن اور بد طینتی؛ بعض لوگوں کی فطرت ہی میں ٹیڑھ اور کجی ہوتی ہے، وہ کسی کا بھلا نہیں دیکھ سکتے۔

(دیکھئے:سیرت النبی، ج۶، ص۹۸۴)

حاسد سے بچنے کی تدابیر

علامہ ابنِ القیم نے حاسد کے شر سے بچنے کے لئے دس تدابیر بتائی ہیں:

۱۔ اللہ کی حفاظت طلب کی جائے۔ (دعاؤں اور استعاذہ کا اہتمام کرے۔)

۲۔ حاسد کی باتوں پر صبر کرے، اور اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے، اسے نقصان پہنچانے کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے۔

۳۔ ہر حال میں تقوی کی روش اختیار کی جائے۔ (وان تصبروا وتتقوا لا یضرّکم کیدھم شیئاً) (آل عمران: ۰۲۱)۔(اگر تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو،تو ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی۔)

۴۔ اللہ پر توکل کرے، یہ دفعِ مظالم کے لئے سب سے طاقت ور ذریعہ ہے۔(ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ) (الطلاق:۳)

(جو اللہ پر بھروسہ کرے وہ اس کے لئے کافی ہے۔)

۵۔حاسد کی فکر سے دل کو فارغ کر لے، اور اسے اس طرح نظر انداز کر دے گویا وہ ہے ہی نہیں، کیونکہ اس کی فکر میں پڑنا حاسد سے مغلوب ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔  یہ ایک فائدہ مند نسخہ ہے، اور اس کے شر سے خود کو بچانے کی بہترین تدبیر بھی ہے۔

۶۔ اللہ کی جانب متوجہ ہو، اور اس سے اپنے تعلق کو اخلاص، انابت، اس سے محبت اور رضا کی بنیاد پر استوار کرے۔ (انّ عبادی لیس لک علیھم سلطان) (الحجر: ۲۴)

(بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چل سکے گا۔)

۷۔ اللہ کے حضور توبہ؛ کیونکہ دشمن کے تسلط اور غلبے کی ایک وجہ بنی آدم کے گناہ بھی ہیں۔ (وما اصابکم مّن مّصیبۃ فبما کسبت ایدیکم) (الشوری: ۰۳)

(تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے۔)

۸۔ صدقہ و خیرات کرتا رہے؛ اس کی بڑی حیران کن تاثیر ہے، نظر بد، دفع بلا اور حاسد کے شر سے بچنے کے لئے یہ ایک کارگر تدبیر ہے۔

۹۔ حاسد کے ساتھ بھلائی اور احسان کا معاملہ کرے، یہ اگرچہ طبیعت پر شاق گزرتا ہے مگر حاسد سے بچاؤ کی کارگر تدبیر ہے، قطع نظر اس کے کہ حاسد کے دل کی جلن محسود کے اس نیک رویے سے مٹتی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (ولا تستوی الحسنۃ ولا السیّءۃ۔۔ ولی حمیم) (حم السجدۃ: ۴۳)

(نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔)

۰۱۔ عقیدہء توحید پر مضبوطی سے جما رہے اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردے کیونکہ نفع و نقصان کا اکیلا مالک وہی ہے،  اورجس دل میں توحید بسی ہو ئی ہو، اس میں خدا کے خوف کے ساتھ کسی اور کا خوف جگہ ہی نہیں پا سکتا۔ (وان یمسسک اللہ بضرّ فلا کاشف لہ الا ھو، وان یردک بخیر فلا رادّ لفضلہ) (یونس: ۷۰۱)

(اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔)

حسد سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی اللہ کی رضا پر راضی  رہنا سیکھے اور سمجھ لے کہ اس دنیا میں اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور جسے چاہے محروم کر دیتا ہے، اور تمام معاملات اللہ کے حوالے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

(ولا تتمنوا ما فضّل اللہ بہ بعضکم۔۔واسئلوا اللہ من فضلہ)  (النساء، ۲۳)

(اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔۔ ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو۔)

اگر بشری کمزوری کے سبب مسلمان کے دل میں حسد آ بھی جائے تو وہ اسے دفع کرتا ہے اور اسے ناپسند کرتا ہے اس کا خیال بار بار اس کے دل میں آئے، اگر اسے کوئی چیز پسند آئے تو کہتا ہے:

”ما شاء اللہ، لا قوۃ الّا باللہ“

(جو اللہ چاہے، ہر کام کی طاقت و قوت اللہ کے پاس ہے۔) اور اس طرح وہ خیال کی تباہ کاری سے محفوظ رہتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں فساد کی جڑ یہ ہے کہ آدمی کسی کو اپنے سے بڑھا ہوا دیکھنا گوارا نہ کرے، اور اس کو ملنے والی نعمتوں پر کڑھنے لگے۔

حسد ایک ایسا مرض ہے جس سے ہم سب کو بچنا چاہئے، یہ منفی جذبہ بڑی خاموشی سے آدمی کے اندر داخل ہوتا ہے، عموماً حسد اپنے گرد و نواح کے صاحب ِ فضل افراد سے ہوتا ہے، جو اپنے ہی خاندان، قبیلے، اور پڑوس اورحلقہ احباب کے  قابل ِ قدرپیارے اور معاشرے کے مفید افراد ہوتے ہیں،  زندگی کی شاہراہ پر علم، ہنر، قوت، مال و دولت یا دین میں سعی و جہد اور اللہ کے کرم اور فضل کی بنا پر آگے نکل جاتے ہیں، تو پیچھے رہ جانے والوں کے دل کا چور ان کی کامیابیوں یا کارناموں پر گھٹن محسوس کرنے لگتا ہے، اور انکے ذکر پر اپنا بغض و کینہ چھپا نہیں سکتا، اور حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں حسد  کے مرض سے بچائے اور حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین

٭٭٭

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں