چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا

ایک زمانہ تھا کہ جب آڈیو یا ویڈیو ٹیکنا لوجی کیلئے کیسٹ استعمال ہوتے تھے۔ پاکستان میں ٹیلیوژن صرف سرکار کی تحویل میں ہی ہوتا تھا جس کے بھی اوقات مقرر ہوا کرتے تھے۔ نجی ٹی وی چینلز کا تصور بھی پاکستان میں موجود نہیں تھا البتہ کچھ لوگوں کے گھروں میں ڈش انٹینا لگے ہوئے ضرور ہوتے تھے جو اس زمانے کے لحاظ سے ایک بیش قیمت چیزتھی اس لئے ڈش انٹینا سے لطف اندوز ہونے والوں کی تعداد بہت ہی محدود ہوا کرتی تھی۔ آڈیو کیسٹ کو پلے کرنے کیلئے کیسٹ پلیئر اور ویڈیو کیسٹ کو پلے کرنے کیلئے وی سی پی یا وی سی آر ہوا کرتے تھے جن کی مدد سے لوگ اپنی مرضی کے گانے، فلمیں، ڈرامے اور ہر عمر اور ذوق کے لحاظ سے ریکارڈ کئے گئے مختلف پروگرامز سن یا دیکھ کر حسب مزاج لطف اندوز ہوجایا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں بچوں کیلئے کہانیوں کے آڈیو کیسٹ بازار میں ملا کرتے تھے جس میں ایک کہانی “پیرِ تسمہ پا” کے عنوان سے بہت مشہور ہوئی۔ یہ ایک سیدھے سادے بھولے بھالے مگر جذبہ ہمدردی سے مامور ایک بچے کی کہانی تھی۔ اس بچے نے ایک جنگل میں نہایت ضعیف، مفلوک الحال بوڑھے کو بہت کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہوئے پایا تو ترس کھاکر اس کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا تاکہ اسے کسی مناسب جگہ چھوڑ سکے۔ کچھ دور چلنے کے بعد بچے نے اس ضعیف اور نحیف بوڑھے سے پوچھا کہ بابا آپ کو کہاں اتاروں تو اس نے کہا “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا”۔ پہلے تو بچہ یہی سمجھا کہ جس راستے پر وہ رواں دواں ہے یہی راستہ اس بوڑھے کی منزل تک جاتا ہو لیکن کافی دور چلتے رہنے کے باوجود بھی ہر بار بچے کے پوچھنے پر کہ بابا کہاں جانا ہے، کے جواب میں بوڑھے کا یہی جواب ہوتا کہ “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا” تو بچے کو پریشانی ہوئی۔ اس نے کچھ دیر آرام کی خاطر جب اس بوڑھے کو اپنے کندھے سے اتارنا چاہا تو وہ یہ جان کر پریشان ہوگیا کہ وہ بوڑھا تو کسی آکٹوپس کی طرح اس سے چمٹ کر رہ گیا ہے اور اس کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ اسے اپنے کندھے سے اتار سکے بلکہ وہ سستانے کیلئے نہ بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی کچھ دیر کیلئے ٹھہر سکتا ہے۔ یہ جان کر وہ سخت پریشان ہوگیا لیکن اس کے پاس اس پیرِ تسمہ پا سے نجات کا فی الحال کوئی علاج تھا ہی نہیں۔

خبر ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ “امریکی جنگ میں شرکت پاکستان کاغلط فیصلہ تھا”۔ یہ وہ بات ہے جو پہلے مشرف دور کی اپوزیشن بہت یقین اور شدت کے ساتھ کیا کرتی تھی اور یقیناً موجودہ حکمران اُس وقت کی اپوزیشن کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جو اس بات کو بہت شدت سے اٹھاتے رہے بلکہ ایک مرتبہ یوں بھی ہوا کہ امریکہ کی جنگ کی مخالفت میں انھوں نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان کے راستے جانے والی نیٹو سپلائی کو بھی کافی عرصے روکے رکھا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا قدم تھا پھر بھی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان نے ایسا کردکھایا۔ انتخاب جیتنے اور کرسی اقتدار پر پہنچ جانے کے باوجود بھی عمران خان نے دوسرے نو منتخب حکمرانوں کی طرح امریکہ کا دورہ کرنے میں کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ایک سال تک تیل اور تیل کی دھار کو دیکھتے رہے۔ اپوزیشن سے کرسی اقتدار تک کا سفر اور پھر ایک سال حالات کا جائزہ لینے کے بعد کیا اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ بچے کے کندھے پر چڑھا پیر تسمہ پا اتر گیا؟۔ یہ ہے وہ نقطہ جس پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔

یہ پیرِ تسمہ پا نہ صرف پاکستان کے کندھوں پر بری طرح سوار ہے بلکہ “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا” کی صدائیں لگاتا جارہا ہے اور چابک پر چابک مارے جارہا ہے اور کسی جگہ بھی سستانے کیلئے کھڑے ہونے تک کی اجازت بھی نہیں دے رہا۔

بظاہر وہ جماعت جو اپنے آغاز سے یہی کہتی آئی ہے کہ ہم امریکہ کی چاکری نہیں کریں گے اور اس کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن وہ قدم قدم پر اس کی قدم بوسی کیلئے مجبورِ محض دکھائی دے رہی ہے بلکہ پہلی حکومتوں سے کہیں بڑھ کر وہ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ وہی کرے جو کہا جارہا ہے۔

پاکستان میں اپنے ہی تربیت یافتہ جہادی بھائیوں پر دن رات بمباریاں کرنا، جہادی تنظیموں پر پابندیاں لگانا، ان کے فنڈز منجمد کرنا جیسے اقدامات “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا” کے اشاروں پر ہی کئے جاتے رہے ہیں۔ اگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو ان سب اقدامات کا امریکی دورے سے قبل اٹھایا جانا بھی “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا” کی ہدایات پر لبیک کہنے کے ہی مترادف تھا۔ ہر وہ قدم جو “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا” یا باالفاظ دیگر “ڈومور” کے زمرے میں آتا ہے، اٹھاتے چلے جانے کے باوجود بھی بار بار حکومت میں بیٹھی اہم شخصیات کی جانب سے یہی کہنا کہ پاکستان کا امریکی جنگ میں شرکت کا فیصلہ غلط تھا، صرف قوم کو بیوقوف بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں اس لئے کہ جو پیرِ تسمہ پا، مصلحتاً یا حماقت کے نتیجے میں، پاکستان کے کندھوں پر، چڑھایا گیا ہے یا چڑھ چکا ہے، وہ جب تک طفیلی بیل کی طرح پاکستان کا سارا لہو نہیں نچوڑ لیگا اس وقت تک پاکستان کی جان نہیں چھوڑے گا۔

یہ بات میں کسی قیاف یا قیاس کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں۔ جناب عارف علوی صاحب، صدر پاکستان کی اسی تقریر کے تسلسل میں کہہ رہا ہوں جس میں ایک جانب وہ یہ فرما رہے ہیں کہ امریکہ کی جنگ میں شرکت پاکستان کی غلطی تھی تو اس کے فوراً بعد ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ “ہر فیصلہ کرتے ہوئے ہمیں ملکی مفاد مقدم رکھنا ہوگا”۔ یہ جملہ اس بات کی چغلی کھارہا ہے کہ “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا” کی احکامات کے ساتھ ساتھ چابک بھی مسلسل برسائی جارہی ہے اور اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے کہ کسی بھی قسم کی سستی کے مظاہرے پر کھال بھی ادھیڑی جاسکتی ہے۔

تقریر کی اسی روانی میں صدر مملکت جناب عارف علوی صاحب اپنی بے بسی اور بندھے ہوئے ہاتھوں کا ثبوت اس طرح پیش کرتے ہوئے نظر آئے کہ”کشمیر میں غاصب بھارتی افواج تشدد، قتل و غارت، پیلٹ گن کے استعمال اور خواتین کی عصمت دری جیسے سفاکانہ اقدامات سے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے، اگر دنیا نے بھارت کی کشمیر میں نسل کشی کا نوٹس نہ لیا تو بڑا عالمی بحران جنم لے سکتا ہے”۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کشمیر پر دعویٰ ہمارا تھا، جو ہماری شہ رگ گناجاتا تھا اور جہاں کے کشمیری پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر بھارت کے خلاف کھلی بغاوت پر اتر آئے تھے، جب پاکستان ان کیلئے کسی بھی قسم کا کوئی عملی قدم اٹھانے کیلئے تیار نہیں اور ساری کی ساری ذمہ داری وہ اقوام عالم پر ڈالنا چاہتا ہے تو کیا دنیا محض طعنہ زنی کرنے پر پاکستان کی جنگ میں کود پڑے گی؟۔ بے شک افغان وار تو امریکہ کی تھی لیکن آپ اس کا حصہ بن گئے لیکن وہ جنگ جو بہرلحاظ پاکستان کی اپنی جنگ ہے، کیا اس سے گریز اس بات کا ثبوت نہیں کہ آپ اس جنگ میں شریک نہ ہونے کے حصے دار اسی “پیرِ تسمہ پا” کے کہنے پر بن رہے ہیں۔

ایک جانب آپ کا رویہ کشمیر کیلئے صرف چیخنے پیٹنے کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تو دوسری جانب بھارت کی عسکری قوتیں مقبوضہ کشمیر پر قابو پانے کے بعد کیا ارادہ رکھتی ہیں، ذرا اس پر بھی غور فرمالیں۔ بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے کہا ہے کہ “بھارتی فوج آزاد کشمیر میں فوجی کارروائی کے لیے تیار ہے۔ فوجی کارروائی کا فیصلہ سیاسی حکومت نے کرنا ہے”۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی اپنے ایک بیان میں ہرزہ سرائی کی تھی کہ “پاکستان سے مذاکرات مقبوضہ پرنہیں آزاد کشمیر پرہوسکتے ہیں”۔

وہ کشمیر جس پر 72 برسوں سے پاکستان یہی کہتا رہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، آج اس کو باقائدہ بھارت میں نہ صرف ضم کردیا گیا ہے بلکہ بھارت کی ساری عسکری قوت اس پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ گئی ہے اور پاکستان دنیا میں صرف چیختا چلاتا پھر رہا ہے کہ اس کا پڑوسی اس کے ساتھ ظلم کررہا ہے۔ اگر صرف شور کرنے سے دنیا سے ظلم و ستم ختم ہو سکتا ہوتا تو برما، فلسطین، چین اور افغانستان کے مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم ختم ہو چکے ہوتے۔ دنیا کا وہ کونسا ایوان ہے اور وہ کون سی انسانوں کے حقوق کی تنظیمیں ہیں جو ان مظالم کے خلاف آوازیں نہیں اٹھاتی رہی ہیں۔

بات یہی ہے کہ اس بات کا کتنا ہی رونا کیوں نہ رویا جائے کہ امریکہ کی جنگ میں شرکت ہماری غلطی تھی یا ہم ہر فیصلہ قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کریں گے، لیکن آپ مجبور ہیں کہ پیرِ تسمہ پا  “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا” کی گردان سے کسی صورت باز نہیں آئے گا۔ اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ قوم سے جھوٹ بولنے کی بجائے اسے حقیقی صورت حال سے آگاہ کریں۔ بتائیں کہ وہ پیر تسمہ پا کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اور اپنے پیٹوں پر پتھر باندھنے کی تیاری کرے۔ قوم اگر پاکستان بنا سکتی ہے، اگر نیٹو کی سپلائی بند کر سکتی ہے، 65 اور 71 کی جنگ لڑ سکتی ہے اور افغانستان میں روس کی طاقت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ سکتی ہے تو وہ اس پیرِ تسمہ پا کا  “چلتے رہو بابا چلتے رہو بابا” کی فرمائش کا منھ بھی کچل کر رکھ سکتی ہے۔ لہٰذا غیروں کی بجائے اپنی قوم پر بھروسہ کریں پھر دیکھے کہ یہ غازی، یہ اللہ کے پُر اسرار بندے پہاڑوں کو اپنی ایک ٹھوکر سے کیسے ریزہ ریزہ کر سکتے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں