کراچی کے مسائل کاحل۔ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں

میں اپنے کئی بلاگز میں کراچی کے مسائل پر گفتگو کرچکا ہوں اور وقتاً وفوقتاً ان کا حل بھی پیش کرتا رہا ہوں۔ تاہم کراچی کے کچرے پر آج کل سیاسی گرماگرمی عروج پر ہے۔ آرٹیکل 149کے تحت کراچی کو وفاق کے تحت کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ کراچی قیام پاکستان سے قبل اور بعد تک دارالحکومت رہا ہے۔ اسی طرح یہ شرف حیدرآبادکو بھی حاصل ہے۔ جب تک یہ دونوں شہر دارالحکومت رہے تب تک اس شہر کے مسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ ایک منظم سسٹم کے تحت تمام امور نمٹائے جارہے تھے۔
کراچی کے مسائل سیاسی مفادات کے تحت سیاستدانوں کے خود پیدا کردہ ہیں جس میں پانی کا مصنوعی بحران،بجلی کی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ،صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات، پبلک ٹرانسپورٹ کا بے ڈھنگا پرائیوٹ نظام اور اب کراچی کا کچرا شامل ہیں۔ ہم بھارت کا مذاق اڑانے میں لگے رہے کہ وہ چاند پر پہنچ نہیں سکا،صرف د ومنٹ کی دوری پر ہی اس کا نظام فیل ہوگیا۔ لیکن دیکھا جائے تو درحقیقت ہمار ے سیاستدانوں کا دماغ فیل ہوچکا ہے،بھارت نے اپنی محنت اور کوشش سے چاند کے اس حصے کو چھونے کی کوشش کی جہاں اب سے پہلے کوئی نہیں گیا۔ مگر ہم تو وہاں بھی نہ پہنچ سکے جہاں دنیا کئی برس پہلے ڈیرے جما چکی ہے۔ اب تو چاند سے آگے بھی دنیا کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔ ہم آج بھی لکیر کے فقیر کی طرح دوسروں کا مذاق اڑانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔معاف کیجیے ہم آج بھی کچرے پر سیاست کررہے ہیں اور شاید یہی ہمارا مقدر بن چکا ہے۔ کچرے کا مسئلہ حل ہوگا تو اس کے بعد سیوریج کی باری آئے گی، اسی طرح ہم روزانہ ایک مسئلہ پیدا کریں گے اور ایک مسئلہ حل کریں گے۔ پاکستانیوں کی زندگی اسی میں گزر جائے گی۔
ہم نے تعلیم پر کوئی توجہ دینی ہے اور نہ ہی ہم نے آئی ٹی شعبے کی طرف دیکھنا ہے جو انتہائی پستی کاشکار ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا اوربنگلا دیش ہم سے کئی برس بعد وجود میں آیا۔ لیکن تعلیم اورآئی ٹی کے شعبے میں یہ دونوں ملک بلین ڈالرز باہر سے اپنے ملک بھیج رہے ہیں جب کہ ہم تعلیم بھی باہر جاکر حاصل کررہے ہیں اور آئی ٹی بھی وہ استعمال کررہے ہیں جو یہ دونوں ممالک استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں۔ کراچی پاکستان کوکماکر دینے والا ایک ایسا بڑا بیٹا ہے جس کے حصے میں صرف قربانیاں ہی لکھی گئی ہیں۔ کراچی کے نصیب میں خوشحالی نہیں،اب کراچی صرف اپنے زخموں کو دیکھ دیکھ کر تکلیف سے کراہ رہا ہے اور اس کی موجودہ حالت کے ذمے دار ہمارے وہ نیم حکیم سیاسی ڈاکٹر ہیں جنہیں اگر کان کا درد بتایاجائے تو وہ دانت نکال دیتے ہیں۔ کراچی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیاگیا۔تکلیف ان سیاسی ڈاکٹروں سے تھی اورزخم دل میں کردیے۔
اب بھی حالات کو قابو کیاجاسکتا ہے اور آرٹیکل 149کے نفاذ کے بغیر ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں اگر سیاسی نیم حکیم ڈاکٹرسنجیدگی اختیار کریں۔ آج دنیا میں ہر جگہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اور وہ لوگ اس کا ہر شعبے میں بھرپور استعمال بھی کررہے ہیں جس سے ایک طرف ان کی معیشت دن رات ترقی کررہی ہے وہیں ان کے عوامی مسائل میں بھی 80فیصد کمی آئی ہے۔ چین نے ایک حال ہی میں ایک منصوبہ پیش کیاہے جس میں اس نے آئی ڈی کارڈ،ڈیبیٹ کارڈ اور نقد رقم سے لوگوں کو چھٹکارا دلایاہے۔ اس کا متبادلہ صرف اس کا چہرہ ہوگا جس سے اس کی تمام تر بنیادی ضروریات پوری ہوجائیں گی۔
کراچی کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ملازمین تبدیل کیے جائیں، مثال کے طورپر بلدیہ ٹاؤن کے تمام ملازمین کو لانڈھی ٹاؤن بھیج دیاجائے اور لانڈھی والوں کو بلدیہ، اسی طرح دیگر ٹاؤنز کے تمام افسران وملازمین کو بھی آگے پیچھے کردیاجائے۔ چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم یہ رکھا جائے جس طرح یونائٹیڈ نیشن کے ذیلی ہیلتھ ادارے ڈبلیو ایچ ایو اپنے ملازمین کی آفس ٹائمنگ میں ہر وقت لوکیشن چیک کرتا ہے،اسی طرح ورکنگ گروپ بنا کر ہر ملازمین اورہر افسران کی لوکیشن،وقت اورکام کی نوعیت چیک کی جائے۔ اسی طرح جی پی آر ایس سسٹم بھی مہنگا نہیں،حکومت جہاں عیاشی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کردیتی ہے وہیں چند ہزار روپے اس سسٹم پر لگا کر، تمام ملازمین کو جی پی آرایس سسٹم سے لیس کردینے سے جہا ں ان ملازمین کی نقل وحرکت چیک کی جاسکتی ہے وہیں موقع پرانہیں پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ اس سسٹم سے کئی فوائد حاصل ہوں گے اس سے نہ صرف وقت کی پابندی بھی ہوگی بلکہ حاضری سسٹم بھی۔اسی طرح جی پی آر ایس سسٹم کے تحت کردینے سے کوئی بھی لیٹ نہیں ہوگا اور جو لیٹ ہوگا اس کی آئی ڈی آٹو میٹک بلاک ہوجائے گی جس سے وہ شخض غیر حاضر تصور ہوگااور اس کی تنخواہ میں کٹوتی بھی کردی جائے۔ اس سے یقیناً کوئی بھی افسراور ملازم نہ تو لیٹ ہوگا اور نہ ہی کوئی ڈرامے بازی کام آسکے گی اور کام بھی روزانہ کی بنیاد پر ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ایپ کو گوگل پلے اسٹور پر اپ لوڈ کردیاجائے تاکہ ہر شہری اسے ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے علاقے کے سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو خود دیکھ سکے اور عوام کویہ بھی معلوم ہوسکے کہ آج ان کی گلی میں صفائی کرنے والا کون ہے۔ کیا نام ہے اور اس وقت وہ کہاں پر ہے۔ساتھ ہی اس ایپ میں کمپلین آپشن رکھ دیاجائے،جیسے ہی کوئی کپملین آئے آپ کے سامنے تمام لوگوں کا ڈیٹا موجود ہوگا اور آپ اسی وقت اس کی لوکیشن اور کارکردگی کاجائزہ لے کر فوری فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ا س ایپ سے وزیراعلیٰ سمیت تمام اعلیٰ افسران کو لنک کردیاجائے، تاکہ وہ بھی لمحہ بہ لمحہ اپنے افسران کی کارکردگی کا جائزہ لے سکیں۔ اس سے اگر کوئی سیکورٹی ایشو ہوگا تو اس کا حل بھی انتہائی آسان ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ پولیس کی نقل وحرکت کو بھی مانیٹر کیاجائے کہ وہ اس وقت کہاں کہاں موجود ہے اور کیا کیا کررہی ہے تاہم پولیس نیٹ ورک سسٹم کو عوام تک رسائی نہ دی جائے اس سے یقیناً پھر معاملات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
یہ کوئی جدید ترین ٹیکنا لوجی نہیں جس کا ہم نے ذکر کیا ہے آج دنیا بھرمیں اس سے کہیں گنا زیادہ جدید سسٹم کے ذریعے ادارے اپنے ملازمین کی چوبیس گھنٹے نقل وحرکت کو نوٹ کررہے ہیں، چِپ کے ذریعے ان کی صحت کا بھی جائزہ لیاجارہاہے،اگر کوئی ملازم یہ کہتا ہے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ آفس سے غیر حاضر رہے گا تو یقین کریں وہ فوری طورپر چیک کرسکتے ہیں کہ آیا وہ بیمار ہے یا نہیں۔ لیکن ہم اتنی جدیدٹیکنالوجی کے استعمال کا نہیں کہہ رہے بلکہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات کررہے ہیں جو ملٹی نیشنل ادارے پاکستان میں اپنے ملازمین کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے کراچی کے مسائل کے حل میں تو جب تک وہ ٹیکنالوجی کا سہارا نہیں لے گی حالات بہتر نہیں ہوں گے کیوں کہ کراچی میں جہاں سیاسی نیم حکیم ڈاکٹروں کی کمی نہیں وہیں ہر سرکاری اداروں میں ان کے چیلوں کی بھی کمی نہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے یقیناً جہاں ملازمین کی حرام خوری بند ہوگی وہیں افسران بالا کی ہڈحرامی اور رشوت ستانی بھی ختم ہوجائے گی۔ اس سے قبل میں نے اسی طرح ایک اوربلاگ میں اسی ایپ کا ذکر کیا تھا جس میں ایپ کے ذریعے حکومت اپنی وہ اشیاء فروخت کرسکتی ہے جو اس کے زیر استعمال نہیں۔ اس سے بھی عوام الناس کو بے حد فائدہ ہوگا۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں